جمہوریت کی بحث

Democracy

Democracy

سچائی کی تلخ حقیقت قبول کرنے کیلئے بڑے ظرف کی ضرورت پیش آتی ہے یہ ایسا کڑوا گھونٹ ہے جسے حلق سے نیچے اُتارنا آساں نہیں تماشائے آہن و سنگ ہمارے گلی کوچوں میں بکھر ہوا ہے اس کے باوجود این اے 69 کے ضمنی الیکشن میں عوام کے اندر تبدیلی کی خواہش نے مقتدر حلقوں کو ششدر و حیراں کر دیا ایک مخصوص طبقہ جو ہمیشہ اپنی اس خواہش کے زیر نگیں رہا کہ اُسی کے فیصلوں کے تابع عوام کی اکثریت اپنے حق خود ارادیت کی مہر ثبت کرے گی عوامی فیصلہ نے اُسے شکست فاش دیکر اُس کے خود ساختہ اصولوں کو متروک اور بے معنی قرار دے دیا پسماندہ ترین معاشروں کی روش ابھی تک مسلط کی جارہی ہے مگر نئی نسل اب اسے قبول کر نے کیلئے تیار نہیں عوام نے آبرو مندانہ رستے کا چنائو کیا ہم ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں جہاں اقتدار، دولت اور استحصال کو سیاسی زندگی کا مقصد بنا دیا گیا ہے ایک بازار مصر لگا ہوا ہے جہاں عوام کی سودے بازی میں اقتدار کے عہدوں کیلئے چھینا جھپٹی کی جاتی ہے، مقتدر حلقوں کی خوشنودی کی خاطر کاسہ لیسی فنِ سیاست کے کلیدی علوم بن گئے ہیں وفاداریاں بدلنا پیشہ ورانہ ہنر بن گیا ہے مگر اس کے باوجود استحصال زدہ عوام نے ناقابل مصالحت کردار نبھایا۔

سچ پوچھیئے تو زندگی جتنی آج مضطرب ہے پہلے کبھی نہیں رہی اذیت ناک صدمات قدم قدم پر فرد وطن کا مقدر ہیں ایک ایک زخم جو جسم اور احساس پر لگایا جا رہا ہے وہ ایک ایک دکھ جس کے کرب میں محنت کش مبتلا ہیں اگر فوری بغاوت کی صورت میں نہیں اُبھر رہا تو اجتماعی نفسیات اور تاریخ کے اوراق پر نقش ضرور ہو رہا ہے ایک طرف معصوم انسانوں کا قتل عام جاری ہے تو دوسری جانب سارا معاشرہ غربت، بیروزگاری، مہنگائی، کرپشن، بیماری اور استحصال کی کبھی نہ دیکھی گئی بربادی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے کسی بھی شعبے میں کوئی بھی پالیسی سماج میں رائج معاشی و اقتصادی نظام کی عمومی کیفیت سے آزاد اور متضاد نہیں بنائی جاسکتی وطن عزیز کی معیشت کی حالیہ زبوں حالی کو اعداد و شمار سے سمجھنا تو زیادہ مشکل نہیں لیکن عوام اور خصوصا ًمحنت کشوں کی حالت زار اور بڑھتے ہوئے عذابوں کے احساس سے سمجھنا بہت ہی اذیت ناک دکھا ئی دیتا ہے۔

IMF

IMF

اس کا پس منظر محض نظام سے مصالحت کا نتیجہ ہے آئی ایم ایف کے نسخوں کو ہی لیں زندگی کو عذاب مسلسل بنا دیا ہے، کارپوریٹ منافعوں میں حیرت ناک اضافے ہوتے جارہے ہیں اشیائے صرف کی قیمتیں 300 سے 500 فیصد اضافے تک جا پہنچیں، سرمایہ دارانہ پالیسیاں ہیں کہ محنت کشوں کا انتہا تک خون، آنسو اور پسینہ نچوڑ رہی ہیں موجودہ حکمرانوں کا اصلاح پسندی کا نظریہ اور رحجان سرمایہ داری کو تحفظ دینے کا سب سے کار گر اوزار ہے لیکن موجودہ نظام میں اصلاحات کی گنجائش عبث ہے اس لیئے اصلاح پسندی کی لفاظی اور نعرہ بازی بھی ایک فریب بن گئی ہے بیہودہ نقالی پر مبنی یہ نظام روز اول سے ہی کسی نہ کسی مداری کی ڈگڈگی پر ناچ کر اپنے تقاضے پورے کرتا رہا ہے جب دیس کا ہر فرد بنیادی انسانی حقوق حاصل کر رہا ہوتا ہے تو اُس کے دل میں وطن سے محبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں تب ایک قوم وجود میں آتی ہے استحصال، ناانصافی، جبرو تشدد اور غیر انسانی رویئے ہمیشہ نفرت کو جنم دیتے ہیں مہنگائی ،بے روز گاری اور غربت سے حب ا لوطنی کے جذبات پر زد پڑتی ہے خود کشیوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے مگر اقتدار کی سیاست کرنے والے خاموش تماشائی ہیں۔

24اپریل 1943 کو دہلی میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ”مجھے یقیں ہے جمہوریت ہمارے خون میں ہے یہ ہمارے رگ و پے میں ہے صرف صدیوں کے ناموافق حالات نے ہمارے خون کی گردش کو سرد کر دیا تھا اس کے منجمد ہونے کی وجہ سے آپ کی شریانیں کام نہیں کرتی رہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب خون کی گردش بحال ہو گئی ہے مسلم لیگ کی کوششوں سے پاکستان میں حکومت لوگوں کی ہوگی ”اب جمہو ر تو عوام ہیں اور جمہوریت عوام کے حق خود ارادیت کی مرہون منت ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں عوام کے حق خود ارادیت کا قتل انتخابات میں (Rigging) کے تحت ایک معمول بنتا جارہا ہے گیارہ مئی 2013 کے عام انتخابات کی ریہرسل 23 جنوری 2014 کو این 69 میں ہوئی عوام کے حق خود ارادیت کو بزور اقتدار چرایا گیا میری پذیرائی کرنے والوں نے جس جنون کے ساتھ میری جنگ لڑی وہ میرے من ،روح اور مزاج میں ٹھہر گئے اور اُن محسنوں کا ہر قدم، ہر پل ہر سانس میرے لیئے ایک دلاسا، ایک حوصلہ بنا دل میں اُترنے کا راستہ صرف خلوص کی چھائوں سے ہو کر گزرتا ہے زندگی دیوانوں کی سرشت میں تو ایک کھیل ہو سکتی ہے لیکن جو اہل جنوں ہیں، دل کی ہر دھڑکن کو اپنے قول و فعل کا امین ٹھہراتے ہیں زندگی اُن کیلئے ایک تجربہ گاہ، کڑا امتحاں ہے لیکن کیا ایسا نہیں کہ جمہوریت کی بحث میں مبتلا کر کے عوام کو ذہنی طور پر مفلوج کیا جا رہا ہے اور اسے سیاسی وجود کے خاتمے کو روکنے کیلئے بقا کی جنگ کا نام ہی دیا جاسکتا ہے کیونکہ سچائی کی تلخ حقیقت قبول کرنے کیلئے بڑے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے یہ ایسا کڑوا گھونٹ ہے جسے حلق سے نیچے اُتارنا آساں نہیں۔

Umer Aslam

Umer Aslam

تحریر:عمر اسلم اعوان