ڈیمز ملکوں کی نہیں انسانوں کی ضرورت ہیں

Dames

Dames

تحریر : محمد شاہد محمود

میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں کس طرح چیف جسٹس آف پاکستان کا شکریہ ادا کرو کہ جنہوں نے ڈیمز کی تعمیر کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اگلی نسل پر احسان عظیم کیا ہے 2006ء میں پرویز مشرف کی حکومت نے اعلان کیا کہ 2016 تک ملک میں 5 بڑے ڈیم بنائے جائیں گے۔ مشرف حکومت نے جن پانچ بڑے ڈیموں کا اعلان کیا تھا ان میں بھاشاڈیم، مْنڈا ڈیم ( بعد میں جس کا نام بدل کر مہمند ڈیم رکھ دیا گیا)، کرم تْنگی ڈیم، اکوڑی ڈیم اور کالاباغ ڈیم شامل تھے۔واضح رہے کہ مشرف حکومت نے 2001 میں بھاشا ڈیم کا تخمینہ لگانے کا کام شروع کروایا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ سب سے پہلے بھاشا ڈیم بنایا جائے گا۔ پرویز مشرف کی صدارت میں 18 فروری 2008 کو ملک میں عام انتخاب کروائے گئے جس میں پیپلز پارٹی پہلے، ن لیگ دوسرے جبکہ مشرف کی ق لیگ تیسرے نمبر پر چلی گئی.25 مارچ 2008 کو جب یوسف رضا گیلانی نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت بھاشا ڈیم کے تفصیلی نقشے بن چکے تھے۔نومبر 2008 کو یوسف رضا گیلانی نے ایکنک سے بھاشا ڈیم کے لئے منظوری حاصل کر لی اور اس کے بعد کونسل آف کامن انٹرسٹ میں موجود تمام صوبوں کے وزرائے اعلی کی منظوری کے ساتھ ہی بھاشا ڈیم بنانے کا رستہ صاف ہو گیا.18 اکتوبر 2011 کو یوسف رضا گیلانی نے بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ اس منصوبے کی تعمیر کے لئے تقریباََ 1200 ارب کی ضرورت تھی۔

ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو قرض کے لئے درخواست دی گئی جسے منظور کر کے ان بنکوں نے رقم دینے کی حامی بھر لی.۔جیسے ہی منصوبے پر کام شروع ہوا بھارت نے حسب معمول چیخنا چلانا شروع کر دیا.بھاشا ڈیم گلگت بلتستان میں بنایا جا رہا تھا. بھارت نے ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو درخواستیں دینا شروع کر دیں کہ اس منصوبے کے لئے رقم فراہم نہ کی جائے کیونکہ یہ منصوبہ ایک ایسی جگہ پر بنایا جا رہا ہے جو کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے.بھاشا ڈیم کو رکوانے کی بھارتی کوششیں اس وقت رنگ لے آئیں جب اگست 2012 میں ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے دی جانے والی رقم روک لی اور پاکستان سے کہا کہ بھارت لکھ کر دے دے کہ اسے اس منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں تو ہم یہ رقم جاری کر دیں گے۔یہ وہ دور تھا جب سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا تھا اور راجہ پرویز اشرف بطور وزیر اعظم حلف لے چکے تھے. راجہ پرویز اشرف کی حکومت بھاشا ڈیم کے لئے رقم کا بندوبست نہ کر سکی. حتی کہ 24 مارچ 2013 کو پانچ سال مکمل ہونے پر پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کا خاتمہ ہو گیا.الیکشن مہم کے دوران مسلم لیگ نے 6 مہینے میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا نعرہ بلند کیا. 16 مئی 2013 کو الیکشن ہوئے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن جیت گئی. اور 5 جون 2013 کو میاں نواز شریف اقتدار کی کرسی پر بیٹھ گئے.

الیکشن کے نعرے کی لاج رکھتے ہوئے نواز شریف کی حکومت نے سب سے پہلے ڈیموں پر توجہ دی. کئی دوسرے ڈیموں سمیت بھاشا ڈیم کے لئے بھی رقم یا قرضے کے حصول کی بھاگ دوڑ شروع ہو گئی.تقریباََ 2 ماہ بعد، 20 اگست 2013 کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعوی کیا کہ حکومت نے ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو رقم فراہم کرنے کے لئے راضی کر لیا ہے. اور یہ بنک بھارت کی پروا کئے بغیر ہمیں بقیہ قرض جلد جاری کر دیں گے۔.27 اگست 2013 کو اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ بھاشا ڈیم پر جلد کام شروع کر دیا جائے گا اور یہ منصوبہ 10 سے 12 سال میں مکمل ہو جائے گا.دیامر بھاشا ڈیم کے لئے جس جگہ کا انتخاب کیاگیا ہے وہ ضلع دیامر کا ہیڈ کوارٹر چلاس سے تقریباََ40 کلو میٹر کے فاصلے پر ”تھور گاؤں ،، میں واقع ہے۔ دریا سندھ کے بائیں طرف داریل و تانگیر جو کہ سب ڈویڑن چلاس کا علاقہ ہے اور دائیں طرف شاہراہ قراقرم بھاشا نالہ تک چلاس سب ڈویڑن کا علاقہ ہے جبکہ ڈوڈیشال داریل کے بالمقابل بھاشا پولیس چوکی کوہستان ایریا دکھائی دیتی ہے حالانکہ قدیمی ریکارڈ کے مطابق بھاشا نالہ تک کا علاقہ چلاس کے عملداری میں آتا ہے۔اس ڈیم کی لمبائی 35 سو فٹ،چورائی 2ہزار فٹ،اونچائی 660فٹ اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 35سو فٹ ہو گی اور 6.4ملین ایکٹرفٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ڈیم کی دیوار کی اونچائی 270میٹر ہوگی ، دریائے سندھ کے پانی کے سال بھر کا بہاؤ کا 15فیصد اس میں ذخیرہ ہوگا۔

دنیا میں سب سے ز یادہ بلندی پر بنائے جانے والے اس ڈیم کی عمر 100سال ہوگی اور اس میں ریت جمع نہ ہوگی ۔دیامر بھاشا ڈیم کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس کی تعمیر سے ملک زرعی و صنعتی ترقی پر گامزن ہوگا کیونکہ پانی زندگی بھی ہے اور دولت بھی،اسی دولت سے زمین ہری ہوجاتی ہے، صنعتوں کیلئے توانائی ملتی ہے۔غربت کے عفریت کم ہو جاتے ہیں اور بیروز گاری کے سائے دور ہو جاتے ہیں تب ہی تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو (سیاسی دباؤ میں آکر )ملتوی کرکے دیا مر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی پلان پر زور وشور سے کام کی تکمیل چاہتے ہیں اور تمام سیاسی و مذہبی اور حکومتی و اپوزیشنی رہنماء و زعماء اتفاق رائے کے دعوے کر رہے ہیں ۔مذکورہ ڈیم سے ترقیاتی کاموں مثلاًسڑکوں کی تعمیر و تصحیح،پرانی سرکاری عمارتوں کی بوسیدگی کاخاتمہ اور نئے سرکاری عمارتوں کو وجود میں لایا جاسکتا ہے اور جو دیہات اب تک روڈ اور بجلی جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں وہاں روڈ اور بجلی کا سستا انتظام کیا جاسکتا ہے۔اور تعلیمی حوالے سے دور دراز دیہاتوں میں نئے اسکولوں کا قیام اور پرانے اسکولوں کی تزئین و آرائش اورتمام ہائی اسکولوں کو انٹر کالجز اور انٹر کالجز کو ڈگری کالجز میں ترقی دیکر غریب عوام کو سستی تعلیم مہیا کی جاسکتی ہے۔ اور تشنگان علوم کو کراچی ،لاہور،اسلام آباد، پشاور اور دیگر شہروں میں در بدر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ۔

صنعتی اعتبار سے بجلی وافر مقدار میں سستی مہیا ہوگی تو سینکڑوں صنعتیں ، کارخانے اور فیکٹریاں قائم ہونگی اس طرح ان صنعتوں اور دیگر سرکاری و پرائیویٹ اداروں جو نئے معرض وجود میں آئینگے میں ہزاروں اسامیاں آئینگی جس سے گلگت بلتستان کے عوام بالخصوص نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ بیروز گاری کے دلدل سے چھٹکارا پا سکے گااور ان کیلئے ترقی، پھلنے پھولنے ، روشن مستقبل، کامیابی کے شاندار مو اقع ملیں گے اور ان میں ستاروں پر کمند ڈالنے،اقبال کا شاہین اور نانوتوی کے جانشیں بننے کی صلاحیتیں پیدا ہونگیں۔ تاجر حضرات اپنی تجارت میں وسعت لاکر کاشغر، کشمیر،چترال اور دیگر علاقوں تک پھیل سکیں گے۔ مہمند ڈیم 6سال میں مکمل ہوگا اور 12لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے صلاحیت اس میں ہوگی ،مہمند ڈیم جسے منڈا ڈیم بھی کہاجاتا ہے یہ دریائے سوات پر 5کلو میٹر اپ سٹریم منڈا ہیڈ ورکس سے پہلے مہمند ایجنسی میں تعمیر کیا جائے گا۔اس ڈیم کا بنیادی مقصد سیلاب سے بچاؤ ، زرعی مقاصد کے لئے پانی اور پن بجلی کا حصول ہے یہ واحد منصوبہ ہے جس سے پشاور ، چارسدہ ، نوشہرہ اکو تباہ کن سیلاب سے بچایا جا سکتا ہے۔ مہمند ڈیم سے 2ارب 86کروڑ یونٹ سالانہ بجلی پیدا ہوگی جبکہ اس پر 303ارب سے زائد کا تخمینہ ہے۔ فنی ماہرین کے مطابق ڈیم پر 24گھنٹے کا کام اور زیادہ لیبر سے اس کی تعمیر کا دورانیہ بھی کم کیا جا سکتا ہے ، مہمند ڈیم کی تعمیر 6سال میں مکمل ہوگی۔مہمند ڈیم سے سالانہ 35ارب روپے کا معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔

بھاشا اور مہمند دیمز پر 17ارب ڈالر سے زائد کی لاگت آئیگی ، دونوں ڈیمز کی تعمیر سے صوبے کی معیشت بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ روزگار بھی فراہم ہوگا۔: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق مختصر لیکن تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فوری طور پر تعمیر کیے جائیں۔اپنے مختصر فیصلے میں عدالتِ عالیہ نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بھی حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تعمیر کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے۔عدالت نے حکم دیا کہ ڈیموں کی تعمیر کے لیے ایک خصوصی اکاؤنٹ بھی کھولا جائے، فیصلے کے مطابق یہ اکاونٹ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام پر پر کھولا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے پہل کرتے ہوئے ڈیم کی تعمیر کے لیے 10 لاکھ روپے عطیہ کیا۔عدالت نے چیئرمین واپڈا کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا ۔خیال رہے کہ آ رٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ کو بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اختیارات حاصل ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ڈیمز کی تعمیر سے متعلق کیس سنا دیا گیا جس کے مطابق مہمند اور دیامر بھاشا ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیا اور اسکے ساتھ ہی ڈیموں کی تعمیر کے عطیات اکٹھے کرنے کے لیے بینک اکاونٹس بھی بنادئیے گئے جس میں اب تک خطیر رقم جمع کی جا چکی ہے ،،پاکستان کی تمام مخیر ہستیاں اس معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی فکر میں ہیں۔،اس حوالے سے بی بی سی اردو کے ایک آرٹیکل کے مطابق یہ کام بظاہر ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ ڈیموں کی تعمیر کے لیے رقم کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں اور کھربوں میں چاہیے ہوتی ہے۔

۔بھاشا ڈیم جس کی تعمیر کے حوالے سے عطیات جمع کئیے جارہے ہیں ،اگر اسکی لاگت کو دیکھا جائے تو اس ڈیم کی تعمیر کے لیے اور 4500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے ڈیم کے منصوبے کے آغاز پر اس کا تخمینہ 12 ارب ڈالر لگایا گیا تھا لیکن مختلف ماہرین کے مطابق اس ڈیم کی کل لاگت 18 سے 20 ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔حکومتی اعلان کے مطابق پہلے مرحلے میں دیامیر بھاشا ڈیم کے صرف پانی ذخیرہ کرنے کی سہولت پر کام ہوگا جبکہ بجلی بنانے والے سیکشن کی تعمیر میں مزید 744 ارب روپے درکار ہوں گے اور کل منصوبے کی تعمیر پر 1.4 کھرب روپے کی لاگت آسکتی ہے۔ ڈیم کی تعمیر کے لیے زمین حاصل کرنے اور آبادکاری کا کام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور اس مقصد کے لیے اب تک حکومت 58 ارب روپے خرچ کر چکی ہے جبکہ مزید 138 ارب روپے اسی سلسلے میں مختص کیے گئے ہیں۔دوسری جانب مہمند ڈیم جو اب تک پی سی ون تک مکمل ہوچکا ہے اس پر اب تک 93 کروڑ کی لاگت آچکی ہے۔لہذا عطیات کی مہم کتنی حقیقی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی طے کرے گا۔سندھ طاس معاہدے کے بعد جہاں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوتی گئی وہی آبادی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔2017ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار نے پانی کی دستیابی کے اس حساب کو پوری طرح سے بدل کر رکھ دیا۔ تازہ مردم شماری کے بعد حساب سالانہ 850 کیوبک میٹر فی کس بنتا ہے، یوں ہم پانی کی قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگئے۔

دریاؤں میں پانی کی کمی کا تعلق پڑوسی ملک میں ڈیموں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی جوڑا جاسکتا ہے، جو پانی کو بڑی مقدار کو نیچے دریاؤں تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آب گیری علاقوں میں نارمل مقدار سے کم بارشوں کے ساتھ بھی جوڑا جاسکتا ہے۔دوسری طرف، ہم نے اپنے آبی ذخائر، جو زمین کی سطح پر ہیں اور جو زیر زمین ہیں، کا مؤثر انداز میں انتظام سنبھالنے میں انتہائی کوتاہی برتی ہے۔ گزشتہ 6 دہائیوں کے دوران پاکستان نے ایک بھی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا۔ واپڈا کے ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ہر سال 25 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع کردیتا ہے۔موجودہ آبی ذخیروں میں سے ایک تربیلا میں گارا جمع ہونے کی وجہ سے اپنی 30 لاکھ ایکڑ فٹ تک کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کھوچکا ہے۔ 70 کی دہائی کے وسط میں اس کی تعمیر کے بعد کسی نئے آبی ذخیرے کو تعمیر کرنے میں ہماری ناکامی ہماری نااہلی اور مستقبل کے لیے بے فکری کو ظاہر کرتی ہے۔ ہم سالانہ 145 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی حاصل کرتے ہیں، جس میں سے ہم صرف 14 ایم اے ایف ذخیرہ کرتے ہیں۔ابھی بھی موقع ہے۔ ہمیں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ابتدائی طور پر صوبوں کو اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر اتفاق کرنا چاہیے۔ آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری اآبادی میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے، اس طرح ہمیں ہر 10 سالوں میں تربیلا کے سائز کا ایک ڈیم چاہیے ہوگا۔آبی پالیسیوں کے علاوہ ہمیں وفاقی اور صوبائی واٹر کمیشنز کی بھی ضرورت ہے تاکہ تمام سطحوں پرآبی وسائل کے مؤثر انتظام و انصرام کو یقینی بنایا جا سکے۔

اس کے علاوہ ہمیں اپنے کھیتوں، شہروں اور صنعتوں میں پانی کے مؤثر استعمال کو بھی فروغ دینا ہوگا۔پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ وطن عزیز پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ اگر ہنگامی بنیادوں پر ملک میں ڈیم تعمیر نہ کیے گئے تو آنے والے چند برسوں میں پینے کا صاف پانی ملنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس کی طرف سے ڈیم فنڈ قائم کرنے کا اعلان خوش آئند ہے۔ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ قومی خدمت کے جذبے کے تحت اس کار خیر میں ضرور حصہ ڈالے۔ نئی حکومت کے لیے پانی اور کشمیر کا مسئلہ بہت بڑا چیلنج ہے جبکہ مسئلہ کشمیر سب سے پہلے حل کروانے کی ضرورت ہے۔ اسے حل کرنے سے ہی پاکستان میں بجلی و پانی کے بحران کا خاتمہ ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آنے والی نسلوں کیلیے پانی جیسی بنیادی ضرورت کا بندوبست کرنا ہے۔حافظ محمد سعید نے کارکنان و ذمے داران کی طرح تاجروں، صنعتکاروں اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھی اپیل کی کہ وہ ڈیموں کی تعمیر کیلیے قائم کردہ فنڈ میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔ بھارت کشمیر میں جنگی بنیادوں پر ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کو معاشی طور پر اپاہج بنانے کی خوفناک سازشیں کر رہا ہے۔حکومت پاکستان نے بھارتی خوشنودی کیلئے بین الاقوامی سطح پرمتنازع ڈیموں کی تعمیر کا معاملہ صحیح معنوں میں پیش نہیں کیا۔

Mohammad Shahid Mahmood

Mohammad Shahid Mahmood

تحریر : محمد شاہد محمود