تحریر: شاہد شکیل دنیا کے ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے اچھا کھائیں پئیں ، پہنیں اوڑھیں اور ہر قسم کی تکلیف سے دور رہیں ،آعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور دنیا میں نام کمائیں ،والدین ساری زندگی اپنے بچوں کو دیکھ کر جیتے ہیں اور مرتے دم تک بچوں کی خیر و عافیت چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف اسی دنیا میں برے انسانوں کی بھی کمی نہیں ،کسی انسان کے رنگ وروپ ،آنکھوں یا گفتگو سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ کس قماش کا انسان ہے کیونکہ موجودہ دور میں تقریباً ہر انسان نے چہرے پہ چہرہ لگا رکھا ہے اور پہچان مشکل ہو گئی ہے ۔وقت کی تیز رفتاری اور آج کا نام نہاد ترقی یافتہ میڈیا اگر ایک طرف مثبت کردار ادا کر رہا ہے
دوسری طرف لاتعداد خامیوں اور برائیوں کی عکاسی کرنے میں بھی سر فہرست ہے ،میڈیا اتنا زیادہ اوپن ہو چکا ہے کہ اگر ایک طرف کئی افراد کیلئے مطالعہ کرنا ،دیکھنا یاسننا باعث زحمت ہے تو دوسری طرف اسی میڈیا کی مہربانیوں نے کئی افراد کو ذہنی طور پر شدید کومپلیکس میں مبتلا کر دیا ہے ایسے افراد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں اور یہی وہ چند افراد ہیں جو ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے کے سبب تسکین حاصل کرنے کیلئے بچوں اور خواتین کو ہوس کا نشانہ بنا رہے ہیں ایسے افراد نارمل ہوتے ہوئے بھی نارمل نہیں ہیں کیونکہ یہ سب معاشرے کا حصہ ہیں اور انہیں انکے کئے کی سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن کسی جیل خانے میں نہیں بلکہ انہیں آرام و سکون کے ساتھ تھیراپی کی اشد ضرورت ہے ماہر نفسیات ہی ان کا علاج کر سکتے ہیں ۔
Defense
انہی افراد سے اپنے بچوں کو بچانے کیلئے ہمیں خاص ترغیب و ٹریننگ دینی ہو گی کہ کیسے اپنا تحفظ اور دفاع کیسے کیا جائے کیونکہ ایسے افراد اپنی جنسی ہوس کی تکمیل کیلئے بے ضرر خواتین و بچوں کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے ،ان افراد کی درندگی سے اپنے بچوں کو کیسے بچایا جائے یا بچے اپنے دفاع کیلئے کون سی تیکنیک یا حربہ استعمال کریں کہ کم سے کم زندہ تو رہ سکیںاس موضوع پر ایک جرمن سابقہ پولیس آفیسر نے تفصیل سے بتایا کہ پہلی بات تو یہ کہ بچے فوراً ہر بات پر یقین کرتے ہیں اور اسی اندھے یقین سے وہ جنسی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں،اکثر والدین اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہمارے بچے کو کچھ نہیں ہوگا وہ بہت ہوشیار ہے وہ کسی اجنبی کے بہکاوے میں نہیں آئے گا اور نہ اسکے ساتھ کہیں جانے پر رضا مند ہوگا اسکے برعکس کتنی جلدی بچے بہکاوے میں آجاتے ہیں کہ والدین سوچ بھی نہیں سکتے،پولیس آفیسر کا کہنا ہے بچوں پر جنسی حملے پہلے خاندان کے افراد سے متوقع ہوتے ہیں
دوسرا خطرہ ہمسایوں سے اور تیسرے نمبر پر اجنبی افراد کا خطرہ ہوتا ہے ،جنسی حملوں کا شکار زیادہ تر پرائمری سکول کے بچے ہوتے ہیں سوال یہ ہے کہ بچے اپنا دفاع کیسے کریں جس سے کم سے کم خطرات لاحق ہوں۔ پولیس آفیسر شمت کا کہنا ہے اکثر والدین سے یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ہزار بار آپ کو سمجھایا ہے کسی اجنبی کے ساتھ کہیں نہیں جانا اور اس وارننگ کے باوجود دنیا بھر میں بچے پاگل جنسی جنونیوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور یہ جنونی اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد انہیں جان سے مار دیتے ہیں تاکہ کوئی نشان باقی نہ رہے،اجنبی افراد اکثر ٹرکس اور چکنی چپڑی باتیں کر کے بچوں کو بہکاتے ہیں اور انہیں باتوں کے جال میں پھنس کر بچے والدین کی نصیحتوں کو بھول جاتے ہیں ،پولیس آفیسر شمت کا کہنا ہے بچے بہت معصوم ذہن اور سوچ کے مالک ہوتے ہیں اور کسی بھی فرد کے بہکاوے میں آجانا تعجب کی بات نہیں ،شمت کا کہنا ہے میری ٹپس والدین کو عجیب ضرور محسوس ہونگی لیکن اگر ان پر عمل کیا جائے تو نتائج مثبت ظاہر ہو سکتے ہیں۔والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو خبردار کریں اور خود اعتمادی مضبوط کریں ،اکثر خوفزدہ والدین بچوں میں خود اعتمادی پیدا نہیں کر سکتے جس کے نتیجے میں بچے بہت جلد اجنبی افراد کی باتوں میں آکر جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ایسے بچے نہ اپنی حفاظت کر سکتے اور نہ دفاع میں کوئی تیکنیک یا حربہ استعمال کر سکتے ہیں ۔
Parents
تین ضروری اقدامات لازمی اور اہم ہیں۔ پہلی تجویز فیملی پاس ورڈ کا استعمال،بچوں کیلئے دوست اور دشمن کی تمیز کرنا آسان نہیں وہ نہیں جانتے کہ انکل کون ہے جو بہت قریب ہے؟ہمسایہ ہے؟یا ایک اجنبی بھی انکل ہو سکتا ہے؟پاس ورڈ سے مراد یہ کہ والدین اور بچوں کے درمیان فیملی پاس ورڈ قائم کرنا لازمی ہے جسے خاص قریبی افراد بھی استعمال کر سکتے ہیں کوئی اجنبی اس فیملی پاس ورڈ سے آگاہ نہیں اور بچوں سے دوران گفتگو جب تک کوئی اجنبی فیملی پاس ورڈ نہیں ادا کرے گا تو بچوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے اس لئے مخصوص پاس ورڈ یا الفاظ بچوں کو ذہن نشین کرانا لازمی ہے کہ جب تک کوئی فرد فیملی پاس ورڈ استعمال نہیں کرے گا اس سے دور رہیں۔تجویز نمبر دو۔ دفاعی تیکنیک کا استعمال۔ پرائمری سکول کے بچے جو اکیلے سکول آتے جاتے ہیں ہمیشہ خطروں میں گھرے رہتے ہیںانہیں اکیلا دیکھ کر کوئی بھی جنسی جنونی کسی وقت بھی حملہ کر سکتا ہے اس عمر کے بچے اپنا دفاع نہیں کر سکتے مثلاً کسی اجنبی کی آہنی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکتے اس قسم کی ہنگامی صورت حال سے نبٹنے کیلئے بچوں کو سمجھایا جائے کہ اپنے دفاع میں اجنبی کو دانتوں سے کاٹا جائے یا چیخنا چلانا اہم ہے تاکہ دیگر افراد متوجہ ہوں ان دونوں حربوں کے علاوہ بچے کوئی اور تیکنیک استعمال نہیں کر سکتے تجویز نمبر تین۔کنڈر گارڈن اور سکولوں میں پیشہ ورانہ سیفٹی ٹریننگ دینا۔
بچوں کو براہ راست تجربات کرنے کے دوران ٹریننگ دینا لازمی ہے مثلاً کنڈر گارڈن اور سکولوں میں اپنے دفاع کیلئے لائیو ڈرامہ کیا جائے جس میں اساتذہ اور بچے شامل ہوں کہ اگر کوئی اجنبی زیادتی کی کوشش کرے تو اپنا دفاع کیسے کیا جائے کیونکہ لائیو تجربہ کئی گنا کارآمد ہے نہ کہ محض تجسس سے بھرپور کہانیا ں سناناکہ اگر ایسا ہو تو ایسے کیا جائے وغیرہ۔پولیس آفیسر شمت اکثر کنڈر گارڈن اور پرائمری سکولوں میں بچوں کی دفاعی ٹریننگ میں حصہ لیتے ہیں اور پیشہ ورانہ تربیت سے بچوں کو اپنی حفاظت اور دفاع کے مخصوص طریقوں سے آگاہ کرتے ہیں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ تھیوری کے علاوہ پریکٹیکل کرتے ہیںاور بچے مختلف داؤ پیچ کو ذہن نشین کرتے ہیں علاوہ ازیں مختلف ویڈیو فلموں کے ذریعے بھی بچوں کو دفاعی تربیت دی جاتی ہے اس کورس کی تکمیل کیلئے سکول،کنڈر گارڈن،دفاعی ادارے اور پولیس ڈیپارٹمنٹ مل جل کر کام کرتے ہیں تاکہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہو اور ہنگامی صورت حال میں کسی بھی جنونی سے اپنا دفاع کیا جا سکے۔ اس لئے والدین کو چاہئے کہ بچوں کو کسی غیبی امداد کے انتظار کی بجائے تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل دفاعی تیکنیک اور حفاظت کے طور طریقے سمجھانا چاہئیں۔