تحریر : سید توقیر حسین یہی ہونا تھا جو ہوا، بہتر ہوا، ہم تو پہلے ہی سے گزارش کرتے چلے آ رہے ہیں کہ جمہوریت میں پارلیمینٹ اہم ہے اور رابطے ختم نہیں ہوتے بلکہ مذاکرات جاری رہتے ہیں۔ یہ سب جو ہوا پہلے بھی ہو سکتا تھا۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنا موقف رکھنے اور پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اسے جمہوری انداز میں معقولیت کی حد میں رہنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ تیسری قوت کی طرف دیکھا جائے بلکہ آواز دے کر کی کوشش کی جائے۔ فرزند راولپنڈی ابھی تک نہیں تھکے۔ بدلتے حالات کو بھی نہیں پہچان رہے ان کو کم از کم اپنے جیسے ایک دانشور صحافی اور سابق رکن قومی اسمبلی کی تحریروں ہی سے مستفید ہونا چاہئے جنہوں نے حالات کو دیکھ کر اپنے موقف میں تھوڑی تبدیلی کر ہی لی ہے تنقید حق ہے تاہم اسے بھی معقولیت کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے۔
ہم صحافی پیشہ لوگ کسی کو بنانے اور بگاڑنے کا کام نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں۔ یوں بھی آپ ایک پیشہ ور صحافی کی حیثیت سے کسی بھی سیاست دان کی حمایت اور شہرت کا ذریعہ بن جائیں وقت آنے پر وہ آپ کو عقل سکھانے اور باشعور بنانے کی کوشش کرے گا۔ بہتر پھر یہی ہوتا ہے کہ آپ دیانت داری سے بات کریں کسی کو اچھی لگے یا بری اپنی بات ضرور کہیں۔ ہمارا نقطہ نظر ابتدا ہی سے یہ رہا کہ اب محاذ آرائی کی سیاست سے باہر نکل آنا چاہئے۔ سیاست دانوں کو خود اپنے گندے کپڑے بازار میں دھو کر دوسروں کو تنقید اور تیسری قوت کو دعوت نہیں دینا چاہئے۔
Accountability
اس سلسلے میں یہی عرض کرتے چلے آ رہے ہیں کہ انتخابی اصلاحات ہوں یا احتساب کا عمل یا پھر خارجہ پالیسی اور اندرونی و بیرونی خطرات، ان مسائل پر قومی اتفاق رائے ہونا چاہئے اور سب مل کر قومی سوچ کے ساتھ قانون سازی کریں اور ادارے بنا لیں۔ کوئی سنتا ہی نہیں تھا۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز تھی۔ اب شکر کہ انتخابی اصلاحات بل پر اتفاق رائے ہو گیا، اس حوالے سے بھی پاناما لیکس ہی کا یہ اعزاز ہے کہ شدید گرما گرمی کے باوجود ہوا وہی جو ہونا چاہئے تھا۔ اب اگر مشترکہ طور پر ٹی او آر طے پا جاتے ہیں تو احتساب کا عمل بھی شفاف ہو جائے گا شرط یہ ہے کہ احتساب بل بھی اتفاق رائے سے منظور کر لیں کہ مستقل احتسابی ادارہ بھی وجود میں آ جائے۔
اب صورت حال کچھ واضح ہونے لگی ہے مذاکرات پر آمادگی اور ان کا شروع ہونا بھی بہت بڑی کامیابی ہے۔ جہاں تک تیسری قوت کو آواز دینے والوں کا تعلق ہے تو ان کو یہ آس ختم کر دینا چاہئے کہ ایسا نہیں ہوگا اس کے لئے چیف آف آرمی سٹاف کا حالیہ دورہ چین اور وہاں کی مصروفیات ہی پر نظر ڈالنے سے سمجھ آ جاتی ہے۔ آپ کو خود اپنے معاملات ٹھیک کرنا ہیں۔ احتساب مستقل عمل کے طور پر اختیار کیا جائے اور آزادانہ انتخابات مکمل ضمانت کا اہتمام کیا جائے جو اب آئینی ترامیم اور قانون سازی سے ہوگا۔
یہاں ایک گزارش کرنا ہے کہ سید خورشید شاہ اعتدال سے بات کرتے اور قائد حزب اختلاف کا منصب نبھا رہے ہیں ان کو سب پر نظر رکھنا ہوتی ہے اور وہ ایسا کرتے ہیں۔ اعتراز احسن اور بلاول کے بیانات کو درست اور پارٹی پالیسی قرار دے چکے ہیں۔ پھر ان عبدالرحمن ملک صاحب (سابق وزیر داخلہ) کو خواب آیا کہ بلاول نے وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا۔ بلاول نے تو آزاد کشمیر کے دو جلسوں اور اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا۔ محترم ملک صاحب کو ریکارڈ ملاحظہ کر لینا چاہئے۔ سید خورشیدشاہ یہ سب پارٹی پالیسی کے مطابق قرار دیتے ہیں تو پھر رحمن ملک کو کیسے علم ہوا کہ بلاول نے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا۔