دہلی یونیورسٹی میں کشمیر کی آزادی کے نعرے

Delhi University Protest

Delhi University Protest

تحریر : حنظلہ عماد
بھارت سرکار نے ایک عرصہ دراز سے دنیا کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش کی ہے کہ جنت نظیر وادی کشمیر میں سب معمول کے مطابق ہے۔ بس چند سرپھرے ہیں جو پاکستان کے کہنے پر ریاست میں امن مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور انھی سرپھروں کو قابو میں رکھنے کے لیے 8 لاکھ بھارتی فوج وہاں موجود ہے۔ اس جھوٹ کی لگاتار کثرت نے ایک حد تک دنیا کو بھی بھارت کا ہمنوا بنادیا تھا لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر میں شامل ہونے والے تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے نوجوانوں نے اس نظریہ کی کمر توڑ دی ہے کہ ہتھیار صرف وہ اٹھاتے ہیں جو پیسوں کے لالچ میں آتے ہیں۔ بلکہ اس وقت کشمیری یونیورسٹیوں کے طلبا کی طرف سے تحریک کا ہراول دستہ بننے سے نہ صرف بھارت سرکار بلکہ بھارت کے بہت سے پڑھے لکھے شہریوں کو بھی اس بات کی سمجھ آنے لگی ہے کہ بھارت سرکار ایک عرصہ دراز سے کشمیریوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر بھارت میں بہت سے نوجوان اب تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کررہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ بھارت کے انتہا پسند ہندئوں کی طرف سے اپنا موقف زبردستی منوانے کی بنیاد پر سامنے آنے والا رد عمل بھی ہے۔ چند ماہ قبل جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں افضل گورو کے عدالتی قتل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں یہی بات کھل کر سامنے آئی ہے۔ اگرچہ بھارت سرکار اور میڈیا نے اس بات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ یہ نعرے بازی اور ہنگامہ کچھ بیرونی طاقتوں کے اشارے پر ہوا۔ حتیٰ کہ نوجوان طلبا پر جہادی تنظیموں سے تعلق کا الزام بھی لگا، انھیں ڈرانے کے لیے غداری کے مقدمے قائم ہوئے اور ان کا میڈیا ٹرائل بھی ہوا لیکن یہ نوجوان طلبا شعور کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ بھارت سرکار کشمیریوں کے ساتھ سلوک کررہی ہے۔ چنانچہ ان کے احتجاج میں شدت آئی ہے اور محض جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے شروع ہونے والا احتجاج بھارت بھر کی 20یونیورسٹیوں تک پھیل گیا تھا۔

ملک بھر میں طلبا نے اس مقصد کی حمایت کی اور کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرنے پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ حالیہ دنوں میں پھر سے نئی دہلی کی یونیورسٹی میں رام جس کالج میں پھر سے کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگے ہیں۔اس دفعہ طلبا و طالبات صرف کشمیر تک محدود نہ رہے بلکہ طلبا نے چھتیس گڑھ کے قبائل بسترکے کے حق میں بھی نعرے لگائے۔ ان نعروں کی بنیاد دراصل یونیورسٹی میں ہونے والے ایک سیمینار کی منسوخی تھی جس میں جواہر لعل یونیورسٹی کے طالب علم عمر خالد کو مدعو کیا گیا تھا۔آر ایس ایس کے سٹوڈنٹ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے اس سیمینار کی کھل کر مخالفت کی اور یوں سیمینار منسوخ ہوگیا۔آل انڈیا سٹوڈنٹس نے اس پر احتجاج کیا اور ABVPکی طرف سے ان طلبا پر تشدد کیا گیا۔ چنانچہ ردعمل میں طلبا نے مظاہرے میں کشمیر اور بسترکے قبائل کی آزادی کے حق میں مظاہرے کیے۔یوں تو بھارتی میڈیا ایسے معاملات کو دبانے میں عالمی شہرت رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ معاملہ پورے بھارت میں زیر بحث رہا اور ایک بڑی تعداد نے کھل کر کشمیر کی آزادی کی حمایت کی۔اس دعویٰ کی دلیل بھارتی وزیر اطلاعات کا وہ بیان ہے کہ جس میں انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ اگر ایسے نعروں کو نہ روکا گیا تو ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں پھیل جائیں گے۔اگرچہ طاقت کے استعمال سے ان نظریات کو دبانے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے لیکن بھارت میں تحریک آزادی کشمیر کے لیے حمایت بڑھتی ہی جارہی ہے اور بھارت سرکار اس معاملے پر شدید پریشان ہے۔

ماضی میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں کہ جب بھارت سرکار کی کشمیر پالیسی پر نہ صرف تنقید کی گئی بلکہ بارہا اس بات کا بھی اظہار کیا گیا کہ بھارت سرکار کو اب کشمیر کو چھوڑ دینا چاہیے۔ 2010ء میں کشمیر میں چلنے والی تحریک میں جب تعلیم یافتہ اور امیر گھرانوں کے نوجوانوں نے شمولیت اختیار کی تو اس پر بھارت بھر سے ان کشمیریوں کے حق میںآوازیں بلند ہوئیں۔ اگرچہ بھارت سرکار نے ان آوازوں کو دبادیا لیکن پھر بھی کچھ آوازیں بیرونی دنیا تک سنی گئیں۔ ان آوازوں میں بھارتی معروف قلم کار ارون دھتی رائے کی آواز بڑی نمایاں تھی۔ وہ اپنے اس نظریے پر قائم ہیں کہ بھارت سرکار اور فوج کشمیر میں نہتی مظلوم عوام پر ظلم ڈھارہی ہے۔ ارون دھتی رائے نے ہی ماضی میں یہ بیانات دیئے کہ کشمیر میں کالے قوانین انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہیں اور اس کے علاوہ ان کا یہ بیان بھی بھارت میں کافی متنازعہ رہا کہ دہلی کی عورتوں کے ریپ پر تو شور مچایا جاتا ہے لیکن جو کشمیری عورتیں بھارتی فوج کے ہاتھوں ریپ ہوتی ہیں ان کے حق میں آواز بلند کیوں نہیں ہوتی۔ ارون دھتی رائے پر ہی الزام ہے کہ سید علی گیلانی کو ایک سیمینار میں بلوا کر اور تقریر کرواکر انھوں نے ملک دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔

اس جیسی آوازیں تو اگرچہ ماضی میں بھی اٹھتی رہی ہیں لیکن جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور اب دہلی یونیورسٹی اور کولکتہ یونیورسٹی کے طلبا کی طرف سے سرعام کشمیریوں کی حمایت کرنے پر بہت سی دبی آوازیں اور خدشات بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ یہ خدشات عوام میں تو موجود ہیں ،ساتھ ہی ساتھ خواص میں بھی اس کا شکار نظر آتے ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک سے بھارتی سیاستدان تک متفق نہیں ہیں۔ ان کی جانب سے بھی اب برملا کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی جارہی ہے۔ آندھرا پردیش کے ممبر پارلیمنٹ نے اپنی تقریر کے دوران پارلیمنٹ میں کہا کہ ”متواتر مرکزی حکومتوں نے رائے شماری کا وعدہ پورا نہ کرکے جموں و کشمیر کی عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ ” وائی آر ایس کانگریس پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ برائے پارلیمانی حلقہ پترو پتی وارا پرساد راویلا کاپلائی نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ” تاریخ کا مطالعہ کریں، ہم نے بار بار انھیں (جموں و کشمیر کے عوام کو ) دھوکہ دیا ہے۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے ہمیں اس کو دوسری طرف (پاکستان) کو دینا ہے۔ ہم نے ایسا نہیں کیا، اس کے بعد ہم نے رائے شماری کا وعدہ کیا ، وہ بھی پورا نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر ممبر پارلیمنٹ نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔الغرض بھارت سرکار کو اس وقت کشمیریوں سے تو جو خطرات ہیں سو ہیں اس وقت آگ اپنے ہی گھر میں بھڑک اٹھی ہے۔ بھارت سرکار کو اپنی ہی عوام اور سیاستدانوں کو جواب دینا پڑ رہا ہے کہ وہ کشمیر میں اتنے عرصے سے کیا کررہے ہیں اور کشمیری بھارت کے اس قدر معاشی پیکجز کے باوجود بھارت اور اس کی فوج کے اس قدر خلاف کیوں ہیں؟ بھارت کی نوجوان نسل کی طرف سے سامنے آنے والے کشمیریوں کے لیے ہمدردی کے جذبات بھارت سرکار کے واسطے ایک نیا درد سر ہیں۔ ان حالات میں مودی سرکار کیا ترتیب اختیار کرتی ہے اور حالات مزید کس نہج پر آگے بڑھتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اشارے اسی بات کے ہیں کہ بھارت سرکار صرف کشمیریوں کو آزادی نہ دے کر ایک بڑی مشکل میں گرفتار ہونے والی ہے اور یہ مشکل شاید بھارت کے وجود کو نگلنے پر بھی قادر ہے۔

Hanzala Ammad

Hanzala Ammad

تحریر : حنظلہ عماد