اگر جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی ہے تو اُس کا دوش کس پر ہوگا۔ ایم آر ملک

Democracy

Democracy

لیہ (ایم آر ملک) کیا میاں برادران نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ؟اگر جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی ہے تو اُس کا دوش کس پر ہوگا ؟عوامی حلقوں میں گردش کرنے والے یہ سوالات ایسے وقت میں اُٹھ رہے ہیں جب دو بھائیوں کی بلا شرکت غیرے حکمرانی میں تحریک منہاج القرآن کے نہتے کارکنوں پر لاہور کی شاہرات پر گولیاں برسا کر لاشیں گرانے کا کھیل کھیلا گیا ہے منہاج القرآن کے شہداء کے لہو سے رنگین ہونے والی یہ شاہرات آج ماضی کی وہ کہانی دہرا رہی ہیں جس کے اوراق 19مارچ 1940ء کو انگریز سامراج کے ایک پٹھو نے 313خاکساروں کے لہو سے تر کئے بیلچہ بردار جپ راس ،جپ راس کہتے ہوئے نہتے تحریک آزادی کے متوالے جب بندق بردار سامراجی کتوںکے مدمقابل صف آرا ہوئے تو گرنے والی لاشیں شہدائے بدر کی یاد تازہ کر رہی تھیں آج پھر پر امن احتجاج کے خلاف حکومتی جبر اور فسطائیت کی انتہا نے تاریخ کے لہو سے رنگین وہی اوراق پلٹ دیئے ہیں۔

واقفان حال کہتے ہیں کہ دس سالہ جلاوطنی ایک خودا ساختہ معاہدہ تھا جو مشرف حکومت کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا رائے ونڈ محلات کے مکیں یہاں سے نکلے تو سرو ر پیلس اُن کا مسکن بنا جہاں زندگی کی ہر آسائش اُنہیں میسر تھی پھر بھلا وہ سبق کیسے سیکھتے مقید نیلسن منڈیلا جیسے افراد سبق سیکھتے ہیں طویل عرصہ سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑا یا بھٹوجسے مادر وطن کی گود میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تختہ دار کو چومنا پڑایہ افراد جن کو بے جرم سزائیں ملیں اور ان جرائم سے تاریخ کے کندھے بوجھل ہیں جنہیں یہ پتہ نہیں کہ علی بابا اور چالیس چوروں کے درمیان تعلق کیا تھا اور اپنی ڈکشنری کے لفظ خادم اعلیٰ کے موجد وں کو کیا پتہ ؟ایسے حکمرانوں کے دور میں جمہوریت کی بساط کا لپیٹا جانا کونسا حیرت ناک کام ہے۔