بھارتی (جیوڈیسک) دارالحکومت دہلی کی یہ حقیقت بھی دلچسپ ہے کہ گذشتہ 40 سال کے دوران یہاں مسلمانوں کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن قبرستان کی تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب اس شہر میں 500 سے زیادہ قبرستان ہوا کرتے تھے لیکن صحافی افروز عالم ساحل کے مطابق آج ان کی تعداد ایک چوتھائی بھی نہیں رہ گئی ہے۔
البتہ دہلی وقف بورڈ کے مطابق دہلی میں آج بھی 488 قبرستان موجود ہیں لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ دہلی وقف بورڈ کے سیکشن آفیسر خورشید عالم فاروقی بتاتے ہیں کہ دہلی میں ابھی محض 70-80 قبرستان ہی استعمال میں ہیں یعنی انھی میں مردوں کو دفن کی اجازت ہے۔
سنہ 1971 کی مردم شماری کے مطابق دہلی میں صرف ساڑھے چھ فیصد مسلمان رہ گئے تھے جبکہ اب تقریبا پونے دو کروڑ آبادی والی دہلی میں مسلمانوں کا فیصد 11.7 ہے۔ خورشید عالم فاروقی بتاتے ہیں کہ بیشتر قبرستان غائب ہو گئے ہیں۔ زیادہ تر قبرستانوں پر غیر قانونی قبضے کر لیے گئے ہیں اور بعض قبرستانوں کی زمین کا استعمال حکومت دوسرے کاموں میں کر رہی ہے۔
سیاسی جماعت ویلفیئر پارٹی کے قومی سکریٹری سید قاسم رسول الیاس نے حق اطلاعات (آر ٹی آئی) کے تحت قبرستانوں کی جو تعداد مانگی تھی اس کی رو سے دہلی وقف بورڈ کے 1970 کے سرکاری نوٹیفکیشن میں 488 مسلم قبرستان درج ہیں۔ آر ٹی آئی سے حاصل شدہ دستاویزات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دہلی وقف بورڈ ان قبرستانوں کی دیکھ بھال کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ سنہ 2006 سے سنہ 2013 تک دہلی کے قبرستانوں کے دیکھ بھال پر صرف 13 لاکھ 97 ہزار 899 روپے خرچ ہوئے ہیں۔
آر ٹی آئی سے حاصل شدہ دستاویزات کے مطابق وقف کی 188 املاک پر ہندوستانی آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کا قبضہ ہے جن میں 11 قبرستان بھی شامل ہیں۔ اگرچہ آثار قدیمہ کے سروے سیکشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بي آر منی اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔
انھوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کیا حکومت کبھی غیر قانونی قبضہ کرتی ہے؟ان کا کہنا ہے ’محکمہ آثار قدیمہ انھی تاریخی وراثت کو اپنی نگرانی میں لیتا ہے جن کی تاریخی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وقف بورڈ کا کوئی ایسا ورثہ ہو جس کے ساتھ قبرستان بھی منسلک ہو۔ ورنہ ہم کیوں قبرستان کو اپنی دیکھ بھال میں لیں گے؟‘
جب دہلی وقف بورڈ کی املاک کی فہرست کی تحقیق کی گئی تو افروز احمد ساحل کے مطابق قومی دارالحکومت میں کل 562 چھوٹے بڑے قبرستانوں کا ذکر ملا۔ ان میں سے بعض درگاہوں یا مساجد سے منسلک ہیں اور بعض علیحدہ ہیں لیکن اب دہلی وقف بورڈ صرف 488 قبرستان ہی کی بات کرتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دستاویزات میں قبرستانوں کی تعداد 562 سے کم ہو کر 488 کیسے رہ گئی؟ اس سوال کے جواب میں دہلی وقف بورڈ کے سیکشن آفیسر بتاتے ہیں کہ وہ پہلے کی دستاویز ہوں گے کیونکہ پہلے تکیوں یا خانقاہوں کو بھی لوگ قبرستان میں ہی شمار کرتے تھے۔
بہر حال قبرستانوں کی تعداد میں کمی اب دہلی کے مسلمانوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ عالم یہ ہے کہ قبرستان انتظام سے وابستہ لوگوں نے ایک اجلاس منعقد کرکے یہ فیصلہ لیا ہے کہ اب کسی بھی قبرستان میں پکی قبریں بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دہلی کے مولانا آزاد میڈیکل کالج کے کیمپس میں واقع مشہور ذاتی قبرستان ’مہدیان‘ میں اب زمین کم پڑنے لگی ہے۔
مہدیان کے ناظم ولی محمد بتاتے ہیں کہ اس قبرستان میں 400 سے زیادہ علماء دفن ہیں اس لیے ہر کوئی چاہتا ہے کہ انھیں یہاں دفن کیا جائے۔لیکن زمین کی قلت کے پیش نظر جن کے آبا و اجداد یہاں دفن ہیں انھیں ہی وہاں دفن کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اردو کے معروف شاعر حکیم مومن خان مومن بھی اسی قبرستان میں دفن ہیں۔ آر ٹی آئی سے حاصل ہونے والے دستاویزات کے مطابق دہلی کا اندرپرستھ ملینیم پارک بھی قبرستان کی زمین پر ہی بنا ہے۔