اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے نفاذ کا حتمی فیصلہ جی ایچ کیو کے اجلاس میں ہوا تھا۔ اسلام آباد میں فوج طلب کرنے کا فیصلہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے سات آٹھ روز پہلے ہی کر لیا گیا تھا مگر جی ایچ کیو سے اسکی اجازت چند روز پہلے ملی ہے۔
فوج بلانے کا عمران کے دھرنے یا جلسے سے کوئی تعلق نہیں، جمہوریت کو دور دور تک کوئی خطرہ نہیں، سول ملٹری تعلقات مثبت اور مثالی ہیں۔ وفاقی حکومت نے اسلام آباد یا کسی اور شہر کو فوج کے حوالے کرنے کی ریکوزیشن نہیں کی بلکہ مسلح افواج سول انتظامیہ کی مدد کے لئے کام کرے گی، فوج صرف 90روز کے لئے آئے گی۔ فوج کی تعینانی کا مقصد کسی سیاسی مارچ کو روکنا نہیں، بعض سیاست دانوں کی طرف سے فوج کو متنازعہ بنانے کی کوشش افسوسناک ہے، آرٹیکل 245 کے سیاسی استعمال کا سوچ بھی نہیں سکتے اس کا استعمال صرف دہشت گردی کے خلاف ہو گا۔
ایسی خفیہ اطلاعات ہیں کہ خود عمران خان اور کئی دیگر اہم شخصیات کی جان کو خطرہ ہے ان کی حفاظت کے لئے بھی یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ آرٹیکل 245 کا نوٹیفکیشن زیادہ واضح ہے جس میں تمام آئینی اور قانونی پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مستقبل میں اس کے استعمال کے حوالے سے بھی خاکہ واضح کر دیا گیا ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا بعض سیاستدانوں کو ہر روز بیان دینے کی بیماری لاحق ہے ہر روز بیان دئیے بغیر ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا ان کو یہ بھی یاد نہیں ہوتا کہ چند روز، مہینے یا سال قبل ان کا کیا موقف تھا۔
اللہ ہی انہیں اس بیماری سے شفا دے سکتا ہے۔ فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لئے بلانے کا فیصلہ قومی مفاد میں کیا ہے کیونکہ اس وقت ملک حالت جنگ میں ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت پہلی حکومت نہیں جس نے آرٹیکل 245کے تحت فوج کی مدد حاصل کی۔ 2007ء سے آج تک اس آئین کے آرٹیکل 245کا 11 بار استعمال ہوا ہے اس کا استعمال دنیا کے کئی مہذب ممالک میں ہوتا رہا ہے۔ ماضی میں انتخابات، ضمنی انتخابات، امن و امان کے قیام، دہشت گردی، کراچی میں ووٹر لسٹوں کی درستگی، 2009ء کے وکلاء کے لانگ مارچ، محرم الحرام، سندھ اورآزاد کشمیر میں بھی اس آرٹیکل کے تحت فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کیلئے بلایا گیا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ فو ج کو بلانے سے وہ شہر یا صوبہ فوج کے حوالے ہوگیا ہے جو شخص بھی ان حالات میں تنقید کر رہا ہے وہ حساس وقت میں فوج کو متنازعہ بنا رہا ہے۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف ملک کے گلی کوچوں میں جنگ ہو رہی ہے۔ ایسے وقت میں متازعہ بیانات اور تنقید فوج کا مورال کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ آئین کے آرٹیکل245 کے نفاذ کے سلسلے میں آخری اور حتمی فیصلہ جی ایچ کیو اجلاس میں ہوا تھا۔
فوج اس وقت بھی بے نظیر بھٹو ائرپورٹ، نور خان ائر بیس اور اسلام آباد میںکئی حساس مقامات پر تعینات ہے لیکن یہ کسی ریکوزیشن کے بغیر تعینات ہے۔ تحریک انصاف نے تاحال 14 اگست 2014ء کے جلسے کے حوالے سے ضلعی مجسٹریٹ کو درخواست نہیں دی۔ جب تحریک انصاف کی جانب سے جلسہ کی اجازت کی درخواست آئے گی پھر اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت تین ماہ کے لئے سول انتظامیہ کی معاونت کے لئے فوج تعینات کی جائے گی۔ وزیر اعظم کے آنے کے بعد عمران خان کے ان مطالبات پر غور کیا جا سکتا ہے جو مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔
یہ وقت بہت سنگین ہے، پوری قوم کو فوج کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ سیاست کے لئے ابھی بہت وقت ہے، فوج کو مختلف جگہوں پر تعیناتی کے لئے قانونی کور دیا گیا ہے یہ صرف اسلام آباد کے لئے نہیں بلکہ پورے ملک میں کسی بھی شہر یا ضلع کے لئے جب بھی انتظامیہ چاہئے گی فوج طلب کر سکے گی۔ پوری دنیا میں جہاں بھی ہنگامی حالات ہوتے ہیں فوج کو اندرونی سلامتی کے لئے طلب کیا جاتا ہے۔
سری لنکا، برطانیہ، سپین، اٹلی، امریکہ جیسے ممالک نے بھی فوج کو اندرونی سلامتی کے لئے استعمال کیا۔ 2009-10ء کے ملٹری آپریشن سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ کسی آپریشن کا سخت ترین ردعمل پورے ملک میں ہوسکتا ہے۔ اکتوبر میں سندھ میں محرم الحرام کی سکیورٹی کے لئے فوج کو بلایا گیا مگر ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ فوج کی تعیناتی سے متعلق تمام معاملات صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے اجلاس میں بہت پہلے ہی زیر بحث آ چکے ہیں اگر کوئی بھول گیا ہے تو پھر کچھ نہیں کر سکتے۔
فوج کو بلانے کے حوالے سے ایک مخصوص تاریخ کا ذکر کیا جارہا ہے مگر آپ سب لوگ دیکھ لیں گے 14 اگست بھی آ جائے گی اور اس کے بعد تنقید کرنے والوں سے اس بارے میں پوچھئے گا کہ اگر وہ قوم کے سامنے شرمندہ ہونے کی ہمت نہ ہو تو انہیں کم از کم اپنے دل میں ضرور شرمندہ ہونا چاہئے۔ میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جوں جوں حالات بہتر ہوں گے اس سارے معاملے پر نظرثانی کی جائے گی اس کی مدت میں کمی اور بڑھائی جا سکتی ہے۔ ملک حالت جنگ میں ہے، ہر چیز پر سیاست کی گنجائش نہیں ہوتی۔ بعض سیاست دان ایسے ہیں جن کا ہر روز بیان دیئے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا۔
فوج بلانے سے کوئی صوبہ یا شہر فوج کے حوالے نہیں ہوجاتا۔ فوج کے معاونت کے معاملے کو کچھ سیاستدانوں نے غیر ضروری طور پر اچھالا۔ بیانات کے شوقین رمضان المبارک میں بھی غلط بیانات سے باز نہیں آئے۔ عوام کے تحفظ کے لئے فوج تعینات کی جا رہی ہے۔ تنقید کرنے والے فوج کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔ جب ملک حالت جنگ میں ہے فوج اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کے لئے استعمال کی جا رہی ہے۔ ہر چیز پر سیاست کی گنجائش نہیں۔
کئی سال سے آوے کا آوا ہی بگڑا ہے جس کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپریشن میں سول ملٹری نہیں اداروں اور جماعتوں کو یکجا ہونا چاہئے طاہر القادری اور عمران خان لانگ مارچ اور دھرنے کے حوالے سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی عار نہیں‘ عمران خان سمیت ہائی پروفائل ناموں کو دہشت گردی کا خطرہ ہے، ممکنہ خطرات سے آگاہ کر دیا گیا ہے، چند سیاست دانوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے، ہر روز ان کا بیان جاری نہ ہو توکھانا ہضم نہیں ہوتا، ایک ٹکر میں ان کی جان اٹکی ہوتی ہے، آرٹیکل 245 کا واویلا مچا ہوا ہے۔
یہ کسی اور ملک نہیں بلکہ آئین کا حصہ ہے جو اس کی مخالفت کرتے ہیں انہوں نے ہی اسے آئین کا حصہ بنایا اگر جھوٹ کے پہاڑ کھڑے ہی کرنے ہیں تو عید کے بعد کھڑے کریں، جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد کا تحفظ نہیں کر سکتے کیا سندھ میں فوج بلاکر انہوں نے سندھ کا تحفظ کیا تھا اسلام آباد یا کوئی اور شہر فوج کے حوالے نہیں کیا جائیگا، سول انتظامیہ کام کرے گی ‘فوج سول انتظامیہ کی معاونت کرے گی، 350 ٹروپس پر مشتمل فوج سول انتظامیہ کی مددکیلئے 90 دنوں کیلئے اینٹی ٹیررزم ایکٹ کے 1997ء سیکشن 5 کے تحت بلائی گئی۔