تحریر : ایم آر ملک شہر قائد پر بدستور سیاسی وحشت طاری ہے یہ سیاست کی شورہ پستی کا رنگ ہے کہ قائد کے شہر میں لاشیں گرتی رہیں ،انسانیت کا خون ناحق بہتا رہا ، شہر کے باسیوں کی باہیں لاشیں اُٹھا اُٹھا کرشل ہوتی رہیں اور زرداری اینڈ کمپنی منی لانڈرنگ کا کھیل کھیلتی رہی۔جمہوری فلم کے ولن دو بڑی پارٹیوں کی سر پرستی میں بھتہ خوری ،لاشوں کی راکھ پر سیاست چمکاتے رہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے نصیراللہ بابر جیسے محب وطن فرد کو دریافت کیا اور شہر قائد میں اُس مر دِ مجاہد نے زندگی پر خوف کے تسلط کو توڑکر امن کی بساط بچھا دی ۔پولیس کے وہ ساڑھے چار سو مردانِ کار جوانسانیت کی زندگی کی ضمانت تھے ان کی زندگی راء کے اُن ایجنٹوں کے ہاتھوں ہارتی چلی گئی جنہوں نے سانحہ صفورا سے قبل ”راء ”کو اپنی مدد کیلئے پکارا۔
ریاست کا وہ ادارہ جس کی ہیبت سے مجرموں کا پتہ پانی ہو جاتا خوف کی نفسیات کو چابکدستی سے استعمال کرنے والے مافیا نے اُس میں اپنے غنڈے بھرتی کرکے شہر قائد کے امن کے پر نوچ ڈالے قاتلوں کے جتھوں کی سرپرستی کرنے والے جمہوری ناخدا یہ راگ الاپ کر قومی زندگی کی بیڑی بارود سے بھرتے رہے کہ ”بدترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے ”اور فوج کو سیاست میں حصہ نہیں لینا لینا چاہئے کہ وہ ہمارا مسلح بازو ہے ۔یہ منطق بھی مان لی مگر سیاست میں مسلح ونگ کس نے بنائے ؟عوام پر عالم بیچارگی طاری کرنے والوں نے کیا اپنی پرائیویٹ آرمی تشکیل نہیں دی اور لے پالک غنڈوں کی اس فوج ظفر موج کا انتظام و انصرام بیرونی تخریب کاروں کے ہاتھوں میں تھما کر دھرتی کے بیٹوں کی چھاتیاں گولیوں سے چھلنی کیں۔
عدلیہ کی تکریم کا دعویٰ کرنے والے ان بچے جمہوروں نے ”عدل کے ایوانوں ” پر چڑھائی کر کے اپنی فتح کا جشن منایا اور انہی اقتداریوں نے جناح پور کا نعرہ لگانے والوں اور سندھ کے بھارت سے الحاق کے دعویداروںاور ملک دشمن ایجنسی ”را”کو مدد کیلئے پکارنے والوں کی شان اقتدار میں حصہ دیکر بڑھائی۔بھٹو کی پارٹی پر حادثاتی طور پر قابض ایک شخص ایک بار پھر شہر قائد پر چھائے مافیا کو اقتدار میں شامل کرنے کیلئے بے چین ہے ،بے قرار ہے۔ سیاسی بازی گری کا کھیل کھیلنے والوں کو حکیم سعید نے یہ باور کرایا کہ ایک کروڑ بھتہ مانگنے والے اُن کی زندگی کی ڈور کاٹنا چاہتے ہیں ۔مگر حکومت وقت نے ”مفاہمت ” کے ستونوں پر کھڑی اقتدار کی عمارت کو قوم کے نبض شناس کے لہو کا خراج دیکر بھی سبق حاصل نہ کیا۔
Zulfiqar Mirza
ذوالفقار مرزا ،زرداری مخاصمت بھی ایک سیاسی ڈرامہ ہے جس کا سکرپٹ زرادری نے خود لکھا تاکہ پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے آخری کارڈ ”بلاول ”میدان میں اُتر سکے۔ہارس ٹریڈنگ کا ڈول بھی ضیا ء باقیات نے اُس وقت ڈالا جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔ عوام کے ووٹ لیکر ”عوامی نمائندگی ”کا داغ اپنی پیشانی پر سجانے والوں کے ضمیر کی بولی لگی اور ضیاء کی باقیات نے ان ضمیر فروشوں کا 77کروڑ میں سودا کرکے ”جمہوریت کا بازار مصر ”سجایا۔ 1985سے لیکر اب تک ”خاندانی جمہوریت ”اور باری کے کھیل سے وطن عزیز کی فضا پردو خاندانوں کے سیاسی جمود کا سناٹا ہے
اس جمود کے ہاتھوں معاشرتی شناخت کا ادراک تک دم توڑ گیا ۔کیا اسے ہم جمہوریت کا حسن کہہ سکتے ہیں کہ موٹر وے کا ابتدائی تخمینہ 11ارب لگا ،اور ایک بار پھر نظر ثانی کے مرحلہ نے اسے24ارب بنا دیا مگر تکمیل 55ارب روپے میں ہوئی 44ارب روپے کہاں اور کس کی جیب میں گئے ؟جمہوریت کے ایک شاہکار کی یہ خوبصورت مثال ہے ۔یہ جمہوریت کا ہی حسن ہے کہ قرض اُتارو ملک سنوارو مہم میںمحب ِ وطن باسیوں نے 35کروڑ 40لاکھ دیکر حساب تک نہ مانگا۔
اسی جمہوری دور میں حواریوں کے 30ارب معاف کردیئے گئے۔سرمائے کے شیر کی یلغار میں قوم ایک بار پھر آپھنسی ہے جس نے الیکشن 2013کا آغاز کرپشن پر حملوں ،اُسے اُکھاڑ پھینکنے ،مسٹر سینٹ پرسینٹ کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے بلند و بانگ دعوئوں سے کیا ۔مگر جمہوریت کا حسن برقراررکھنے کیلئے سڑکوں پر گھسیٹنے والے کو 70کھانے پیش کئے گئے ۔اسی جمہوریت میں ہم نے دیکھا کرپشن لہو بن کر سماج کی رگوں میں دوڑ رہی ہے ،شہر اقتدار میں اسی جمہوریت کے ہاتھوں 18کروڑ عوام کی تقدیر یر غمال ہے اور یہی جمہوریت حاجت روائی ،مشکلات کی داد رسی کے بجائے قوانین کو مفادات کی بھٹی میں جھونک رہی ہے ۔یہ جمہوری دور کا خاصہ ہے کہ افسر شاہی کے ذہنوں میں عوامی خدمت کے بجائے ”بوئے سلطانی ”سمائی ہوئی ہے۔
Pakistan
نظام حکومت ،سیاست ملک کیلئے ہوتے ہیں ،ملک اُن کیلئے نہیں۔ دنیا کے آئینے میں اُبھرنے والی شبیہ اور دو قومی نظریئے کی عکاس ریاست جسے قائد اور اُن کی سرگرم ٹیم نے اپنے قول و فعل اور پختہ کردار سے اُجاگر کیا ،ذہنوں میں آئی تبدیلی جو آخر منزل مراد پاکر تھمی اُس کیلئے دشمنوں نے سر جوڑ لیا ،وہ سب متحد ہو گئے ،شیرازہ بکھیرنے کے خواب دیکھنے والوں کی ہم رکاب ہماری سیاست بن گئی ملک توڑنے والے ہاتھ اس سیاست کے ہاتھوں مضبوط ہونے لگے جمہوریت کے دعویداروں نے حکیم سعید ،غازی صلاح الدین کی لاشیں گرانے والوں کو اقتدار میں حصہ دار بنا کر شہداء کے خون کا سودا کر لیا،
سانحہ پشاور ہوا تو سرحد پار کے دشمن کے خلاف ہماری جمہوریت کے ہونٹ سلے ہوئے تھے ملک صنعت نہیں ہوتے جن کو صنعت سمجھ کر چلایا جاسکے ریاست ماں ہوتی ہے سقراط کو جب زہر کا پیالہ دیا جانے لگا تو اُس کے سامنے تین آپشن رکھے گئے پہلے آپشن میں اُسے اپنے موقف سے دست بردار ہونے کو کہا گیا
دوسرا آپشن اپنی دھرتی کو خیر باد کہنے کا تھا جبکہ تیسرا آپشن یہ تھا کہ زہر کا پیالہ پی لیا جائے سقراط نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ دھرتی ماں ہوتی ہے اور کون کم بخت نہیں چاہے گا کہ وہ ماں کی گود میں دم نہ توڑے ہمیں اپنی نسلوں کا مستقبل بچانا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ قیادت کی راسیں کسی محب وطن کے ہاتھوں میں ہوں جمہوریت کی اس لوٹ مار کے باوجود وطن پرستی کے جذبات اُبھر رہے ہیں،