تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم یہ تو سب ہی جانتے ہیں اور خوب سمجھتے ہیں کہ لولی لنگڑی جمہوریت کا ایک پل برسوں کی آمریت سے لاکھ درجے بہتر ہوتا ہے مگر ہائے رے افسوس کہ آج میرے دیس پاکستان میں کانچ کی جمہوریت کو پتھر دل حکمران و سیاستدان جو خود کو جمہوریت کے پنڈت اور اِس کے ہی پُجاری گردانتے ہیں آج یقینی طور پر یہی اپنے ہی ہاتھوں تراشی گئی کانچ کی جمہوریت کو نقصان پہنچا نے کے در پر ہیں۔
آج اگر پاناما پیپرز لیکس اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کاایجنٹ کل بھوشن یادیو کی پاکستان سے پکڑے جانے کے بعدبھی بھارت کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنانے سمیت دیگر حساس معاملات پراقتدارکے نشے میں مست ہمارے حکمران اپنے اردگرد منڈلاتے اپنے ہم خیال سیاستدانوں ، بیوروکریٹس اور ٹیکنو کریٹس اور اپنی نام نہادجمہوریت کے پُجاریوں کے ہمراہ اپوزیشن اور فوج جیسے محب وطن اداروں سے پنجہ آزمائی اور لڑائی جھگڑوں سے باز نہ آئے تو پھر یقینا ایسے میں تاک میں بیٹھے طاقتورترین آمرکو جمہوریت پر شب خون مارنے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔
پھر جس کے بعدجوہوگااُسے دنیا دیکھے گی، تب یہی حکمران اور سیاستدان ہوں گے جو آج آپس میں دستِ گریبان ہیں اور ایک دوسرے کا سرپھوڑنے اورایک دوسرے کی بتیسی توڑنے والے ضدی اور اِنا پرست حکمران اور سیاستدان ہمیشہ کی طرح پھر ایک دوسرے پرالزام تراشیاں شروع کردیں گے کہ اِن کی کانچ کی گُڑیانما جمہوریت پرآمر کی آمریت کا قبضہ اِس کی اور اُ س کی وجہ سے ہوا، فلاں نے اپنی ضد اور اَنا کے آگے کسی کی ایک نہ سُنی ، یوں اِن کے آپس کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے اِن ہی کے ہاتھوں بڑے نازنخروں سے تراشی گئی کانچ کی جمہوری گڑیا کرچی کرچی ہو کر رہ جائے گی۔
Panama Leaks
آج بدقسمتی سے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر مُلکِ پاکستان میں حکمرانوں اور سیاستدانوں اور اداروں کی خاموش اور ظاہر و باطن لڑائی اور ذاتی اور سیاسی حوالوں سے زبانی کلامی چیرابازی کی وجہ سے کچھ ایسی ہی صورتِ حال پیداہوگئی ہے کہ ہردم ایک یہی دھڑکا لگارہتاہے کہ اِن کم عقلوں اور اقتدار کے نشے میں مست بظاہر نظرآنے والے جمہوری چیلوں کی وجہ سے کہیں بیچاری کانچ کی جمہوریت کا بیڑاغرق نہ ہوجائے اور اگر موجودہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی لڑائی کی وجہ سے پھر کہیں جمہوریت پر کاری ضرب لگی تو پھر یہ بھی یاد رہے کہ اِس مرتبہ بھی جمہوریت کی گُڑیاکاگلااِس سے کھیلنے اور اِس کی پُوجاکرنے والے ہی اپنے ہاتھوں سے خود گھونٹیں گے اِن دِنوں جس کے لئے حکمران اور اقتدار کے حصول میں چاکِ گریبان کرتے سیاستدان پَر تول رہے ہیں۔
کم ازکم اِس سے تو بیشک کسی کو اِنکارنہیںکہ مملکتِ پاکستان کی 68 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ سرزمینِ پاکستان میں جب بھی سِول حاکموں کی حاکمیت قائم ہوئی وہ کئی لحاظ سے کمزور رہی، حاکم بھی کمزورتو جمہوریت بھی ناتواں،نظام بھی ڈانواں ڈول تو اُصول اور ضابطے بھی سطحی ،ایوانوں کی عمارتیں تو بلندوبالاہمیشہ سے رہیںمگر افسوس کہ ایوانِ نمائندگان قومی سوچ اور مُلکی ترقی اور قوم کی خوشحالی سے عاری ،جب سب ہی ایسے ہوں توپھر بھلاکون ایسا ہوگا؟؟جو ایوانوں میں بیٹھ کر مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی اور معیشت کے استحکام اور سرحدوں کی حفاظت اور سا لمیت سے متعلق سوچے اور قومی سوچ اور بقا ءاور سلامتی کے تقاضوں کو لے کر آگے چلے،تاکہ قومی یکجہتی اور مساوات اور اتحاد ویگانگت کا کہیں کوئی نمونہ نظرآئے، جب ایوانِ نمائندگان کی فکراور سوچ قومی نہ ہوتو پھر سوچیں کون مُلک اور قوم کی ترقی کے لئے کچھ کرے گا۔
Pakistan
ہاں ہمارے یہاںتو ہر سول دور میں ایوانِ نمائندگان کی بس ایک یہی سوچ و فکر رہی ہے کہ ایوان کی دہلیز پر قدم رکھنے اورایوانوں کی کُرسی پر بیٹھنے کے بعد کس طرح اپنی اَنا کے بُت کی پروش کرنی ہے اور کس طرح عوامی حقوق غضب کرنے ہیں، قومی خزانے سے کس طرح اپنے اللے تللے کے لئے رقم نکالی جائے اور مُلک سے ٹیکس چوری کرکے اپنے اور اپنے خاندان کے ممبران کے نام سے بیرونِ ممالک کے بینکوں میں اکاونٹس کھلواکروہاں کس طرح قومی دولت منتقل کی جائے اور پھر ایک سے دو اور دوسے تین اور تین سے چار اور پھر انگنت آف شورکمپنیاں بنائی جائیں، اور قوم کو کانچ کی جمہوری گڑیاسے کھیلنے کے لئے چھوڑدیاجائے، اور خودقومی خزانے سے اپنی زندگیوں کو عیش وطرب کا شاہکارِ عظیم بنایا جائے،ہمارے سول حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ایسی سوچ اور فکر ہی نے توجمہوراور جمہوریت کو مُلک میں پنپنے نہیں دیاہے اِن کی ایسی منفی سوچ ہی اِن کے آپس کے لڑائی جھگڑوں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اوراِن کی آپس کی چپقلش کی وجہ بنی رہی ہے اور جب بھی کوئی سول ایسے میں آگ و خون کا دریاعبورکرکے اقتدار میںآیاتو پھراِس کا فائدہ کسی وردی والے نے اپنا ڈنڈاچلاکراوراپنا بوٹ اِن کی اقتدار کی کُرسی پر مارکر اِ س کے پرخچے اُڑاکراُٹھایااور خود حقِ حکمرانی کا علم یا جھنڈالے کر سالوں قابض رہا۔
یقین جانیئے کہ سِول حکمرانوں کے ہردورمیں وردی والوں کی مداخلت کی وجہ خود سول حاکموں اور سیاستدانوں اور اداروں کے درمیان ہونے والی لڑائی ہی بنی ہے جس کا ہمیشہ فائدہ وردی والے کو ہوااور پھر وہی ہواجس کے بعد جمہوریت کی دیوی کے پُجاریوں کے ہاتھ سوائے کفِ افسوس اور ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے کے کچھ نہ آیاہے ڈرہے کہ پھر ایساکہیں نہ ہوجائے اور اگر ہوبھی جائے تواَب تو بہت ہی اچھاہوگاکیونکہ قوم کو جمہوری لولی پاپ نے کبھی ایک ڈھلے کا بھی فائدہ نہیں دیاہے آج تو مسائل اور بحرانوں میں گھیری ساری پاکستانی قوم اللہ سے دُعاگوہے کہ اے اللہ..!!بہت جلداِن تمام نام نہادجمہوری سول حاکموں سے ہماری جان چھڑا، کیونکہ آج ہمارے سِول حکمرانو،سیاستدانو، بیورکریٹس اور ٹیکنوکریٹس نے قوم کو مسائل اور بحرانوں کے بلڈوزرسے کچل کررکھ دیاہے ….۔!!! اے اللہ ، بس آمر حکمران ہم پر مسلط فرمادے جو سِول حاکموں سے نجات دلائے،آمین۔ختم شُد