لاہور (جیوڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تقریبا 3 ماہ کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر اپنے چار مطالبات کو منوانے کی تحریک کا اعلان کر دیا۔
تاہم ان کا خیال ہے کہ مطالبات کی تحریک چلانے میں سب سے بڑی رکاوٹ صوبہ پنجاب میں سیکیورٹی کی عدم دستیابی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری جو ان دنوں پارٹی کی دوبارہ بحالی کے حوالے سے لاہور میں ہیں،ان کا کہنا تھا کہ جس طرح سندھ حکومت نے وزیر اعظم نواز شریف کے لیے ٹھٹہ اور دیگر شہروں کے دوروں کے دوران سیکیورٹی کے فل پروف انتظامیات کیے تھے اسی طرح شہباز شریف انتظامیہ کو بھی سیکیورٹی انتظامات کرنے چاہئیے۔
انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو ہدایات کیں کہ وفاقی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) پر دباؤ بڑھانے اور مطالبات کو تسلیم کروانے کے لیے پنجاب بھر میں ریلیوں کا اہتمام کیا جائے۔
خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کے چار مطالبات میں پاناما اسکینڈل کیس کی شفاف تحقیقات کے لیے پاناما بل لانے، وزیر داخلہ سمیت دیگر حکومتی وزیروں کو پارلیمنٹ کا جوابدہ بنانے کے لیے پارلیمانی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی تشکیل، آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل اور وزیر خارجہ کی تقرری سمیت پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر گزشتہ برس مئی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے اعلامیے کے تحت عمل کیا جانا شامل ہے۔
پنجاب میں سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے سیکیورٹی فراہم نہ کیے جانے پر مسلم لیگ ن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان کی پارٹی صوبے بھر میں ریلیوں کا انعقاد کرے گی اور جلد ہی ملتان میں ریلی کی نئی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ بلاول بھٹو نے پنجاب حکومت کی جانب سے سیکیورٹی فراہم نہ کرنے کے باعث 10 مارچ کو ہونے والی ریلی منسوخ کردی تھی۔
پیلپز پارٹی نے چار مطالبات کی مہم کا آغاز 27 دسمبر 2016 کو بے نظیر بھٹو کی 9 ویں برسی کے موقع پر کیا تھا، مگر پنجاب کے شہر فیصل آباد میں 19 جنوری 2017 کو ہونے والی ریلی کے بعد مہم ٹھنڈی پڑ گئی تھی، کیوں کہ بلاول بھٹو زرداری امریکا کے دورے پر چلے گئے تھے، ان کی غیر موجودگی میں مہم میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
وفاقی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو شاید ہی پیپلزپارٹی کے مطالبات کی پرواہ ہو، وہ ان مطالبات کوغیرسنجیدگی سے لے رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے ڈان سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی چیئرمین کونئی مہم پرانے مطالبات کے ساتھ ساتھ نئے مسائل کے مطالبات پر شروع کرنی چاہئیے۔
ان کا کہنا تھا کہ مہم میں اگر اتنا وقفہ نہ ہوتا تو شاید پارٹی سیاسی حوالے سے پنجاب میں بہت کچھ حاصل کرچکی ہوتی، عام انتخابات 2018 سے قبل پارٹی کو صوبے میں دوبارہ متحرک کرنے کے لیے پارٹی قیادت کی جانب سے متواتر پالیسی کی ضرورت ہے۔
پیپلز پارٹی کے اطلاعات سیکریٹری چوہدری منظور کے مطابق بلاول بھٹو زرداری ساہیوال، اوکاڑہ، پاک پتن، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب میں پارٹی اجلاسوں کے دوران مختلف رہنماؤں کے انٹرویوز کریں گے۔
سیکریٹری اطلاعات نے بتایا کہ پارٹی چیئرمین انٹرویوز کے بعد ان پانچوں اضلاع کے ضلعی صدور سمیت دیگر عہدیداران کا اعلان کریں گے، جس کے بعد اگلے ہفتے لاہور اور قصور میں انٹرویوز کیے جائیں گے۔
پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف اور عمران خان کو دہشت گردوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے، جب کہ ہماری قیادت ایسے خطرات کا سامنا کر رہی ہے، اسی وجہ سے ان کی پارٹی کی ریلیز کو سیکیورٹی فراہم کی جانی چاہئیے۔
قمر زمان کائرہ نے مسلم لیگ ن کی جانب سے خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے رکن قومی اسمبلی میان جاوید لطیف کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہ کیے جانے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔