تحریر : اسلم انجم قریشی یہ بے قراری اور انکاری کی ڈرامہ بازی ماضی کا حصہ بن چکی ہے اسے دوبارہ دہرانا منہ کے بل یعنی زمین کے نیچے گرنے کے مترادف ہے کیا قوم کو اسی طرح انکی زند گیوں میں زہر گھولنے کی گولیاں دیتے رہو گے نہ تمہیں مرنے کاخوف ہے نہ کسی عذاب کا ڈر تب ہی تو یہ ڈرامے بازیاں تمہارا مشغلہ ہے دراصل احساس و ہمدردیاں نام کی چیز تمہارے پاس سے گزرتی ہی نہیں جس کا ثبوت تم کھبی کس بہانے کھبی میشاق جمہوریت کھبی کون سا اتحاد کھبی کون سی باتیں خدارا بہت تکلیف پہنچتی ہے بس کردو یہ ڈرامے بازیاں اب ہم تمہارے کسی بھی گھٹیاعمل کو نہیں مانتے تمہاری بے قراری اور انکی انکاری قوم کے ساتھ کھلا مذاق پن جس میں مکاری اور فریبی کے سوا کچھ نہیں تم چاہو ایک طرف بے قراری رکھو چاہیے دوسری طرف انکاری کرو اب مزید قوم تمہاری ظلم و ستم جبر و زیادتیاںبرداشت نہیں کرسکتی اور نہ ہی آئندہ کرے گی قوم نے تمہارے ہتھکنڈے دیکھ لئے تم نے قو م کو ذلت و رسوائی کے سوا کیا دیا پھر بھی تم ڈرامہ رچانے کی کوشش کر رہے ہو۔
اب تمہارا ڈرامہ مکار، فریبی ،دھوکہ دہی ،اور چالا کیوں پر مبنی ناکام ڈرامہ (نہیںچلے گا نہیں چلے گا) یقینا عوام ڈرامہ اسٹیج تھیڑ و ٹی وی پر دیکھتی ہے یہ ڈرامے تفریحی طبع کا سا مان مہیا کرتے ہیں اور لوگ اپنا جی بہلاتے ہیں اچھے ڈرامے انسان کے جذبات و احساسات کا بہترین ترجمان ثابت ہوتے ہیں اور جیتی جاگتی زندگی کے رنگا رنگ دلچپ اور سبق آموز مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے پیش آتے ہیں ڈراموں سے سیکھا ہوا سبق ہمیں عمر بھر یاد رہتا ہے اور ہمیشہ کے لیے ہمارے دل پر نقش ہوجاتا ہے اصلاحی ڈرامے ہماری معاشر تی زندگی کے تاریک گوشوں اور قابل اصلاح پہلو ئوں کی نشان دہی کرتے ہیں اور اس طرح معاشرے کی اصلا ح و تعمیر کا کام سر انجام دیتے ہیں ان ڈراموں میں جب ہم بہادر لوگوں کے کارناموں کو دیکھتے ہیں ہمارے دل میں بھی قوم وطن اور انسانیت کی بے لوث خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن نام نہاد سیاست دانوں کے اوچھے ہتھکنڈے ان ڈرا مے بازوں سے عوام اصل میں بیزارآچکی ہے ان کے ڈراموں میں بلاوجہ کی فضول گفتگو نے قوم کابہت وقت ضائع کردیا قوم نہ جانے آج کہاں ہوتی۔
دراصل انہوں نے تو یہ سوچ لیا کہ قوم کل کی بات یاد نہیں رکھتی چلو مان لیتے ہیں تمہاری گھٹیاں پن سوچ کو۔لیکن یہ بات بھی ذہین نشین کرلو یہ سوچ وہی رکھتا ہے جس کا ضمیر مر جاتا ہے اگر تمہارا ضمیر زندہ ہوتا تو قوم کو یوں ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ کچھ ماہ ہوئے ایک موصوف جو اُس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے صادق و امین نہ ہو نے کے باعث نااہل قراردیا تھا وہ ہیں سابق وزیر اعظم پاکستان مسلم لیگ (ن)میاں نواز شریف جنہوں نے بڑی بے چینی تو درکنار انتہائی بے قراری کے ساتھ وہ میشاق جمہوریت کی یاد تازہ کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کو دوبارہ سے ایک مفاہمتی پیغام پہنچایا تھا۔
عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ یہ وہ میشاق جمہوریت تھی جب یہ دونوں نااہل و برطرف کئے جانے والے سابق اور سابقہ وزیر اعظم جن میں ایک محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ دوسرے یہ میاں نواز شریف جنہوں نے لندن میں بیٹھ کر میشاق جمہوریت کے حوالے سے یہ عہد کیا تھا کہ جمہوریت کی بحالی کے سلسلے میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیں گے لیکن ہوتا یہ ہے کہ دونوں کے راستے پھر سے جُدا ہوجاتے ہیں ۔یہ بات یہاں سمجھنے کی ہے کہ اس قسم کے یہ سلسلے ایک صدی قریب ہونے کو ہے جس میں عوام ان کے چکر میںگرِے اور گھرِے رہتے ہیں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں اوپر میں ذکر کررہا تھا اُس بے چینی کا یعنی ایک طرف بے قراری کے پیغام کو دوسری طرف انکاری کی صورت میں ایسے طوطا چشم الفاظ سامنے آئے ہیں کہ جس سے اس قسم کے کرداروں کو سمجھنے کے لئے عوام کے پاس ایک ایسی آزمائشی گھڑی ہے۔
اس آزمائش کے لمحے میں پورا اُترنے کے لئے عوام کو سوچ بچار کرنی ہے اور اس میں وہ ہی کامیاب ہو ں گے جنہوں نے ان کرداروں کو پہچان کر ان سے ترک تعلق کرلیا اورعوام نے اپنے اندرمسلمہ حقیقت پر مبنی کار فرما ںزریں اصولوں کو اپنالیا تو عوام میں ایک ایسی جرات پیدا ہوجائے گی کہ یہ صدیوں تک عوام کے ساتھ ڈرامے بازی کرنے کا تصور بھی نہیں کریں گے ازراہ کرم عوام اس سلسلے میںپہل کریں اور یہ ثابت کرکے دکھا دیں کہ ان کے اپنے آئینے میں ا نہیں اپنی اصل شکل نظر آئے۔
شاعر جون ایلیا کہتے ہیں
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا ایک شخص تھا جہان میں کیا