کیا ہمارے یہاں جمہوریت اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے

Corruption

Corruption

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

معاف کیجئے گا، ہمارے یہاں 72سال میں ایک طرف عوام الناس سے جمہوریت کا کشکول دِکھا کر جمہوری اقتدار کی مسند پر قبضہ کرنے والے جمہوری پنڈتوں کے ہاتھوں جمہوریت کمزور سے کمزروتر ہوتی گئی ہے ۔مگر اِس عرصے میں دوسری جانب جمہوری کھٹولے میں سو ار قومی لٹیروں نے کرپشن کو مضبوط کیا اور اِسے طاقت بخشی ہے ۔جمہوری پنڈتوں اور کرپٹ عناصر کے گٹھ جوڑ نے عوام کا خون چوسا اور مُلک کی معاشی و اقتصادی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ہے۔ گوکہ دونوں نے ہی مل کر جمہوریت کو کمزور کیا اور کرپشن کے کینسر کو پال پوس کر پروان چڑھایا ہے۔

کیا ہمارے یہاں جمہوریت اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے؟ آج یہ سوال ہر محب وطن پاکستانی کی زبان پر ہے ۔اگر ایسا نہیں ہے؟ تو پھرکیا ..؟؟ہے کوئی جو عوام کے اِس سوال کا تسلی بخش جواب دے اور پاکستانی قوم کو اُس طرح مطمئن کرے۔ جیسا کہ قوم جمہوریت کی آبیاری اور کرپشن کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے سرکاری اقدامات سے متعلق جاننا چاہتی ہے۔

جیسا کہ عوام میں پائی جانے والی اِس بے چینی کو دورکرنے کی پچھلے دِنوں ہی ڈیووس میں خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان یہ کہتے ہوئے کوشش کرچکے ہیں کہ ”ماضی میں حکمرانوں نے ذاتی مفادکے لئے اداروں کو تباہ کیا ، بڑے منصوبوں میں کمیشن لی، معیشت کو منصوعی طور پر کنٹرول کیا اور دنیاسے جھوٹے وعدے کئے، فوج سے کشیدگی کی وجہ سابقہ حکومتوں کی کرپشن تھی،جبکہ آج سول او ر عسکری قیادت میں مکمل ہم آہنگی ہے ،حکومت کو عسکری سمیت تما م اداروں کو حمایت حاصل ہے“ وزیراعظم دنیا میں گھوم گھوم کر پاکستان کے جمہوری عمل و چہرہ اور کرپشن کے تیزی سے گرتے گراف کو متعارف کرانے میں لگے ہوئے ہیں.مگر لگتا ہے کہ ابھی وزیراعظم اور اِن کی ٹیم کو مُلک میں جاری جمہوری عمل اور لگام لگتی کرپشن کے حکومتی اقدامات کو متعارف میں مزید وقت لگے گا. جب تک حکومت مُلک میں جاری حقیقی جمہوری عمل اور کنٹرول ہوتی اور بتدریج کم ہوتی ہوئی کرپشن کو دنیا بھر میں پوری طرح متعارف نہیں کرادیتے ہیں. اُس وقت تک مُلک میں اُمید افزاءبیرنی سرمایہ کاری کا آنا محال ہوگا۔

جبکہ ہمارے بارے میں سات سمندر پار سے کرپشن اور جمہوریت کے حوالوں سے سروے کرنے والے اداردوں کی ایسی تازہ ترین خبریں آتی رہیں گیں۔ جیسی کہ دنیا بھر میں مُلکوں میں جمہوریت اور کرپشن کی سطح کا پیما نہ جانچنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل اور دی اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کی جانب سے حالیہ رپورٹس جاری ہوئی ہیں۔ جن میں بچتے بچاتے کئی مصالحتوں اور مفاہمتوں کا سہارالیتے ہوئے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل اور دی اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے کبھی دُکھ اور کبھی خوشگوار احساس کے ساتھ اظہار کیا ہے کہ ” دنیا کے بیشتر مُلکوں میں جمہوریت پسپائی اختیار کررہی ہے مگر کرپشن میں اضافہ ہورہاہے ۔سالانہ بنیادوں پر کئے جانے والے اِس سروے میں 167ممالک میں پانچ عناصر کا جائزہ لیتے ہوئے جمہوریت کا پیمانہ معلوم کیا جاتا ہے۔ جن میں انتخابی عمل اور تکثیریت، حکومت کے کام کرنے کا انداز، سیاسی عمل میں شرکت، جمہوری سیاسی کلچر اور شہری آزادیاں شا مل ہیں۔

تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ، مختلف مُلکوں میں یہ پانچوں عوامل زوال کا شکار ہیں، 2006سے شروع کئے جانے والے اِس سروے میں پہلی مرتبہ ہے کہ دس میں سے کسی مُلک کی جانب سے 5.44کا تنہائی کم ترین اسکور حاصل کیاہو۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے صرف 22ممالک ایسے ہیں۔ جہاں رہنے والے 43کروڑعوام مکمل جمہویرت کے ثمرات سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔جبکہ دنیا کی آبادی کا ایک تہائی سے بھی زیادہ حصہ آمرانہ دور میں زندگی گزارنے پر مجبورہے ۔ رپورٹ میں جابجابتایاگیاہے کہ 54ممالک (دنیا کی 42.7فیصدآبادی) میں موجود جمہوری نظام میں خامیاں ہیں۔37ممالک (دنیاکی 16فیصدآبادی )میں ہائبرڈ نوعیت کی حکومت ہے۔ جبکہ54ممالک (دنیا کی 35.6فیصد آبادی) میں مکمل آمرانہ حکومت ہے ۔ جن مالک میں مکمل جمہوریت موجودہے۔ اِنہیں10میں سے 8سے10نمبردیئے گئے ہیں۔جہاں نقائص سے پر جمہوریت موجود ہے۔ اِنہیں 6سے 8کے اسکورکے درمیان رکھاگیاہے ۔ہائبرڈ جمہوریت والے ممالک کو 4سے 6اسکورکے درمیان رکھاگیاہے۔ جبکہ آمرانہ حکومتوں والے ممالک کو صفر سے 4کے درمیان اسکور یاگیاہے۔

بہترین جمہوریتوں میں بالترتیب ایک سے 10سے آنے والے ممالک میں ناروے، آئس لینڈ ، سوئنڈن، نیوزلینڈ، فن لینڈ، آئرلینڈ ، ڈنمارک اور کینیڈاشامل ہیں۔آٹھوں نمبر پر کوئی مُلک نہیں ۔ جبکہ اسٹریلیانویں اور سوئٹزرلینڈ کو دسویں نمبر رکھا گیاہے۔فہرست میں برطانیہ کا نمبر 14واں ہے۔ جبکہ امریکا25ویں نمبر پر ہے پاکستان کو 108ویں نمبر پر رکھا گیاہے۔ جہاں انتخابی عمل کو 10میں سے 6.08حکومت کے کام کرنے کے انداز کو 10میں سے 5.71سیاسی شرکت کو 10میں سے2.22سیاسی کلچر کو 10میں سے 2.50جبکہ شہری آزادیوں کے شعبے میں پاکستان کو10میں سے4.71نمبردیئے گئے ہیں رپورٹ میں پیش کئے گئے سالانہ تقابلی جائزے کو دیکھیں توکہا جاسکتاہے کہ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں جمہوریت پیپلز پارٹی اور نوالیز کے ادوار سے کم ہے اور اِس کا اندازہ سلانہ اسکور سے بآسانی لگایاجاسکتاہے 2019میںمجموعی اسکور 4.25،2018میں 4.17،2017میں6 4.2،2016میں4.33،2015میں 4.40،2014میں4.64،2013میں 4.64،2012میں4.57،جبکہ فہرست میں بھارت گزشتہ سال کے مقابلے میں دس درجے تنزلی کے ساتھ 51ویں پوزیشن پر آگیا۔رپورٹ میں اس کی وجہ شہر آزادیوں کے شعبے میں مُلکی خراب کارکردگی بتائی گئی ہے ۔رپورٹ میں چیخ چیخ کر بتایاگیاہے کہ 2018میں بھارت کا مجموعی اسکور 7.23تھا جواب کم ہوکر 6.90ہوگیاہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بھارت کو نقائص سے پر جمہورتیوں کی فہرست میں رکھاگیاہے،اِسی دوران فہرست میں چین کا اسکور بھی کم ہو کر 2.26تک جاپہنچا ہے اور فہرست میں اِس کا نمبر پاکستان سے بھی نیچے یعنی 153ویں نمبر پر ہے ۔رپورٹ کے مطابق اِس صورت حال کی وجہ عوام ڈیجیٹل جاسوسی اور اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک جیسے اقدامات شامل ہیں۔ بہتری کی جانب ممالک میں 52ویں نمبر پر برازیل کا نام سامنے آیاہے۔ جس کا اسکور 6.86ہے 69ویں نمبر پر مُلک سری لنکاکا اسکور 6.27جبکہ80ویں نمبرپر موجودمُلک بنگلادیش کا اسکور 5.88رہافہرست میںآخری 167ویں نمبر پر شمالی کوریاکارہا۔“

لگ بھگ 72سال پہلے اسلام کے نام پر بننے والا مُلک رفتہ رفتہ اسلامی ریاست سے جمہوری ریاست میں بدل گیا ۔مگر آج نہ یہ اُس طرح ابتدائی تصوارتی بنیادوں پر بننے والا اسلامی مُلک ہی رہاہے۔ اور نہ ہی ٹھیک طرح جمہوری بن پایا ہے۔بڑے بڑے دعووں کے ساتھ رواں حکومت وطن عزیز کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے اعلانات تو بہت کررہی ہے مگر ابھی تک ایسا کچھ اچھا ہوتا نظرنہیں آرہاہے کہ موجودہ حکومت مُلک کو مدینہ جیسی ریاست بنا پائے گی حکومت کے سارے وعدے اور دعوے سب محض سیراب ہی لگ رہے ہیں کیوں کہ وزیراعظم عمران خان مصالحتوں اور مفاہمتوں کے شکار ہوکر یوٹرن پہ یوٹرن لینے میں مہارت حاصل کرتے چلے جارہے ہیں مگر مُلک سے کرپشن اور کرپٹ عناصر کے خاتمے کے لئے جو کام اِنہیں کرنے چاہئے تھے۔ یہ ابھی تک اِس سے دامن بچا کرنکلنے میں ہی اپنی عافیت جان رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ اَب عوام کو بھی سمجھ آنے لگا ہے۔

غرض یہ کہ مُلک سیاسی شیخ چلیوں کے گرداب میں پھنس کر اسلامی اور جمہوری راگوں کے درمیان چوں چراں کا مربہ بن کررہ گیاہے۔ آج اِس مربے میں جس کا جی چاہتاہے۔ وہ اُسی کے مزے لوٹ رہاہے۔ جو اسلامی نظریات کا جھنڈا تھامے ہوئے ہیں۔ وہ اسلام کا پر چار کرکے ووٹ بٹورنے میں لگ جاتے ہیں۔ اور جو بے ثمر کی جمہوریت کا علم اُٹھا کر تیرے میرے پاکستان کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ وہ بھی ووٹ لیتے ہیں۔ اور سروں کی گنتی کے بعد نام نہاد جمہوری حکومت کی مسند پر سوار ہوکر مدرپدر آزاد حکمرانی کے گھوڑے دوڑاتے پھرتے ہیں۔سرزمینِ پاکستان میں یہ عمل جمہوری پجاری برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ایوانوں کو جمہوری مندروں میں بدل کر سارے پنڈت یک دل اور یک زبان ہوکر اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات اور فائدوں کے لئے پسند پسند کی قانون سازی کرتے ہیں۔ اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے اُٹھائے جانے والے اقدامات اور احکامات کو بھولا کر سب عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کو گمنامی کے گڑھے میں ڈال کربس قومی خزانے پر نظررکھ کراپنے الللے تللے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف رہتے ہیں۔

ویسے تو مُلک میں کئی اقسام اور فطرت کے لوگوں رہتے ہیں۔ مگر مُلک کو جو چلاتے ہیں۔ وہ صرف دوقسم کے لوگ ہیں۔ ایک جمہوریت کا کشکول لئے بے ثمر جمہوری حکمران اور دوسرے اِن جمہوری بھکاریوں کے افسر شاہی نما چیلے چانٹے اورانگلیوں پر گننے جانے والے چند اسلامی جماعتوں کے نمائندے یہی وہ لوگ ہیں۔ جو اہل ِ وسائل کے دعوے تو بہت کرتے ہیں۔ مگر پھر بھی عوام کو مسائل کی دلدل میں دھکیل کر اِنہیں اہلِ مسائل سے آگے بڑھنے بھی نہیں دیتے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِن مکاروں اور لٹیروں نے مُلک میں اپنے جیسے لوگوں کا ہی مضبوط گروہ بنا رکھا ہے۔ جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کو حکمرانی کے قابل نہیں سمجھتے ہیں۔اِسی لئے مُلکی ایوانوں میں کئی سالوں میں عیاروں اور مکاروں کی بہتات ہے۔ اور ہمارے ایوان قانون سازی اور مُلکی تعمیرو ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں سے عاری ہو گئے ہیں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com