تحریر : پروفیسر رفعت مظہر سب سے پہلے اُن سبھی احباب کا شکریہ ،جنہوں نے میری بیماری کے دوران حوصلہ افزائی کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ شکر ہے کہ اِس دَوران سونامیوں نے بھی ”ہَتھ ہَولا” رکھا وگرنہ کوئی بھی سونامیہ کہہ سکتا تھا کہ یہ سب تمہارے تحریکِ انصاف کے خلاف لکھے گئے ”ابلیسی کالموں” کا شاخسانہ ہے اور اِس طرح تو ہوتا ہے ،اِس طرح کے کاموں میں قصور ہمارا بھی ہے کہ ہم ایسے ہی کالم لکھتے ہیں اور شاید اب تو عادت سی ہو چلی ہے کہ گالیاں کھا کے بھی بَدمزہ نہیں ہوتے۔ بہرحال ہم ایک دفعہ پھر میدانِ عمل میں ہیںاور ااُمیدِ واثق ہے کہ انشاء اللہ قارئین سے حسبِ سابق متواتر رابطہ رہے گا۔
انتہائی محترم چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پچھلے دنوں پاکستان بار کونسل کے زیرِ اہتمام سیمینار سے خطاب کے دَوران عدلیہ کو ”بابا” قرار دیتے ہوئے اُس کی عزت وتکریم کو ضروری قرار دیااور ساتھ یہ بھی کہا کہ اپنے ”بابوں” کو گالیاں مت دیں۔ اب چیف صاحب کی ”بابے” کی گونج گلی گلی میں ہے اور ہر کہ و مہ اُن کے اِس بیان پر مقدور بھر تبصرہ بھی کر رہا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا ”عدالتوں پر اعتماد وضاحتوں سے نہیں ،فیصلوں سے قائم ہوتا ہے”۔ ۔۔۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار دبنگ عاصمہ جہانگیر نے چیف جسٹس صاحب کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”عزّت ہوتی ہے ، کروائی نہیں جا سکتی۔ عدالتیں وضاحتی بیانوں کی محتاج نہیں ہوتیں۔ یہ کہنا کہ پارلیمنٹ کام نہیں کرے گی تو ہم آئیں گے ،وہی دلیل ہے جو جرنیل دیتے تھے۔ گاڈ فادر جیسے آوازے کَسے جائیں گے تو کیاجواب نہیںآئے گا؟۔ مناسب نہیں کہ جج شفافیت کے دلائل دیں”۔۔۔۔ پیپلز پارٹی نے کہاکہ ”بابے” نے ہر آمر کے لیے ڈنڈی ماری ،قوم اُس پر کیسے یقین کرے۔ پیپلزپارٹی کے ترجمان چودھری منظور نے کہا ”بابا خود ہی بتائے کہ عوام بابے کے فیصلوں پر کیا فیصلہ کرے؟۔ لوگ چیف جسٹس کی اِس بات کو کیسے درست مان لیں کہ بابا سب کے ساتھ انصاف کرتا ہے؟۔ بابے نے مولوی تمیزالدین کے کیس سے لے کر اب تک ہر طاقتور اور آمر کے حق میں فیصلے کیے۔ بابے نے نصرت بھٹو کیس میں ڈنڈی ماری ،ضیاء الحق کے مارشل لاء کو جائز قرار دیا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بابے نے خود ہی تسلیم کیا کہ دباؤ میں آکر بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دیا ۔بابا ہمیشہ آمروں کے دباؤ میں رہا” ۔
نوازلیگ کے سینیٹر مشاہداللہ خاں نے کہا ”کیا اخلاقی یا قانونی طور پر بابے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی کو سِسلین مافیا ،گاڈ فادر یا ڈان کہے”۔ اکابرینِ نوازلیگ نے کہا کہ آج شاہ کو بچانے کے لیے ایک چور اور ڈاکو کی بَلی چڑھی ہے۔ عمران کو بچانے کے لیے ترین کو پھنسایا گیا۔ یہ سکرپٹ کا حصّہ ہے۔ آج وہ اے ٹی ایم بھی بند ہوئی جس سے دھرنے ہوتے تھے۔ اگر عمران خاں نااہل ہو جاتے تو ڈگڈگی بجانے والے کِس سے دھرنے کرواتے اور کِس سے اداروں کو گالیاں دلواتے۔۔۔۔۔ آئینی وقانونی ماہرین کی کثیر تعداد بھی عمران خاں کے بچ جانے کو معجزے سے کم قرار نہیں دے رہے ۔اُن کا کہنا ہے کہ ایک کیس میں بینیفیشل اونرہوناسزا ہے جبکہ دوسری جگہ کہا جاتا ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ عدلیہ کے فیصلوں میں ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔
19 دسمبر کو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے کہا کہ سِکھا شاہی نہیں ،انصاف کا سِکّہ چلے گا۔ سپریم کورٹ کے باہر انصاف کا ترازو ہونا چاہیے ،تحریکِ انصاف کا نہیں۔ پہلے عدلیہ بحالی کے لیے تحریک چلائی تھی ،اب عدل کے لیے تحریک چلائیں گے۔ دہرے معیار اور انصاف کا خون نہیں چلے گا۔ اُنہوں نے کہا ”ایک فیصلہ میرے حوالے سے آیا اور ایک عمران خاں کے حوالے سے ،دونوں فیصلے سامٍنے رکھیں تو معلوم ہوگا کہ ا دُہرا معیار ہے ۔ مجھے تو رائی پر نااہل قرار دے دیا گیا اور ایک پہاڑ کو بچا لیا گیا۔ ایک خیالی تنخواہ جو میں نے لی ہی نہیں ،وہ میرا اثاثہ بن گئی اور عمران خاں کے لاکھوں پاؤنڈز کی ٹرانزیکشنز ، بَنی گالا کا گھر ،نیازی سروسز لمیٹڈ اور فلیٹ ،جن کے بارے میں وہ خود تسلیم کر چکا ہے کہ ہاں ! یہ میرے ہیں ، مگر کہا جا رہا ہے کہ یہ اُس کا اثاثہ نہیں۔ لہٰذا ہم اُسے نااہل قرار نہیں دے سکتے ۔کیا یہ دُہرا معیار نہیں؟۔ ہم کوئی پاگل یا بھیڑ بکریاں نہیں جو ایسے فیصلے قبول کریں”۔
میاں نواز شریف کی انتہائی جذبات میں کی گئی اِن باتوں میںبہرحال وزن موجود ہے کیونکہ وکلاء کی کثیر تعداد کا بھی اِسی خیال کی حامی ہے کہ میاں نوازشریف اور عمران خاں کے کیسز میں کیے گئے فیصلوں میں ایک واضح تضاد موجود ہے ۔اِسی لیے میاں نوازشریف نے ”عدل بحالی” تحریک کا اعلان کیا ہے۔جواباََ عمران خاں نے کہا ”تم اُدھر سے نکلو ،ہم اِدھر سے نکلیں گے”۔ یہ سب کچھ کِس کا کیا دھرا ہے اور ہم کِس کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ؟۔ ایک طرف حکومت سڑکوں پر آنے کا عندیہ دے رہی ہے اور دوسری طرف اپوزیشن، ملک وقوم گئے بھاڑ میں۔ اِس سب کچھکا جواب ایک معمولی عقل وفہم رکھنے والا شخص بھی یہی دے گا کہ یہ عدلیہ کے فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔
اسٹیبلشمنٹ تو اپنی وضاحت دے چکی ۔ 19 دسمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹرز کو بریفنگ دیتے ہوئے سپہ سالار محترم قمر جاوید باجوہ نے سینیٹرز کے ہر سوال کا شافی جواب دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ بالا دست ادارہ ہے۔ فوج کو آئین سے ماوراء کردار کی خواہش نہیں ،وہ عوام کو جوابدہ ہے ۔ اُنہوں نے کہا ”فیض آباد دھرنے میں فوج کا ہاتھ ثابت ہو جائے تو مستعفی ہو جاؤں گا ۔معاہدے میں فوجی افسر کے دستخط نہ ہوتے تو بہتر تھا مگر فوجی افسر دستخط نہ کرتا تو دھرنا ختم نہ ہوتا”۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران اُن کے ترجمان نہیں ۔ صدارتی نظام کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ یہ ملک کو کمزور کرتا ہے۔ محترم چیف آف آرمی سٹاف کی بریفنگ کے بعد نوازلیگ سمیت ہر کسی کو یہ یقین ہو جانا چاہیے کہ فوج اپنے آئینی کردار سے ماوراء کسی بھی کردار کی حامی نہیں ۔
آرمی چیف کی اِس وضاحت کے بعد یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ موجودہ افراتفری کی ذمہ دار ہماری انتہائی محترم عدلیہ ہے یا پھر سیاستدان جو سیاسی فیصلوں کے لیے عدلیہ کا دَر کھٹکٹاتے ہیں۔ سیاستدانوں کی اِس روش اور عدلہ کے متنازع فیصلوں کی بنا پر ملک میں اندرونی طور پر جنگ کا سا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔ البتہ دِل خوش کُن خبر یہ ہے کہ 19 دسمبر کو پیپلز پارٹی نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بِل 2017ء پر ضِد چھوڑ دی اور یہ بِل سینٹ سے منظور کروا لیا گیا جس سے بَروقت انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ پاک فوج اپنے آئینی کردار سے باہر نکلنے کو تیار نہیں اور نوازلیگ کسی بھی صورت میں اسمبلیاں توڑے گی نہیں۔مولانا طاہرالقادری کے پہلے دھرنوں کا انجام سب کے سامنے ہے۔ اِس بار بھی اُن کے دھرنے کا وہی حشر ہو گا جو پہلے ہوا ۔ عمران خاں کا قبل اَز وقت انتخابات کا نعرہ صدا بصحرا ثابت ہو رہا ہے اِس لیے قوم کو نوید ہو کہ ڈانواں ڈول جمہوریت کی گاڑی ایک دفعہ پھر پٹڑی پر چڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔