سعودی مملکت میں شاہ عبداللہ کی کابینہ حلف اٹھا رہی تھی چالیس اراکین جن میں پچیس اراکین تو ڈاکٹر ہی تھے ہم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لائیو کاروائی دیکھ رہے تھے جب انکے نام پکارے جانے لگے دکتور فلاں دکتور فلاں ہم نے اپنے سعودی ساتھی سے سوال کیا یہ سارے دکتور یعنی ڈاکٹر ز حکومت میں آکر کریں گے کیا تو اس نے جواب دیا یا آخی یہ کوئی ڈنگر ڈاکٹرز نہیں یہ تو مختلف شعبہ جات میں پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ہیں ہم حیران بھی ہوئے اور پشیمان بھی پھر انہیں وزارتیں تقسیم کی جانے لگیں۔ ماہر تعلیم کو وزارت تعلیم ماہر تعمیرات کو محکمہ تعمیرات اور اس طرح تمام شعبہ جات تقسیم کئے گئے جو آگے چل کر انکی زبر دست کارکردگی کا باعث بنے میں اور میرے پاکستانی ساتھی کف افسوس ملتے رہ گئے کہ ہمارے ہاں تو ایسا نہیں ہوتا ۔ میٹرک پاس جیالوں ہم نوالوں لنگوٹیے یاروں کو وزیر صنعت ریڑی تانگہ بانوں کو وزیر تعمیر ات عامہ اور جعلی ڈگری یافتہ بے اے پاس کو وزارت تعلیم اور ڈنگر ڈاکٹر کو وزارت صحت وزیر و مشیر لگا کر ملکی معیشت کا چلتا پہیہ بھی جام کر دیا جاتا ہے۔ جیسے کہ سٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر صنعتوںکو حشر نشر کیا گیا۔ ان نان کوالیفائیڈ لوگوں کو میٹر ریڈروں گلو بٹوں کو ملکی بھاگ دوڑ تھما دی جاتی ہے۔ پھر کمیشن خوروں کی چاند ی ہی چاندی مگر ملک کا حشر ہمارے پاکستان ہی کی طرح ہو جاتا ہے۔ اور قارئین یہ سارے کا سارا وبال ہماری اس جمہوریت کا ہی ہے ورنہ ایوب و ضیا حکومت کے ادوار میں یہ سفارشی کلچر جیالوں لنگوٹیے یاروں کا نہیں تھا۔ انہوں نے ملک بھر سے بڑے بڑے قابل دماغوں کو اپنی کابینہ میں شامل کیا اور دس دس سال ملک بنایا بھی اور چلایا بھی اس جمہوریت جس کی خباثتوں کا ذکر ایک صدی قبل اقبال نے ان الفاظ میں کیا تھا۔
مغربی جمہوریت کے یہ سارے انڈے ہیں گندے انہیں گنا تو جاتا ہے تولا نہیں جاتا ہمارے ہاں بھی یہ نیم انپڑے چہرے گنے جانے اور ہمارے سروں پر تھوپے جانے لگے اور بدقسمتی سے اعلی تعلیم یافتہ لوہر طبقوں سے قابل دماغ نظر انداز کئے جانے لگے۔ یہاں جمشید دستیوں دشیعہ فقیوں اور میٹرک پاس گلو بٹوں کی واہ واہ ہا ہا ہا مگر ڈاکٹر قدیر وں سلامیوں منیروں کو استعمال کر کے آم کے چھلکوں کی طرح پھینک دیا نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس جمہوریت نے ہمیں ایسے ایسے نالائق تحفے دیئے کہ ہم جھتے دی کھوتی اتھے ہی کھلوتی ۔ ملک گیا بھاڑ میں اور یہ سڑکوں چوراہوں پر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے ہیں۔ اور ایوانوں میں قانون سازی کے بجائے جوتا ماری کرتے ہیں۔ اس بدبخت جمہوریت نے ایک ہمارا اور ہمارے پاکستان کا ہی کباڑا نہیں کیا بلکہ اسلامی ریاستوں میں جہاں جہاں یہ پہنچی ان کا بھی حشر نشر کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چھوڑے ورنہ ہماری عرب اسلامی ریاستوں میں چالیس چالیس سال تک جہاں بادشاہ رہے خلیفے رہے صدر رہے یا صدام قذافی حسنی مبارک اور شاہ حسین اور حافظ الا سد اپنی کارکردگی کی بنیاد پر گدیوں پر براجمان رہے ۔ تو انہوں نے اپنے اپنے ملکوں کی تعمیر و ترقی کو چار چاند لگائے مقابلے میں آج کا جمہوری عراق مصر اور شام لیبیاء کی حالت زار دیکھ لیں۔
وہ سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ریزہ ریزہ نظر آتے ہیں قارئین ہم نے گھوڑا گدھا برابر گنتی کی بنیاد پر تین عشروں سے جو دسویں پاس پی ایچ ڈی رہنما ء اسمبلیوں میں پہنچائے جنہوں نے ملک کو کیا بنانا تھا ہاں خووکو خوب بنایا اٹھایا اور ریڑھی بان نعرے مارنے والے آج کے جاگیر دار صنعت کار ہیں۔ جو عوام سے توا یک آٹے کے تھیلے اور پائپ کے بنڈل ایک کلرک کی نوکری پر ووٹ تو لیتے رہے اور پھر آگے جا کر ایوانوں میںکروڑوں کا ووٹ خریدتے بیچتے ہیں۔ انہوں نے عوام کے لئے کیا قانون سازی کرنی ہے ملک کے لئے کیا پالیسی بنانی ہے۔ صدارتی یا شورائی نظام کیا لانا ہے۔ زمین مکان بیچ کر پی ایچ ڈی کرنے والے غریب جوان کہاں اپنی کابینہ میں شامل کرنے ہیں۔ ملک کیا بنانا چلانا ہے۔یہ جمہوریت اوراس کی پیداوار ہمارے پاکستان کیلئے زہر قاتل ہیں اور رہیں گے بدقسمتی سے ہماری بڑی عدالتیں اور احتسابی ادارے بھی ان نا اہلوں کو نہ نا اہل کرتے ہیں وہ بھی اقامے والوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان قوم وملک کی خرید وفروخت کرنے والوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا ۔اس دقیا نوسی نظام سے جان نہیں چھڑاتا۔ جہاں ہمارا سکول ٹیچر ، پٹواری ، تحصیلدار ، ڈی سی تو پی ایچ ڈی ہونا لازمی ہے۔
طبعی لحاظ سے سو فیصد فٹ ہونا ضروری ہے۔ مگر ہماری اس جمہوریت کی پیداوار یہ وزیر و مشیر ،یہ گلو بٹ یہ روحانی و جسمانی مریض جعلی ڈگریوں کے حامل بد اخلاق بد زبان گالیاں ایجاد کرنے والے جمہوریت کے ان جمہوروں سے ہماری جان کوئی نہیں چھڑاتا۔ انہیں نا ہلی کا پروانہ ہاتھ میں نہیں تھماتا پھر یہ ملک ترقی کیسے کرے۔ قوم خوشحال کیسے ہو۔ پانچ پانچ سو کی دیہاڑی پر نوجوان ان کے جلسے جلوس ریلیاں کیسے نہ کامیاب کریں ۔ یہ نظام ہی ہماری سب محرومیوں کا ذمہ دار ہے۔ اور ہمارے یہ بڑے قومی ادارے بھی ہیں۔ کوئی انقلاب یا انقلابی ہی ۔ کوئی بڑا حادثہ ہی ہمیں اس فرنگی نظام جمہوریت اور اس کے بد اثرات سے جان چھڑا سکتا ہے۔ اور امت کا بہترین شورائی نظام یا کم از کم صدارتی نظام ہی رائج کر سکتا ہے ۔ جس میں کم از کم صدر اور اس کی کابینہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اپنے اپنے شعبوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر آگے آئیں یا لائیں۔ ورنہ ہمارے یہ حکمران نیم خواندہ لیڈر زرداری ، کھلاڑی اور پٹواری اور انکے ایک جماعت سے دوسری جماعت میں سفر جاری رکھنے والے ایوانوں میں کروڑوں میں خرید و فروخت ہونے والے گلو بٹ ، جیالے میٹر ک پاس لنگوٹی یار ہمارے سروں پر مسلط کبھی بھی ہماری ، ہمارے ملک کی جان نہیں چھوڑنے والے۔ اللہ کرے کبھی یہ بھی صدارتی نظام کے شکنجے میں آئیں۔ جماعتی بنیادوں پر نہیں علمی اخلاقی قابلیت کی بنیاد پر رائے عامہ کی بنیا د پر مقابلے پر آئیں۔ انتخاب جیتیں اور اپنے اپنے جیالوں پٹواریوں اور کھلاڑیوں کو پس پشت ڈال کر ملک بھر سے اعلیٰ ترین دماغ اگھٹے کرکے پانچ پانچ سال اپنا ملک بنائیں اور چلائیں کارکردگی دیکھائیں ۔ ہمارے پاکستان کے سمندر میں رنگ برنگی چلنے والی کشتیاں اور انکے یہ ڈرائیور ملاح ، اللہ کی پناہ ان سے جن کے لیے میاں محمد بخش نے فرمایا تھا نیچاں دی آشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا ککر اتے انگور چڑھایا ہر گچھہ زخمایا
Haji Zahid Hussain Khan
تحریر : حاجی زاہد حسین خان ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان hajizahid.palandri@gmail.com