قارئین کرام آج کا موضوع تلخ تو ہے لیکن قابل غور بھی ہے آج اس مثال سے اپنی بات کا آغاز کرتا ہوں کہ ایک خاندان میں موجود افراد ایک دوسرے سے مختلف طبیعت کے حامل ایک ہر کوئی مختلف صلاحیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح تنظیم سازی کے اُصول بھی اسی سے مشابہت رکھتے ہیں کہ ہر عہدیدار اپنے اختیارات کے اندر رہتے ہوئے اپنی زمہ داریا ں انجام دینے کا پابند ہوتا ہے اور تمام تنظیموں میں ایک بات متفقہ طور پر منظور کی جاتی ہے کہ تنظیم مخالف بات کرنے والے شخص کا مکمل طور پر محاسبہ کیا جائے گا۔
اگر اُس شخص کا تنظیم سے کوئی تعلق نہ ہوگا لیکن ممبر کیلئے قانون اور آئین کے مطابق سلوک کیا جائے گا اور ممبران کو ضابطہ اخلاق میں ایک بات واضح کر دی جاتی ہے کہ کوئی ممبر کسی دوسرے پر الزام تراشی نہ کرے گا اور اگر کسی عہدیدار نے اپنی زمہ دری کو احسن طریقہ سے نہ نبھایا تو اس کیخلاف آئین کیمطابق کارروائی کی جائے گی اب بات کرتے ہیں موجودہ ملکی صورتحال کی تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے حکمران کالا باغ ڈیم کی مالا جپتے چلے آرہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کالا باغ ڈیم کے علاوہ ملک میں کسی اور ڈیم کی ضرورت نہیں ؟اور اگر ہے تو کیوں کالا باغ ڈیم پر زور دیا جاتا ہے یہ منصوبہ آخری منصوبے کے طور پر کیوں نہیں دیکھا جاتا موجودہ جدید دور میں بارش کی پیشین گوئی اور سیلاب کی پیشین گوئی کیلئے محکمہ موسمیات اپنی زمہ داری انجام دے رہا ہے۔
جبکہ سیاست دانوں سمیت تما م لوگ اپنی مفادات اور خود نمائی کی سرگرمیاں انہی پیشین گوئیوں کے پیش نظر ملتوی کرتے ہیں یا اس سے بچنے کیلئے کوئی نہ کوئی سد باب کیا جاتا ہے جبکہ سیلاب کی پیشین گوئی کس طرح نظر انداز کیا گیا یہ سب آپکے سامنے ہے پاکستانی قوم کو ہر مرتبہ سبز باغ دکھانے والے سیاست دان اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے کئے گئے وعدوں کو گذری ہوئی رات کے بے معنی خواب کی طرح بھلا دیتے ہیں ہر سال آنے والی آفات سے میرے ملک کا غریب تنہا مقابلہ کر رہا ہوتا ہے اور اگر کوئی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے تو وہ ہے پاک فوج، اس میں سب سے بڑی غلطی ہماری اپنی ہی ہے کیونکہ ہماری یادداشت میں کمزوری ہے اس معا ملہ میں ہمارے ہی ملک کا خطہ خیبر پختونخواہ قابل تعریف ہے جنہوں نے کبھی اپنا مینڈیٹ جلد بازی میں کسی کے حوالہ نہ کیا ہے۔
قارئین کرام کیا کہنے ان منہ زور حکمرانوں کے جو اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی بجائے ہر آفت میں مصیبت زدہ لوگوں کے پاس ایک ویلفئیر ٹرسٹ کے چئیر مین کی طرح بمعہ پروٹوکول دورہ کرتے ہیں اور میڈیا کوریج لیکر ایک تقریب کی طرح پیش کرکے خاموش ہوجاتے ہیں آپ خود ہی سوچئے ذرا کہ ان کے پروٹوکول پرخرچ ہونے والی رقم سے کتنے مصیبت زدہ لوگوں کا چولہا جل سکتا ہے لیکن افسوس کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اب بات کرتے ہیںپاک فوج کی تو پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے جس میں کوئی شک نہیں کیونکہ ملک میں دہشتگردی کیخلاف جنگ ہو یا کو ئی آفت آئے پاک فوج کے جوان سرحدوں سے لیکر ایک ایک غریب کے جان ومال کی حفاظت کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
Parliament
دوسری طرف ملک پاکستان کے پارلیمنٹ کو الزام تراشی کے اڈے کے طور پر استعمال کرنے والے خود ساختہ محب واطنوں کی ان باتوں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیںکہ ان کے بیانات کس ملک کی مشابہت کرتے ہیں یہ لوگ جو کل تک امریکہ مردہ باد کے نعرے لگا کر عوامی دلوں میں اپنی جگہ بنا رہے تھے آج ان کی باتوں کی کمر کس ملک کے ساتھ جری ہے آئیے ایک جھلک دیکھتے ہیں یہ باتیں جو میں کرنے جارہا ہوں آپ سب نے سُنی ہوںگی کہ کس طرح گول الفاظ میںا سکرپٹ رائٹر اور تمام اداروں کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہنے کے اشارے کئے گئے اور عدلیہ جو ہمارے لئے قابل احترام ہے سے باقاعدہ طور پر واضح کروایا گیا کہ ادارے اپنے اختیارات کی حدود میں رہیں اور جمہوریت کی پاسداری کی بات کی گئی حالانکہ ملک کے اسی کونے جس کانام اسلام آباد ہے لوگ انصاف کے حصول کیلئے دربدرہو رہے ہیں کچھ تو عرسہ دراز سے گھروں کو چھوڑ کر یہاں پر احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے بیٹھے ہیں۔
یہ عدالتیں اور یہ سیاست دان سبھی جانتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ایک بیان امریکہ کی جانب سے بھی آیا جس کا جواب دیتے وقت ان منہ زور سیاست دانوں کی زبان تک نہ ہلی اور انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ملکی ادارے ان کی بنائی ہوئی جمہوریت میں روکاوٹ ہیں جبکہ وہ ملک جس نے ڈرون حملوں کے زریعے سے ہماری فضائی حدود کی بارہا خلاف ورزی کی اور ہمیشہ ہمیں پیچھے کیجانب دھکیلنے کی کوشش کی وہ سازگار ہے اور پاک فوج کا بیان ان کو بُرا لگتا ہے جبکہ امریکہ جس کے مخالف نعرے ہر پاکستانی کی زبان پر گونجتے ہیںاُ س کا بیان انہوں نے تسلیم کرلیا کسی پاکستانی ادارے کو تو مداخلت کی اجازت نہیں جبکہ امریکہ کی مداخلت پر ان کے دل کو تسکین ملتی ہے قارئین کرام موجودہ حکومت میں ایک ایسا وزیر بھی موجود ہے جس کا تعلق لاہور سے اور اسی کے علاقہ میں ایک نو عمر لڑکے نے چند سال قبل اس کے گھر پر حملہ کیا اور اس کا دفتر توڑ دیا تو موصوف نے اُس کیخلاف گولی کے آرڈر نکلوائے بعد ازاں اُس کی طرف سے جان کی امان نہ ملی تو اُس کو کلیئر بھی خود ہی کروایا۔
بہت سے تلخ حقائق اس ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں موجود ہیں کہ طلباء تنظیوں اور پولیس کو کن کاموں کا ٹاسک دیا جاتا رہا اور کس طرح انسانوں کو ٹشو پیپر کی مانند استعمال کیا جاتا رہا اور آج نوسو چوہے کھانے کے بعد یہ بلیاں خود کو معصوم اور عوام کو تمام حالات کے زمہ دار ٹھہرانے پر تُلی ہوئی ہیں اس تما م ترتمھید کا مقصد یہ نہیں کہ آپ جس جماعت سے منسلک ہیں وہ چھوڑ دیں بلکہ صرف ایک گذارش ہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول کا حتساب کر یں اور یہ ضرور سوچ لیں کہ جس کے ساتھ ہم جڑنے جارہے ہیں اُس کا ماضی کیا ہے اُس کا دامن کس حد تک صاف ہے۔