تجدید میثاق جمہوریت ! غلطی کی کوئی گنجائش نہیں

Democracy

Democracy

تحریر : رائو عمران سلیمان

آٹھ صفحات پر مشتعمل چارٹرآف ڈیموکریسی یعنی میثاق جمہوریت اس ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان ہونے والا ایک ایسا معاہدہ ہے جس کی پاسداری مکمل طورپر نہ تو مسلم لیگ ن کی جانب سے کی گئی اور نہ ہی کبھی پاکستان پیپلزپارٹی کے لوگوں نے مشرف کو حکومت سے ہٹانے کے بعد اسے اپنے لیے ضروری سمجھا مگر اس چارٹر آف ڈیموکریسی کی اصل طاقت سے وہ لوگ ضرور واقف ہیں جو جمہوریت کو قوم کے لیے ہی ضروری نہیں سمجھتے بلکہ ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے بھی اسے لازم وملزوم سمجھتے ہیں۔

، 14مئی 2006 اسی میثاق جمہوریت کی پیدائش کا دن ہے یہ وہ وقت تھا جب اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے متعارف کروائی گئی ترمیموں کا طوطی ہر طرف بول رہاتھا اس روز پیپلزپارٹی کی جانب سے مخدوم امین فہیم ، اعتزازحسن ،رضاربانی ،خورشید شاہ اور راجہ پرویزاشرف شامل تھے جبکہ مسلم لیگ ن میں میاں نوازشریف ،ان کے بھائی میاں شہباز شریف ،چودھری نثارعلی خان ،اقبال ظفر جھگڑا،،احسن اقبال اور غوث علی شاہ موجود تھے ،پہلے پہل تو یہ سمجھا گیا تھا کہ میثاق جمہوریت کی ضرورت جمہوریت کو آمریت کے وار سے بچانے کے لیے ایک اتحاد کا نام ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں جماعتوں کی بے رخی نے یہ ثابت کیاکہ یہ اتحاد صرف مشرف کو گھر بھیجنے تک ہی محدود تھا،اب ہم تھوڑآگے چلتے ہیں اس معاہدے کے نتیجے میں پرویز مشرف کی حکومت کے مقابل میں پاکستان پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن اور جمیعت علماء اسلام نے ملکر ایک مشترکہ حکومت کی بنیاد ڈالی جس کی رو سے مرکز میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن نے حکومت بنائی جبکہ مرکز میں چار وفاقی وزارتیں بھی مسلم لیگ ن کو دی گئی جن کی کمان اسحاق ڈار،چودھری نثار علی خان،خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کے پاس تھی۔

تاہم مسلم لیگ کی جانب سے چند ماہ بعد ہی اس بات کو محسوس کرلیا گیا تھاکہ پرویز مشرف کی باقیات کا سایہ بھی اب آہستہ آہستہ مانند پڑنے لگا ہے اس لیے مسلم لیگ ن کی جانب سے پرانی روایتی سیاست کا آغاز شروع کردیا گیااور انہوں نے حکومت کے چند ماہ بعد ہی اپنے چاروں وفاقی وزیر واپس بلالیے یعنی جو مخلوط حکومت پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن اور جمیعت علماء اسلام نے ملکر بنائی تھی اس سے مسلم لیگ ن الگ ہوگئی ،اس کے بعد مسلم لیگ نے خود کو اس ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت قائم رکھنے کے لیے حکومت پر کھلے عام تنقید کرنا شروع کردی جس سے آہستہ آہستہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ہی جماعتوں کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ میثاق جموریت کے ان آٹھ صفحات میں کیا قول وقرارہوئے تھے۔

یعنی ابتدا مسلم لیگ ن کی جانب سے ہوئی جس نے پیپلزپارٹی کے بعد اپنی الگ حکومت بنانے کاخواب دیکھتے ہوئے میثاق جمہوریت کو زمین پر ہی دے مارا تھااور ایک دن 2013کے انتخابات آنے تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی راہیں مکمل طور پر ہی جدا ہوچکی تھی ،2013کی حکومت مسلم لیگ ن نے بنائی جسے ابتدا میں ہی سخت مشکلات نے آگھیرا تھا جسے تحریک انصاف کے دھرنوں کی وجہ سے حکومت کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا رہامگر پیپلزپارٹی جسے بھرپور اپوزیشن کا کرداراداکرناتھا وہ یہ جان چکی تھی کہ معاملہ اب اس ملک میں دوبڑی سیاسی جماعتوں کا نہیں رہابلکہ ایک تیسری قوت بھی عوام کے دلوں میں تیزی سے پنپ رہی ہے جس کے ہوتے ہوئے ان کو مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف بھرپور اپوزیشن کرنے کا موقع نہیں مل سکتا ،دھرنوں سے قبل عمران خان کے بھرے پنڈالوں کے جلسوں نے دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ اب ملکی سیاست میں مشرف کی آمرانہ حکومت کے بعد ایک بار پھر سے کسی تیسری سیاست قوت کا ہونا ان کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا پیپلزپارٹی بھی وہی کرتی جو مسلم لیگ ن نے ان کی حکومت میں کیا تھا مگر یہ سیاسی بدلہ لینے کا مناسب وقت نہیں تھا لہذا دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر سے میثاق جمہوریت کے ان آٹھ صفحات کی بھرپور یاد ستانے لگی تھی اس لیے پیپلزپارٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اسمبلی میں رہتے ہوئے مسلم لیگ ن کا ہی ساتھ دیگی۔

لہذا پیپلزپارٹی کے بھرپور تعاون کے بعد ہی مسلم لیگ ن تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے پانچ سال مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی، وگرنہ یہ طے تھا کہ جس روز طاہر القادری اورتحریک انصاف کی جانب سے ریڈ زون کو کراس کیا گیا اور پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا تھا اس رات ہی جمہوریت کی بساط لپیٹ لی گئی تھی مگر پیپلزپارٹی کی جانب سے وفاقی حکومت یعنی مسلم لیگ ن کے ساتھ ثابت قدمی نے اس انہونی کو ٹال دیا تھا ،اس عمل سے یہ بات بھی سبق آموز رہی کہ ان دونوں ہی جماعتوں کی سیاسی بقاء کے لیے میثاق جمہوریت کی پاسداری کرنا کتنا اہم ہوچکاہے اور اس معاہدے کی رو سے دونوں جماعتوں کے باہمی اتحاد کے ہوتے ہوئے کسی بھی قوت کو ان کی حکومتوں کے دوران مداخلت کا موقع نہیں مل سکتا ہے ،مگر یہ معاملہ جمہوریت کو بچانے کا نہیں بلکہ سولو فلائٹ کا تھا اور ہر ایک جماعت کی یہ خواہش تھی کہ ان کی ہی حکومت پورے پاکستان میں قائم ہو، لہذا کرسی کی لالچ نے ان جماعتوں کے رہنمائوں کے رویوں میں خرابی پیدا کی اور وقت کے ساتھ ساتھ میثاق جمہوریت کا مذاق بنتا رہا۔

اس تاثر کے ساتھ کے شاید اب مشرف کی آمریت کا سایہ ٹل چکاہے لہذا اسی وجہ سے ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اس معاہدے کو نظر انداز کیا ،مقدر کی بات یہ ہے کہ اب تاریخ ایک بارپھر سے اسی موڑ پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو اٹھاکر لے آئی ہے ،آج جہاں میاں نوازشریف اور ان کے بھائی جیلوں میں آجارہے ہیں وہاں یہ صورتحال پیپلزپارٹی کو بھی درپیش ہے ان کے ارد گرد بھی ایسے بھیانک کیسوں کی بھرمارہے اور احتساب کی تلورار کبھی پنجاب کی جانب گھوم جاتی ہے تو کبھی سندھ میں آکر لٹک جاتی ہے اور اس تیز دھاری تلوار سے اپنے سروں کو بچانے کے لیے دونوں ہی جماعتوں کو آج اسی میثاق جمہوریت پر ٹوٹ کر پیار آرہاہے یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے نوجوان رہنما بلاول بھٹو نے گزشتہ دنوں جیل میں جاکر میاں نواز شریف سے ایک گھنٹے کی طویل ملاقات کی ہے ،فی الحال اس میں جس انداز میں نیوز چینلو ں نے جو اس ملاقات کو اندر کی بات کہہ کہہ کر قوم کو گھما رکھاہے اس میں یہ ہی کہا جاسکتاہے کہ کوئی اندر کی بات نہیں ہے معاملہ صرف یہ ہے کہ” ہم دونوں ہی مشکل میں ہیں تو پھر کیوں نہ اس مشکل کا حل ملکر ہی نکالیں” اب اس بات کو ایک بار پھر سے میثاق جمہوریت کا نام دیدیں یاپھر تجدید میثاق جمہوریت کا نام دے دیا جائے ۔نام کوئی بھی رکھیں مگر اس سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے ۔اب کی فیڈ بیک کا انتظار ہے گا۔

Rao Imran Suleman

Rao Imran Suleman

تحریر : رائو عمران سلیمان