آج کل دو سلوگن زبان زد عام ہیں پہلا تو سوشل میڈیا پر گزشتہ تین سال سے اتنی بار لکھا بولا جا چکا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کوئی بھی کام کرنا ہو اُسے بولنا اہم ترین فریضہ سمجھنے لگے ہیں اگر پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا پر کوئی لائیو کوریج کے دوران انہونی بات کر جائے تو پڑھنے ،دیکھنے ،سننے والے اِس سلوگن کو دہرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں سانچ کے قارئین سمجھ تو گئے ہونگے جی بالکل “تبدیلی آنہیں رہی آگئی ہے”آ ٰج کے نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد سوشل میڈیا پر گھنٹوں لا حاصل چیٹنگ کرتے کرتے رات کے اُس پہر جب فجر کی اذان کانوں سے ٹکرانے والی ہوتی ہے اُس وقت یہ جملہ کہہ کر بستر میں گھس جاتی ہے اور جب بستر سے بیدار ہوتے ہیںتو کسی کے فون کی گھنٹی پر آنکھیں مسلتے “اُوئے یاراتنی دیر ہوگئی باس آج پھرکلاس لے گا” اور اگلا جواب اس سوال پر کہ پھرتومارے گئے نا ؟”نہیں یار باس خود رات گئے تک گروپ میں چیٹنگ کرتا رہا ہے۔
سمجھا کر” تبدیلی آ نہیں رہی آ گئی ہے ” یہ زبان زد عام تو ہوگیا لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ ہمیں اپنے معاشرے اور اپنی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں لانی تھیں کونسے ایسے اصول اپنانے تھے جس سے ہم حقیقی معنوں میں اپنے آپ کو اور وطن عزیز کو دنیا میں ایک اعلی مقام پر لا کھڑا کرتے بحثیت قوم ہم فخر سے دنیا میں جانے پہچانے جاتے،اپنی زندگیاں اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق گزارتے ہوئے معاشرے کے ہرشعبہ میں کرپشن کا خاتمہ کر سکتے ،تعلیم کو تربیت کے ساتھ حاصل کر سکتے ،صحت اور بنیادی ضرورتوں کو مثالی بنانے کے لئے نیک صالح ایماندار قیادت کا انتخاب کر سکتے ،ٹریفک کے قوانین کا علم جانتے سمجھتے اور پھر سڑک پر سائیکل /موٹر سائیکل /کاریں/رکشے دوڑاتے ،وقت کی قدر کرنا سیکھتے نا کہ ہر پروگرام کا آغاز دوتین گھنٹے دیر سے شروع کرنے کے بعد یہ کہتے کہ یہ تو معمول ہے۔
آگے بڑھنے کے غلط طریقے اختیار کرنے کسی کا حق مارنے کے بعدیہ کہنا کہ یہاں سب کام ایسے ہی ہوتے ہیں ،دودھ اور دیگر خوردونوش کی اشیاء میں ملاوٹ کو معمولی بات سمجھنے والے کس تبدیلی کی بات کر رہے ہیں اپنے عمل وکردار کو بھُلا کر دوسروں کو نیکی اچھے عمل کی تبلیغ دینے والے کس تبدیلی کے خواہاں ہیں ،سانچ کے قارئین کرام !یہ تو وہ چند معاملات کا ذکر ہے جن سے ہم سب کو سامنا کرنا پڑرہا ہے لیکن پھر بھی ہم آنکھیں موندے ہوئے ہیں آج کا نوجوان تبدیلی کو نجانے کیا سمجھ رہا ہے تبدیلی تو آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے آگئی تھی جب پیارے نبی حضرت محمد ۖ نے اپنی اُمت کوقرآن اور اپنی سنت پر عمل پیرا ہو کر دنیا وآخرت میں کامیابی کا راستہ بتا دیا تھا لیکن ہم نے اُنکے بتائے ہوئے راستوں کو چھوڑ کر کامیابی کا راستہ فضول لا حاصل باتوں ،کاموں میں لگا نا شروع کر دیا تبدیلی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے عمل وکردار دین اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق ہوں جدید سائنسی تعلیم اور ایجادات کے استعمال کو بنی نوع کی فلاح وبہود کے لئے حاصل کریں نہ کہ جدید ٹیکنالوجی سے کسی کی بہن ،بیٹی سے لچر اور لاحاصل رات گئے تک چیٹنگ کر کے اپنی توانائیاں منفی کاموں میں صرف کریں،اخلاقی انحطاط کا یہ حال ہے کہ کاروبار کرنے والا شخص راتوں رات امیر ہونے کے لئے ملاوٹ کے تمام تر طریقوں پر عمل کرنا اپنا حق سمجھتا ہے بعدازاں حج ،عمرہ اور پانچ وقت کا نمازی بن کر اہل علاقہ میں معتبر بھی کہلانے لگتا ہے۔
دوسرا سلوگن جو اکثر سننے کو مل رہا ہے وہ ہے “وو ٹ کو عزت دو” اچھی بات ہے کہ ووٹ کو عزت ملنی چاہیے لیکن اِس کے لئے پہلے ووٹ دینے والے کو عزت دینا ضروری ہے ستر سال سے لوگوں کو ووٹ کے زریعے حقیقی جمہوریت کا سبق سنایا جاتا رہا ہے ہوتا کیا رہا ہر بار انتخابات سے پہلے کسی پارٹی کے حق میںتمام تر زرائع سے ماحول بنایا جاتا ہے پھر میں الیکٹیبلزکو مختلف پارٹیوں سے نکال کر اُس پارٹی میں شامل کیا جاتا ہے جس کو اقتدار منتقل کرنا ہوتا ہے اور ہم عوام ہر بار اِ ن ہی الیکٹیبلز کے دیکھائے سبز باغوں میں اپنادنیاوی مستقبل بہتر ہونے کی آس میں دھوکہ کھاتے آئے ہیں سابقہ انتخابات کا جائزہ لیں تو 80%وہ ہی افراد منتخب ہو کر آتے ہیں جو پہلے کسی نا کسی انتخاب میں کامیابی حاصل کر چکے ہوتے ہیں یا اُنکی فیملی کے دیگر افراد منتخب ہو جاتے ہیں۔
انتخابات میں حصہ لینا عام بندے کے بس کی بات نہیں رہی ہزاروں،لاکھوں نہیں کروڑوں کا خرچ کرنے والا ہی الیکٹیبلز کی فہرست میں آتا ہے گزشتہ آٹھ انتخابات میں سے پانچ میں دو پارٹیاں اپنی اپنی مختصر باریاں لیتی رہیں اور الیکٹیبلزہر دو ڈھائی سال بعد دونوں پارٹیوں میں آتے جاتے رہے پھر ایک انتخاب کے لئے نئی پارٹی الیکٹیبلز کو ملا کروجود میں لائی گئی یہ برسراقتدار آنے کے بعد اپنی آئینی مدت میں تین وزیراعظم کومختلف مدتوں کے لئے منتخب کرتی رہی مدت ختم ہوئی تواگلے دو انتخابات میں اِسی پارٹی کے الیکٹیبلز نے برسراقتدارآنے والی دونوں پارٹیوں کارُخ کیا اَب پھر چند دن کے بعد انتخابات ہونے جارہے ہیں اِن میں سے اکثریت الیکٹیبلز کی وہ ہی جملہ دہراتے ہوئے “تبدیلی آ نہیں رہی آگئی ہے “کا نعرہ لگاتے ہم (عوام )کو پھر سے سبز باغ دیکھانے میں مصروف ِ عمل ہے۔