پاکستان میں موجودہ حکومت مسلم لیگ نواز گروپ منتخب کردہ ہے، آج دس اگست کو ملک بھر میںکہیں آزادی جمہوریت کی ریلیاں نکالی جارہی ہیں تو کہیں آزادی ریاست کی۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک حکومت کے مد مقابل آکھڑی ہے جبکہ اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے اس سیاسی چپکلش کو سیاسی انداز میں ختم کرنے کے مشورے بھی دیئے لیکن لگتا ہے حکومت وقت کو اپنی طاقت اور غرور پر بڑا ناز ہے۔
وہ اپنے سامنے پیدا ہونے والے اختلافات کو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر ختم کرنے کا ارداہ رکھتے ہیں ، عوامی مسلم لیگ، آل پاکستان عوامی لیگ، پاکستان مسلم لیگ قاف یکجا ہوکر نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون جیتا کون ہارا۔۔۔معزیز قارئین !! سب سے بڑحکر اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں جب بھی انتخاب کے ذریعے منتخب سیاسی جماعتوں نے اقتدار سنبھالا ہے وہ سراسر بے ایمانی، دھوکا اور جعل سازی کا نتیجہ رہی ہیں ، اس کی سب سے بڑی وجہ الیکشن کمیشن کا نظام ہے جس میں ووٹنگ کا طریقہ کار میں با سانی دھاندلی کا عمل کیا جاسکتا ہے۔
اگر الیکشن کمیشن کے نظام کوحقیقت میں صحیح اوردرست طریقہ کار پر مزین کردیا جائے تو یقینا تمام سیاسی جماعتوں کی شکایات اور عوامی انتخاب کا عمل بہتر انداز میں نکلے گا۔حکومت کسی کی بھی ہو اگر نظام درست ہوگا تو ریاست بہتر انداز میں چلی گی یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی ٹرین کا ٹریک ٹیڑھا ہو تر ٹرین کبھی بھی اپنی منزل کی طرف سفر نہیں کرسکے گی اور اگر ٹرین کا ٹریک مضبوط اور درست ہو تو ٹرین کی رفتار کو نہ صرف بڑھایا جاسکتا ہے۔
بلکہ سفر کو آرائش و آلائش سے بھی مزین کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جمہوری حکومتوں کی کامیابی اسی میں ہے کہ اس کے طریقہ انتخابات کے نظام کو مکمل جدید انداز میں پنہا کیا جائے اور جدید کمپیوٹرائز سافٹ ویئر کے ذریعے ووٹر کی ووٹنگ کی جائے تاکہ کسی ایک ووٹ کی بھی غلطی، جعلی یا بوگس کا عمل پیدا نہ ہوسکے چاہے اس کیلئے کچھ سال کام کیوں نہ کرنے پڑیں۔دوسرا یہ کہ سیاست اور سیاستدانوں کو ملکی اہم اداروں جن میں انظامیہ، پولیس، محکمہ تعلیم، صحت، کمیشن ادارے، تقرری و تبدیلی جسے عوامل سے مکمل آزاد کردیا جائے تاکہ بہتر نظام دیکھنے میں آسکے اور قانون کی بالادستی ہر شہری وزرا سے لیکر مزدور تلک پر عمل ہوتی ہوئی نظر آئے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے۔
ہمارے ملک میں سیاستدان کھربون نہیں نربوں سے بھی زیادہ دولت کے مالک ہیں اور عوام کا ھال یہ ہے کہ غربت سے خود کشی کررہا ہے ، زندگی کی ضروریات آٹا، چاول، چینی، دالیں خردینا محال بن گیا ہے جبکہ دوسری جانب یوٹیلیٹی بلوں کی بہتات اور اس میں ٹیکسوں کا انبار نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ محکمہ جاتی سہولت کی بات کی جائے تو نہ پانی ہے نہ بجلی۔ سال بہ سال پیٹرول اور گیس کی مد میں اضافہ کرکے سوائے عوام پر بوجھ ڈالا جاتا رہا ہے لیکن اس کے بدل سہولتیں ناپید۔ یقینا ریاست پاکستان کی اس حالت کا اصل ذمہ دار جمہوری حکومتیں ہیں ۔۔ جمہوریت میں ریاست پنپتی ہیں لیکن پاکستان کی وہ واحد ریاست ہے جس میں جمہوری حکومتوں مین ریاست پست سے پست ہوتی چلی جاتی ہیں اس کی قصال وجہ سیاسی جماعتوں، لیڈروں کی قومی خذانے سے لوٹ گھسوٹ ہے۔
Democracy
جعلی دستاویزات کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ بنادیا جاتا ہے اور ہمارعی عدالتیں بیکار و بے سود ہیں جن کے پاس ناپنے کا طریقہ کار انتہائی بے سود اور ناکارہ ہے گویا عدالتیں بیکار و بے سود عمل کررہی ہیں۔اسی طرح پولیس کا محکمہ کبھی بھی تفتیش کے عمل کو صحیح خطوط پر استوار نہیں کرتا کیونکہ اسے دولت سمیٹھنے ہوتی ہے۔ کہاں ہے ریاست پاکستان میں آزادی جمہوریت۔۔ منتخب جمہوری حکومتوں میں مظلوم اپنی آہ و بقا نہیں کرسکتا یہ جمہوری حکمران فوجی آمروں سے کہیں زیادہ ظالم و جابر ثابت ہوئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر میاں نوازشریف تک کی حکومت تک سوائے عوام پر ظلم و بربریت کا بازار گرم رہا کبھی بھی عوامی فلاحی امور کو پائے تکمیل تک نہیں پہچایا گیا۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مملکت پاکستان کو ہر نعمت و معدنیات کی دولت سے نواز لیکن اگر خراب ہے تو وہ ہمارے حکمران ہیں۔ جمہوری حکومتوں کے حکمرانوں میں نہ انصاف پایا گیا نہ عدل، نہ ملک و قوم سے ہمدردی و پیار اور نہ ہی ان کے حالات کو تبدیل کرنے کا عمل۔جان لیجئے کہ ریاست پاکستان کے سیاستدانوں کی دولت و املاک کا ھساب لگایا جائے تو وہ امریکہ و یورپ کے بادشاہوں سے بھی کہیں زیادہ رکھتے ہیں۔ ویسے ان کی تقاریر میں بہت خدمات کا جذبہ عیاں ہوتا ہے مگر اقتدار کے بعد اصل ان کی نیت کا پتا چلتا ہے انہیں معلوم ہے کہ ان کا اصل احتساب نہیں ہونا اور نہ ہی عوام کی جانب سے رد عمل سامنے آنا ہے۔
یہ آزاد ظالموں کی طرح معاشی و معاشرتی قتل کرتے پھرتے ہیں !! کیا یہی آزادیٔ جمہوریت ہے؟؟ ۔ دو دن بعد چودہ اگست سن انیس سو چوہ ہونے والی ہے کیا اس دن پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا احتساب کریں گی کہ انھوں نے پاکستانی عوام کو کیا دیا اور ان سے کیا کیا لیا!! آزادی ٔ جمہوریت میں ہر سیاسی جماعت اور ان کے لیڈران سے ایک عام شہری بھی احتساب کرسکتا ہے کہ اس نے ملک پاکستان اور ریاست کیلئے کیا عملی اقدامات کیئے ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں اگر کوئی اس قسم کی جرات کربھی لے تو اسے نا قابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ پاکستان کی ترقی اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب سیاست اور سیاستدانوں کی گرفت سخت کردی جائے اور قانون کو سب سے بالا تر رکھتے ہوئے اس پر عمل در آمد کرایا جائے، ہماری بقاء اور ترقی آئین کی پاسداری اور قانون پر عمل میں ہی ہے۔
آئین ان ہی منتخب نمائندوں نے بنایا ہے کسی ڈکٹیٹر یا آمر نے نہیں تو پھر سیاسی جماعتوں کے لیڈران، کارکنان آئین کی شق سے مبرا نہیں اور انہیں کسی بھی قانون آزاد نہیں ۔آئین کے تحت پاکستانی شہری کو جوحقوق حاصل ہیں وہی کسی بھی سیاسی جماعت کو بھی حاصل ہیں نہ کہ قانون ان کی لوڈی و غلام ہو۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر پاکستان میں قانون کی حکمرانوں ہوتی تو آج جو حال ہم دیکھ رہے ہیں یا جن حالات سے ہم دوچار ہیں وہ نہیں ہوتے بلکہ اس وطن عزیز میں ترقی و تمدنی کا دور دورہ ہوتا۔ افواج پاکستان مین جس طرح ڈسپلین کو قائم رکھا جاتا ہے ایسا ہی ڈسپلین پولیس اور عدلیہ مین کیوں نہیں ہوتا اوراسی طرح کے ڈسپلین پرہماری عوام کو کیوں نہیں پابند کرای جاتا ظاہر ہے اس میں پولیس، انتظامیہ، عدلیہ اور سیاسی جماعتیں قصور وار ہیں۔
جمہوری آزادی کا مطلب ریاست سے پر خلوص محبت ہے اور محبت کا تقاضا ہے کہ اس کو سنوارا جائے نہ کہ برباد کیا جائے کیا اس وطن عزیز مین کوئی بھی جمہوری ٔ ازادی کا عنصر دیکھتا ہے یقینا ہر گز نہیں ۔۔ اللہ ہمارے وطن کو اصل جمہوری ٔ آزادی کا وطن بنادے جس مین قائد اعظم محمد علی جناح کی تعبیر اور علامہ اقبال کو خواب نظر آئے مین ثما آمین۔
Javed Siddiqui
تحریر:جاوید صدیقی ای میل: Journalist.js@hotmail.com رابطہ: 03332179642 & 03218965665