تحریر : مدثر اسماعیل بھٹی جمہوریت سے مراد ایسی حکومت ہوتی ہے جو عوام کے ہاتھوں میں ہوتی ہے کوئی فرد واحد چند لوگ اپنے فیصلے مسلط نہیں کر سکتے۔ اقتدار نچلی سطح تک عوام کو منتقل کیا جاتا ہے۔ اس نظام حکومت میں عوامی فلاح وبہبود کیلئے عوامی خواہشات اور سہولیات کو ہر قیمت مقدم رکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت کا رنگ ہی نرالا ہے۔
جمہوریت کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں نے ہی عجیب طرح کی آمریت قائم کررکھی ہے ۔جس میں عوام کا خیال کم اور کرپٹ لوگوں کا احساس زیادہ ہے تمام حکومتی اداروں کو اس طرح سے یرغمال بنا رکھا ہے کہ کوئی شخص ایمانداری سے اپنا فرض نہیں نبھا سکتا ہے ۔جب زیادہ ہی ایماندار لوگوں سے حکمرانوں کا واسطہ پڑجائے تو قانون ہی بدل دیے جاتے ہیں یا لوگ بدل دیے جاتے ہیں پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت کی نام نہاد علمبردار پارٹیاں اقتدار میں آکر آمریت سے بھی برا حال کر دیتی ہیں۔
سابقہ دور میں بلدیاتی الیکشن ہمیشہ آمریت کے دور میں ہوئے اور بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات بھی دیے گئے جس سے براہ راست عام آدمی کو فائدہ ہوا ۔سیوریج سسٹم اور سڑک گلیوں کی تعمیرات کا زیادہ ترکام صرف آمریت کے دور حکومت میں انجام پایا۔لیکن یہ نام نہاد جمہوری حکمران سابقہ آمریت کے دور کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے جس کی مجھے تو صرف یہ وجہ نظر آتی ہے کہ ان کی کرپشن اور لوٹ مار کو روک دیا جاتا ہے احتساب کا عمل ہوتا ہے جمہوریت ہر صورت میں آمریت سے بہتر ہوتی ہے لیکن وہ حقیقی معنوں میں جمہوریت ہونی چاہیے ایسی جمہوریت ،جمہوریت نہیں ہوتی جیسی پاکستان میں یہاں تو لگتا ہے کہ کرپشن کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا ہے کہ یہ پھلتی پھولتی رہے سابقہ پانچ سالہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں لوٹ مار کی مثالیں سب کے سامنے ہیں وہ کیسی جمہوریت تھی جس میں بلدیاتی الیکشن ہی نہیں کروائے گئے۔
Election
اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت آ نے سے فرق صرف یہ پڑا کہ منظم طریقے سے قبضہ گروپ سامنے آئے ۔اور کرپشن پر پوری حکومتی مشینری افسران سمیت مکمل تن دہی سے شروع ہو گئی محتسب ادارے برائے نام رہ گئے ۔مسلم لیگ (ن) پر جب عوام اور میڈیا کی طرف سے بلدیاتی الیکشن کا زور دیا گیا تو گونگلوئوں سے مٹی اتارنے کے مترادف کام کیا گیا ۔الیکشن کروانے میں 5 سال گزار دیے پھر مذید ایک سال لیت ولعل سے گزار دیا گیا اب جب یہ کام اللہ اللہ کرکے اختتام پذیر ہوا تو حکومت نے ایک نئی چال چل دی کہ کمشنری نظام بحال کردیا اور چند قانونی اصلاحات کے نام پر پھر معاملے کو التواء کا شکار کردیا گیا اصل مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اقتدار عوام تک منتقل نہ کیا جائے اگر مجبوراً ایسا کچھ کرنا بھی پڑے تو برائے نام اختیار دیے جائیں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سابقہ آمریت کے دور میں بنائی گئی یونین کونسلز جوکہ عوامی اور حکومتی ریکارڈ دونوں کیلئے ہی ایک بہتر نظام تھا اس کو ختم کردیا گیا اور یہ کام اتنی عجلت میں کیا گیا کہ اس کا کوئی متبادل تلاش کیے بغیر ہی ادارے تحلیل کر دیے اب یونین کونسلز کی غیر موجودگی میں عوام پیدائش و اموات کا اندراج اور نکاح وغیرہ کے لئے شہری دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔
تمام ریکارڈ یونین کونسلز سے اٹھا کر میونسپل کمیٹیوں میں جمع کرنا شروع کردیا گیا ہے ریکارڈ نقل لینے کیلئے بھی ایک تھکا دینے والا سفر کرنا پڑتا ہے چکر لگالگا کر بندہ گھن چکر ہی بن جاتا ہے اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نکاح خوانوں سے نکاح کی پرتیں اور رجسٹر ہی واپس لے لئے گئے ہیں ۔اب پریشانی یہ ہے کہ نکاح کا ریکارڈ کیسے بنے ۔نکاح کے ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے نکاح خواں اور عوام دونوں ہی اذیت میں مبتلا ہیں۔اس کے علاوہ ضیعیف پنشن یافتہ ریٹائرڈ سرکاری اہلکاران بھی اکائونٹ بند ہونے کی وجہ سے مارے مارے پھر رہے ہیں ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے اس کے علاوہ خاکروبوں کی کثیر تعداد بھی ابھی تک تنخواہوں سے محروم ہے۔
جب تک نیا نظام مکمل طور پر واضح نہیں ہوتا تب تک یہ معاملہ جو کا توں ہی رہے گا اگر اس حکومت کا نام جمہوریت ہے تو ایسی جمہوریت سے آمریت بہتر ہے میری سمجھ سے پاکستان کی جمہوریت بالاتر ہے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو تو کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ وہ عوامی تکالیف کو سمجھیں اپنا علاج کروانے لندن چلے جاتے ہیں جبکہ یہاں سرکاری ہسپتالوں میں لوگ ایڑیاں رگڑرگڑ کر مر رہے ہیں حکمرانوں کے بچے بیرون ملک عیش کررہے ہیں جبکہ طیبہ جیسی ناجانے کتنی بیٹیاں اپنا پیٹ پالنے کیلئے طرح طرح کے مظالم برداشت کر رہی ہیں۔
پانامہ کیس پر فیصلہ لٹکا ہوا ہے جبکہ ایک پچاس روپے کے چور کو فوری سزا کا انتظام ہے اور انصاف کا حال تو یہ ہے کہ دوسال قبل پھانسی لگنے والے کو بے گناہ قرار دے دیا جاتا ہے اب اللہ تعالی نے سی پیک کی شکل میں پاکستان کو ترقی کرنے کا موقع عطا فرمایا ہے لیکن حکومتی ایوانوں اور بڑی سیاسی پارٹیوں میں بیٹھے چہروں پر جب نظر پڑتی ہے تو دل میں لا محالہ خیال آتا ہے کہ رب العزت کی طرف سے دی گئی سی پیک جیسی نعمت پر بھی خوب بندر بانٹ ،لوٹ مار اور کرپشن کرکے اس کے ثمرات سے پاکستان کو محروم کردیا جائے گا ہاں اگر سی پیک سے کسی کا فائدہ ہوگا تو وہ صرف جمہوریت (نام نہاد) کے علمبرداروں ،ان کے حامیوں ،رشتے داروں اور ان کی اولاد کو ہوگا عمام آدمی کی قسمت میں وہی دن کو بھی مرنا اور رات کو بھی مرنا ہی لکھا نظر آتا ہے اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے آمین۔