تحریر: پروفیسر مظہر آس کی ڈور بندھی ،اُمید کا دیا روشن ہوا ،فضاؤں میں سرگوشیاں ہونے لگیں کہ صحنِ چمن میں رقصِ بہاراں کی آمد آمد ہے۔ پھر چمن مہکے گا ،طائرانِ خوش الحان نغمہ سنج ہوںگے ،بادِ نسیم وشمیم کے جھونکے فضاؤں کو معطر کریں گے لیکن یہاں تو بادِ سموم کے اُٹھتے طوفاں سب کچھ تہس نہس کرنے کے درپے ہیں۔ بھری توندوں کا کھیل جاری ،دشنام طرازی اہلِ سیاست کا شیوہ بن چکی ۔قریہ بہ قریہ کو بکو آگ ہی آگ ،کوئی نغمہ ، کوئی خوشبو ،کوئی آس ،کوئی اُمید ، باقی نہیں۔ سب کچھ ہاتھوں کی لکیروں کی طرح عیاں۔ برہنہ تن ،برہنہ پا ،برہنہ سَر،مجبور و مقہور مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے ،دعائیں کرتے ، کہ یہ زندانی کب ختم ہوگی، کب اِس قحط الرجال سے کوئی مردِجری اُٹھے گا جو قوم کی ڈگمگاتی ناؤ کو ساحل سے ہمکنار کرے گالیکن دعائیں بھی مستجاب نہیں۔
سمت اور منزل سے عاری مسافروں کو راہبر نما راہزنوں کا یہ حکم کہ ناچ جمورے ناچ ۔ چھوڑو بھارت کی خباثتوں کو، چھوڑو امریکہ کی شرارتوں کو، مت سوچو کشمیر کے بارے میں، بھول جاؤ ملکی و قومی سلامتی کو ، تم صرف ناچو ،خواہ وہ موت ہی کا ناچ کیوں نہ ہو۔ تم ناچو کہ تمہارے ناچنے سے محفل سجے گی ،مسند ملے گی ۔ سچ کے سقراط نہ بنو کہ دورِ جدید میں زہر کا پیالہ پینے والوں کو احمق قرار دیا جاتا ہے ۔ جھوٹ کی فصل اگاؤ ، خون کی کھاد ڈالو ، کھیتی لہلہا اُٹھے گی ۔ جب کوئی صاحبِ دل کہتا ہے کہ باز آ جاؤ ! وہ تمہارے خون سے غسل کریں گے ،تمہارے لہو بستہ چہروں پہ سیاست کریں گے، تو کہتے ہیں یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں ،اِن کی باتوں پہ کان نہ دھرو ۔ جب کہا جاتا ہے کہ کیا وہ عنانِ حکومت سنبھالیں گے جو خود نشے میں دھت ، ہوش وحواس سے عاری رہتے ہیں؟۔ تو کہتے ہیں چُپ بے مُردے ! یہ تو دورِ جدید کے تقاضے ہیں ،جدیدیت اسی کا تو نام ہے۔
Protest
سوال مگر یہ کہ کیا جدیدیت کے یہی تقاضے کہ احتجاج کے شرکاء کی گاڑیوں سے بھاری اسلحہ اور شراب کی بوتلیں برآمد ہوتی ہیں؟۔ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے کہ احتجاجیوں میں شامل ایک وزیر با تدبیر کی گاڑی پورا اسلحہ خانہ ۔ یہ تو کسی کے نرغۂ وہم وگماں میں بھی نہیں تھا کہ کوئی وزیرِاعلیٰ مرکز پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے، ایٹمی پاکستان کے دارالحکومت کو بند کر سکتا ہے ۔ طالبان کے بارے میں تو سنا تھا کہ وہ اسلام آباد پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔اُنہیں تو نشانِ عبرت بنا دیا گیا ،کچھ واصلِ جہنم ہوئے ،بچے کھچے اپنے بِلوں میں گھُس گئے لیکن یہ تازہ دم حملہ آور تو ہمارے اپنے ہیں، اِن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟۔ اُس وزیر ِ ِاعلیٰ کی کیا سزا ہے جو سرِعام لسانی منافرت پھیلاتا پھرے ،جس نے پنجاب ،خیبرپختونخوا سرحد کو پاک بھارت سرحد میں تبدیل کر دیا،جس نے سیاسی ہلچل کو پختون پنجابی جھگڑا قرار دے دیا۔ سچ کہا محترم سراج الحق نے کہ ہمارا معاشرہ پختون پنجابی کا نہیں ،ہم سب پاکستانی ہیں۔ اِس سیاسی جدوجہد کو قومیت کا مسٔلہ نہیں بنانا چاہیے ۔
پرویز خٹک نے کہا”تحریکِِ انصاف پٹھان ہے ،پٹھان تحریکِ انصاف ہے ۔اگر ہمیں روکا گیا تو حشر نشر کر دیں گے”۔ وہ خیبرپختونخوا سے اپنی فورس اور وزراء کو لے کر اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلا۔ پھر چشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ بھی دیکھا کہ اُس کی ہدایت پر توڑ پھوڑ کی گئی ۔ حکومتی اور نجی گاڑیوں کو آگ لگائی جاتی رہی اور وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا ہدایات جاری کرتا رہا۔ جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ خٹک صاحب ! آپ اپنی گاڑی میں کیوں بیٹھے ہیں ، گاڑی سے باہر نکل کر مجمعے کی قیادت کیوں نہیں کرتے تو خٹک صاحب نے فرمایا ”کیا تم چاہتے ہو کہ میں گاڑی سے باہر نکلوں اور آنسو گیس کے دھوئیں سے بے ہوش ہو جاؤں”۔ جی ہاں !! یہی رویہ ہے ہمارے راہبروں کا اور یہی فرق ہے ایک راہبر اور عام کارکن میں ،موت کارکن کے لیے اور مسند راہبر کے لیے۔
Supreme Court of Pakistan
یہ سب کچھ ااُس وقت ہو رہا تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ یہ واضح حکم جاری کر چکا تھا کہ اسلام آباد کسی صورت میں بند نہیں ہو گا ،دھرنا ڈیموکریسی پارک تک محدود رہے گا۔ احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن احتجاج کا حق لامحدود نہیں۔ محترم جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ بھی فرمایا ”عمران خاں عدالتوں کا احترام کرنا سیکھیں ۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ اوئے جسٹس صدیقی ! دیکھو تمہارے آرڈر کے ساتھ کیا ہوا، کیا پاکستان میں عمران خاں کے علاوہ کسی اور کی عزت نہیں”۔ محترم جسٹس صاحب نے تو اپنے دُکھ اور غصّے کا اظہار کر دیا لیکن دست بستہ عرض ہے کہ پاکستان میں تو اب سیاست گالی گلوچ اور اہانت آمیز الفاظ کے استعمال کا ہی نام ہے۔ شاید دورِ جدید کے یہی تقاضے ہوں گے ۔ ہمارے ہاں تو یہ رسم چل نکلی ہے کہ ہم خود ساختہ عدالتوں کا حکم مانتے ہیں ، ملکی عدالتوں کا نہیں ۔ حکمرانوں نے بھی حکومتی فیصلے کی دھجیاں اڑائیں اور تحریکِ انصاف تو ایسا کرتی ہی رہتی ہے۔ جسٹس صدیقی صاحب کے فیصلے کو بھی ماننے سے انکار کرتے ہوئے تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا کپتان صاحب سپریم کورٹ کا فیصلہ مان لیں گے ؟۔ اگر اُنہیں سپریم کورٹ پر اعتماد ہوتا تو پھر دھرنے اور احتجاج کی تو ضرورت ہی نہیں تھی۔
چلو رہبر تو رہزن بن چکے لیکن صحافت تو عبادت ہے ،شیوۂ پیغمبری ہے پھر اِس میں کثافت کیوں ؟۔ پھر حقیقتوں کی معکوس تشریح و تعبیر کیوں ؟۔ لکھاریو ! سچ لکھو، تجزیہ نگارو ! درست تجزیہ کرو ،نقادو ! اذہان و قلوب سے نفرت کا ناسور نکال کر تنقید کرو کہ تمہارا اور میرا وطن اِس وقت تاریخ کے نازک ترین لمحات سے گزر رہا ہے ۔تمہارا فرضِ عین کہ زندہ حروف کی کھیتیاں اُگاؤ، کدورتوں کے ریگزاروں میں نخلِ طیّب کبھی شجرِ تن آور نہیں بن سکتے ،خزاں دیدہ اشجار کبھی بہار کا رخِ روشن نہیں دیکھ سکتے ۔یہ شیوہ ٔ اہلِ قلم تو نہیں کہ ممدوح کی مدح سرائی میں جھوٹ کی پیچ در پیچ آکاس بیل پھیلاتے جاؤ ۔اگر رہبری کا بِیڑا اُٹھا ہی لیا توپھر کھنکتے سکوں کی جھنکار نے تمہیں گونگا کیوں بنا دیا ، روشن حقیقتوں کو سَیلِ گماں میں کیوں ڈھال دیا ۔ تم تو سچ کے پرچارک ہو ، پھر تمہارا اپنا اپنا قبلہ اور اپنا اپنا کعبہ کیوں؟۔ تم تو درسِ بیداری دینے والے ہو پھر ممدوح کے دَر پر زانوئے تلمذ تہ کیوں؟۔
ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی دھڑوں میں تقسیم ،جلتی پہ تیل ڈالنے والا کہ اِس سے ریٹنگ بڑھتی ہے ،پیسہ آتا ہے ۔ اُسے کوئی پرواہ نہیں یا پھرادراک ہی نہیں کہ یہ وقت ریٹنگ بڑھانے نہیں ،ملک بچانے کا ہے۔ ہمارا بدترین دشمن ہم پر محدود جنگ مسلط کرنے کے درپے ہے۔ کئی دنوں سے سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ جاری ہے ، لاشیں گر رہی ہیں ۔ مقصد بھارت کا سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا کہ یہ منصوبہ اُس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ۔ اگر ہم اندرونی طور پر مضبوط ہوں تو دشمن کے دانت کھٹے کرنا کوئی مسٔلہ ہی نہیں ۔قوم کو متحد کرنے میں الیکٹرانک میڈیاسے بہتر کردار کسی کا نہیں ہو سکتا لیکن اُسے تو ریٹنگ سے غرض ہے۔