مسلم اقوام کے اندر جمہوریت کو اس طرح قبولیت حاصل نہیں ہو سکی جس طرح یورپی اقوام کے ہاں اس سے وابستگی کا اظہار پایا جا تا ہے۔ یورپی اقوام کے ہاں فوجی حکومت کو وحشت اور گالی سے تعبیر کیا جا تا ہے جبکہ مسلم دنیا میں اسے ترقی اور احتساب کا نام دے کر عوام کے بنیادی حقوق غصب کر لئے جاتے ہیں اور سیاسی قائدین کو جیلوں میں ٹھونس کر ان پر عرصہِ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ اس کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ آمرانہ روش کا وہ مائنڈ سیٹ ہے جو مسلم ممالک کے حکمرانوں کو جمہوریت کے قریب جانے میں مانع رہتا ہے ۔ مسلم دنیا میں جمہوریت اگر شجرِ ممنوعہ ہے تو اس کی واحد وجہ حکمرانوں کے سارے اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لینے کی جبلی خواہش ہے ۔وہ خود کو عقلِ کل کاما لک اور پارلیمنٹ کو کرپٹ ، جاہل اور بد دیانت تصور کرتے ہیں لہذا پارلیمنٹ پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے جبکہ یورپی اقوام باہمی مشاورت اور مکالمہ سے قومی بیانیہ تشکیل دیتی ہیں۔
سچ تو یہ ہے حکمرانی کا نشہ مسلم حکمرانوں کو اپنے اختیارات پارلیمنٹ کے حوالے کرنے میں نہ صرف مانع رہتا ہے بلکہ وہ اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو قانون کا درجہ دینے کے خبط میں بھی مبتلا رہتے ہیں اور اگر کوئی ان کی رائے اور فیصلہ سے اختلاف کی جرات کرے تو اس کامقام وہ عقوبت خانے ہوتے ہیں جن کے تصور سے انسان کا دل دہل جائے۔پاکستان میں پی پی پی کا نام و نشان مٹانے کیلئے جنرل ضیا الحق کے عقوبت خانے آج بھی دھشت و بربریت کی علامت سمجھے جاتے ہیں لیکن اسلام کے نام پر اس نے سب کچھ روا رکھا اور پاکستان کے جید علماء نے دل کھول کر اس ساتھ دیا ۔انھیں بھی علم تھا کہ وہ ظلم کا دست و بازو بن رہے ہیں لیکن مالی منعفت اور ذاتی مفادات کی خاطر انھوں ے سب کچھ روا رکھا۔انھیں ایسا کرتے وقت نہ تو اسلام کے سنہری اصولوں کا پاس رہا اور نہ ہی قانون و انصاف اور تکریمِ انسانیت کی عظمت آڑے آئی ۔ اسلام کو عفو و درگزر کا دین ثابت کرنے والوں کیلئے مخالفین کو نیست و نابود کرنے کیلئے اسلام کا یہ سنہری پہلو بالکل نگاہوں سے اوجھل رہا کیونکہ مقصد ذاتی مفادات کا حصول اور سیاسی مخالفین کو ملیا میٹ کرنا تھا۔انسان بھی عجیب و غریب مخلوق ہے جو اپنے ہر عمل کو جائز قرار دینے کیلئے اپنی پٹاری سے دلائل و براہین کے متنوع نسخے نکال لیتا ہے۔
وہ جبر کو جائز قرار دینے میں دیر نہیں لگاتا اور مظلومین کو دھشت گرد ثابت کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا۔یہی ہے وہ مائنڈ سیٹ جو تمام اسلامی ممالک میں رائج ہے اور جس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ایک آمر جاتا ہے تو دوسر آمرا اس کی جگہ لے لیتا ہے اور وقفوں وقفوں سے یہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔جمہوریت کے علمبرداروں کے حصہ میں جیلیں کوڑے اور پھانسی گھاٹ آتے ہیں جبکہ آمروں کو کوئی عدالت جوابدہ نہیں بناتی۔وہ آزادانہ دندناتے پھرتے ہیں اور قانون و انصاف کا منہ چڑاتے ہیں۔ آمروں کے خوشہ چین بھی جوابدہی سے ماورا تصور ہوتے ہیں جبکہ جمہوری راگ الاپنے والے ملعون تصور ہوتے ہیں اور انھں اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کیلئے زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے ۔مقصد انھیں جیلوں میں ٹھونسنا یا خاموش کروانا ہو تا ہے لہذا احتسابی راگ کو اونچی سروں میں گایا جاتا ہے تا کہ عوام میں جمہوریت پسندوں کی ساکھ ختم ہو جائے۔منصفین بھی بڑے بلند و بانگ دعووں اور شور شرابہ کے ساتھ سیاسی مخالفین کے خلاف فیصلے صادر کرتے ہیں لیکن جب کسی آمر کو قانون کے سامنے سرنگوں کرنے کی باری آتی ہے تو ہر طرف سناٹا چھا جاتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ جمہور بے گناہ اور بے قصور ہوتے ہیں لیکن ان کی کون سنتا ہے ۔بقولِ شاعر ۔
( تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو ۔،۔ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں )
اگر ہم اس کرہِ ارض پر مسلم ممالک کے طرزِ حکمرانی کا طائرانہ جائزہ لیں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرانگی ہو تی ہے کہ پوری مسلم امہ میں حقیقی جمہوریت کا کہیں نام ونشان نہیں ہے بلکہ ہر جگہ بادشاہی نظام قائم ہے یا پھر فوج کی عملداری سے ایک ڈھیلا ڈھا لا جمہوری ڈھانچہ قائم کیا گیا ہے جو ملکی سپہ سالار کی ایک ہی للکار،بھڑک اور وارننگ سے تار تار ہو جاتا ہے ۔سپہ سالار جب چاہتا ہے جمہوری نظام لپیٹ دیا جاتا ہے اور جب چاہتا ہے جمہوریت کا غلغلہ بلند ہو جاتا ہے۔سیستدان اسے ان داتا سمجھ کر اس کی کاسہ لیسی کرتے ہیں کیونکہ حکمران کا چنائو اس کی مرضی کا مرہونِ منت ہو تا ہے ۔مشرقِ وسطی ،خلیجی ممالک اورعرب دنیا میں بالخصوص جمہوریت کا کوئی نام لیوا نہیں ہے لہذا وہاں پر عوام نے کبھی حقیقی جمہوریت کا مطالبہ بھی نہیں کیاکیونکہ وہ فرمانِ شاہی کو فرمانِ خدا کا درجہ دیتے ہیں۔ مجھے سالہا سال عرب دوستو ں سے واسطہ رہا ہے لیکن میں نے ان کے منہ سے کبھی جمہوریت اور اس کی اہمیت کا ذکر نہیں سنا بلکہ وہ اکثر وبیشتر جمہوریت کو کوستے دیکھے گئے ہیں۔
مجھ جیسا جمہوریت پسند شخص جب ان سے جمہوریت کے فوائد،شخصی آزادیوں اور اس کے ثمرات کے بارے میں ذاتی خیالات کا اظہار کرتا ہے تو انھیں ناگوار گزرتا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ وہ نظامِ تعلیم ہے جس میں بادشاہ کو ظلِ الہی کہہ کر اس کی عظمت کو اذہان میں پیوست کیا جا تا ہے اور اس کی ذات کے حوالے سے تقدیس کا جامہ پہنایا جاتا ہے۔میرے عرب دوست اپنے حکمرانوں کی بڑائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں جبکہ جمہوریت انھیں بیکار شہ نظر آتی ہے۔وہ جمہوریت کو انتشار سے منسوب کرتے ہیں اور اسے قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔وہ جمہوریت کو مذہب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے معاملات اور بھی الجھ جاتے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پوری دنیا نے جمہوری روح سے ہی ترقی کی منازل طے کی ہیں جس میں امریکہ ،برطانیہ،فرانس جرمنی، جاپان ،سویڈن اور ناروے شامل ہیں ۔ یورپی اقوام میں جماعت کی اہمیت دوچند ہے جس میں کسی مخصوص خاندان سے نہیں بلکہ جماعتی نظم و نسق سے انتہائی اہل شخص کو اقتدار کا حقدار گردان کر اقتدار اس کے حوالے کیا جاتا ہے ۔
آئرن لیڈی مارگریٹ تھچر کو بھی جب ریا ست کو چلانے میں ناکام ہو گئی تھیں تو انھیں بھی اقتدار کو خدا خافظ کہنا پڑا تھا۔یورپ کی ترقی کا راز اس کے جماعتی ڈسپلن اور جمہوریت میں مضمر ہے جس میں کسی جانبداری یا گروہ بندی کا کہیں شائبہ نہیں ہوتااور نہ ہی کسی ایک خاندن کے اقتدار پر فائز رہنے یا اسے طوالت دینے کا کہیں گزرہوتا ہے بلکہ قائد کا انتخاب میرٹ پر کیا جاتا ہے اور دنیا اس انتخاب پر سردھنتی ہے کیونکہ وہ اپنی پرفارمنس سے سب کونہ صرف حیران کر دیتا ہے بلکہ اپنا ہمنوا بھی بنا لیتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ منتخب ہونے والے قائد کا تعلق کسی مخصوص خاندان سے نہیں ہوتا بلکہ اسے یہ منصب اس کی صلاحیتوں کی وجہ سے عطا ہو تا ہے ۔بارک حسین اوبامہ کو کسی مخصوص خاندان سے تعلق کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے اوصاف کی وجہ سے ریاستی عہدہ عطا ہوا تھا اور یہی ان ممالک کی ترقی کی بنیاد ہے۔
در اصل جمہوریت اعلی ترین افراد کے چنائو کا نام ہے لیکن پاکستان میں اسے گڈھ مڈھ کر دیا گیا ہے اور مخصوص خاندانوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے فیوڈل دیماکریسی کی راہ ا پنا لی ہے جس سے ریاستی نظام کمزور ہوا ہے ۔ایک ہی خاندان کے افراد چہرے بدل کر اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں اور یوں ملک تنزلی کی جانب گامنزن ہو جاتا ہے۔ایک خاندان کے اقتدار سے چمٹے رہنے سے احتساب کا نظام کمزور ہوا ہے ۔ اس کا حل آمروں کے شب خون یا فوجی مداخلت میں نہیں بلکہ انتخابی قوانین کو سہل اور آسان بنانے میں ہے تا کہ مڈل کلاس سے اہل الرائے اور صاحب ِ بصیرت لوگ کوچہِ سیاست میں داخل ہو کر قوم کی قیادت کا فریضہ سر انجام دے سکیں اور اس خواب کو حقیقت کا جامہ پہنا سکیں جس کا تصور علامہ اقبال نے دیا تھا اور جس کے لئے قائدِ اععظم محمد علی جناح نے فقیدالمثال جدو جہد کی تھی۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال