تحریر: منظور احمد فریدی اللہ کریم سبحانہ کی حمد و ثناء اور نبی ۖ پر کروڑوں درود کے نظرانے پیش کرنے کے بعد شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کو شریف ابن شریف برادران نے پاکستان کے محافظ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں چوہدری برادران کے اور سعودی مداخلت استعمال کرکے ایک قانون پاس کروایا جسے این آر او کا نام دیا گیا اسی قانون کے تحت شریفوں کی تمام خطائیں اور زرداری کے تمام صفائر کے علاوہ وہ تمام سیاستدان ایسے پاکیزہ قرار دیے گئے جیسے ہر اتوار کو پادری کے سامنے چرچ میں عیسائی لوگ گناہ کا اعتراف کر کے بری الزمہ قرار پاتے ہیں اسی این آر او کے تحت میاں صاحبان کی پاکستان یاترا ہوئی۔
اب گیڈر اور خرگوش نے شہر سے بچنے کیلئے دائمی دوستی کے معائدہ کے مطابق مری میں بیٹھ کر ایک دائمی معائدہ لکھا مری بھوربن میاں برادران کا پسندیدہ علاقہ ہیں جہاں وہ ماضی میں بھی بے شمار ایسے کارنامے انجام دے چکے ہیں جن کے ٹائٹل دکھا کر شیخ رشید آج بھی شریفوں کی شرافت کو دو لفظوں میں سمیٹ لیتا ہے شیخ صاحب صرف اتنا کہتے ہیں میں انہیں جانتا ہو ں تو میاں صاحب ایسے ہو جاتے ہیں جیسے جبڑوں میں ایلفی لگا دی گئی ہو،خیر یہ ان کی ذاتی نوعیت کا معاملہ تھا بات ہو رہی تھی معائدہ کی 88ء کے ایام میں میاں صاحب سی ایم پنجاب تھے اور محترمہ مرکز میں وزیر اعظم تھیں اور شیخ صاحب میاں جی کے حواری تھے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر محترمہ کیلئے وہ بے ہودہ زبان استعمال ہوتی تھی جس کی کسی بھی مہذب معاشرہ میں اجازت نہیں پھر عدم اعتماد کی تحریک میں شریفوں نے بولیا ںلگا کر اکثریت کو خرید کر انمول کر دیا نتیجہ میں ملک میں امپورٹڈ حکومت قائم ہوئی اور ملک کا دیو الیہ نکلا۔
US and UK
اس کے بعد بھی جو ہوا وہ بھی تاریخ کا کوئی روشن باب نہیں ۔مگر ایک دوسرے پر منوں کیچڑ اچھالنے والے ناشائستہ زبانیں بولنے والے جب معائدہ مری میں اکٹھے ہوئے تو شریف زادوں نے مسٹر ٹین پرسینٹ کو اپنا بہنوئی اور محترمہ کو بہن تسلیم کرکے ملک لوٹنے کا وہ معائدہ کیا جو اس دن سے آج تک قوم بھگت رہی ہے دونوں سیاسی اکابرین نے اس معائدہ میں یہ طے کیا کہ باری باری اس ملک کو لوٹنا ہے اور لوٹا ہوا پیسہ بیرون ممالک جمع کروا دینا ہے عوام لاکھ واویلا کرے مگر وہ ایک دوسرے کو حاجی صاحب ہی پکارینگے اور اس معائدہ کے ضامن امریکہ اور برطانیہ بنے جو دونوں پارٹیوں کے گرو استاد ہیں اب جو بھی ہوتا رہے جب ضامن مدعیاں سے تگڑا ہو تو مدعی برائے نام مدعی ہوتا ہے۔
معائدہ کے فوری بعد محترمہ حادثہ کا شکار ہوگئیں جس پر اس ناگہانی واقعہ کو بھی بعض لوگوں نے اور رنگ میں لیا مگر یہاں اس کا ذکر محض ذکر کے حد تک ہی ہے ۔عام انتخابات ہوئے اور پیپلز پارٹی نے ملک میں حکومت بنائی وزیر اعظم مشترکہ دونوں طرف سے وکیل بنے جو خود عدالت کی بے رحمی کا شکار ہوگئے پچھلے پانچ سالوں میں ایک دور ایسا بھی آیا جب چھوٹے شریف زادہ کو وزارت اعلیٰ سے الگ کردیا گیا تو وہ عوام کے ساتھ حبیب جالب کی باغی نظم پڑھتے رہے اور ٹین پرسینٹ کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی دھمکیاں دیتے رہے مگر بحال ہوئے تو سب بھول گئے اور معائدہ کی کاپی دیکھ کر معذرت کی اپوزیشن نے ہر اس کام پر زرداری کا ساتھ دیا جو عوامی نقصان میں تھا مشرف کی آمریت کو لوگ انکی جمہوریت سے اچھا کہنے لگے۔
Election
مگر ضامنوں کے آنکھیں دکھانے پر شریف زادے خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کرتے رہے ملکی تاریخ کی پہلی اسمبلی نے وزیر اعظم کے نااہل ہونے پر بھی اپنی مدت پوری کی اور یوں عام انتخابات کا وقت آپہنچا پھر وہی ہوا جو ہونا تھا ایک پولنگ اسٹیشن پر کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد چھ سو تھی ن لیگ کے امیدوار کو اٹھائیس سو ووٹ ڈالے گئے مخالف کو تین سو اور جو ضائع ہوئے وہ سو کے قریب تھے اس طرح ن لیگ بر سر اقتدار آئی اور ضامنوں کی رضا مندی سے معائدہ کی پاسداری کا دوسرا دور شروع ہوگیا اس الیکشن میں ن لیگ کے مخالفین نے اتنی بری طرح شکست کھائی کہ اگر یہ معائدہ انکے علم میں نہ ہوتا یا وہ پہلے بیٹنگ کرکے باری نہ لے چکے ہوتے تو شائد اخلاقی طور پر سیاست چھوڑ دیتے سابق وزیراعلیٰ پنجاب وفاقی وزیر امور کشمیر میاں منظور احمد وٹو کو ایک پولنگ اسٹیشن سے کل سات ووٹ ملے اور انہوں نے اس نتیجہ کو تسلیم کیا اور یہ بھیملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ تمام سیاست دانوں نے الیکشن نتائج کو تسلیم کرلیا۔
سوائے ایک سر پھرے خان کے اسے شائد سیاست کا وہ تجربہ نہیں جو وہ ہر طرح کی کرپشن پر شور ڈال دیتا ہے پھر حکومت بناتے ہی شریف زادوں نے ملکی وسائل کو لوٹنے کا وہ بازار گرم کیا کہ عقل دنگ رہ گئی لوگ کسی نجات دہندہ کو تلاش کرنے لگے کبھی وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو اور کبھی مدبر جرنیل جناب راحیل شریف کو اس نظر سے دیکھنے لگے کہ ہمیں ان شرفاء کے ٹولہ سے نجات دلایئنگے مگر شائد جرنیل نے اس گندے کام میں آنا مناسب نہ سمجھا اور بات عمران کے دھرنا تک آپہنچی اس دھرنے کے شرکاء کے ساتھ شریف زادوں نے وہ شرافت برتی کہ تاریخ میں پہلے کسی آمر نے بھی ایسا کام نہیں میں داد دیے بغیر نہ رہ سکونگا ملک معراج خالد اور غلام حیدر وائیں مرحوم جیسے شریف النفس جناب پرویز خٹک کو انکے ہم منصب نے اٹک پل صوابی اور جگہ جگہ اتنی تذلیل سے دوچار کیا کہ اگر وہ اپنے اختیارات کے استعمال پر آجاتے تو دو صوبوں کی پولیس آپس میں جنگ لڑ رہی ہوتی شریف زادوں نے تو اسے اقتدار سے ہٹانے کا بھی لال جھنڈا دکھا دیا مگر اس بندے کی استقامت اور ہمت کو داد دینا پڑیگی اور پھر چیف جسٹس صاحب بہادر نے قوم پر ترس کھا لیا اور جنونی خان کو اپنے موقف پر قائل کرلیا اب یہ علم مجھے نہیں کہ میثاق جمہوریت میں عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنا لکھا ہے کہ نہیں والسلام۔