ڈاکٹر طاہر القادری اور سراج الحق صاحب سے میرے چند سوالات ہیں یہ دونوں مذہبی جماعتوں کے رہنما ہیں پاکستان میں بہت سی عوام ان کو پاکستان کا نجات دہندہ سمجھ رہی ہے یہ دونوں بہت سے سیاست دانوں سے صالح بھی ہیں مگر یہ دونوں جمہوریت کی باتیںکر رہے ہیں ایک طرف مذہبی رہنما ہیں اور دوسری طرف جمہوریت کی بات کرتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے جمہوریت کا نظام حکومت اور اسلامی نظام حکومت میں فرق ہے دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں تو کیا یہ ان دونوں رہنماوں کی باتوں میں، عمل میں، جہدوجہد میں تضاد نہیں ہے ایک طرف مذہبی رہنما اور دوسری طرف جمہوریت کے خیر خواہ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایسا اسلام کے نام پر ہے میں نے سیاست کی بات نہیں کی اگر حکومت میں آنے کے لیے سیاست کی جائے تاکہ اسلامی نظام حکومت قائم ہو تو برا نہیں ہے
وہ مذہبی جماعتیں غلطی پر ہیں جنہوں نے خود کو سیاست سے دور رکھا بلکہ سیاست کو غیر اسلامی قرار دیا ۔جس وجہ سے سیاسی جماعتیں مضبوط ہوئیں ۔دوسری طرف وہ ہ مذہبی جماعتیںہیں جنہوں نے جن کے خلاف جہدو جہد کرنا تھی ان کا ساتھ دیا ۔جماعت اسلامی کا ماضی اس کا گواہ ہے اسی طرح کا راستہ اب ڈاکٹر طاہر القادری نے چنا ہے ۔یہ دونوں رہنما کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت ایک نعمت ہے
جمہوریت کے لیے ہر طرح کی قربانی دیں گے،ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں ،جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے ،ہم جمہوریت بچانے آئے ہیں ،جمہوریت نہ رہی تو پاکستان کی بقا کو خطرہ ہے ۔جمہوریت ترقی کے لیے بہت ضروری ہے ۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام اور جمہوریت دو الگ نظام حکومت ہیں ۔اللہ سبحان و تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ۔جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہو گا وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا (آلعمران 85 ) اب کوئی اگر یہ کہے کہ جمہوریت دین نہیں ہے تو میں نے اسے ایسا کیوں لکھ دیا ہے ۔دین کا مطلب نظام حیات ہے
قانون سازی اور ان پر عمل کا طریقہ کار ہے اور یہ ہی تو جمہوریت ہے دوبارہ پھر دیکھیں اللہ تعالی نے فرمایا ہے جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہو گا مطلب یہ کہ کسی اور نظام کا طالب ہو گا ۔ دوسری چیز جمہوریت ہے جو اسلام کی ضد ہے اور یونانی نظریات پر مبنی عیسائیوں اور یہودیوں کا پھیلایا ہوا طاغوتی نظام ہے کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اسلام اور جمہوریت دو برعکس اور متصادم نظریات ہیں ۔ان کاآپس میں کوئی میل اور تعلق نہیں ہے ،قرآن و حدیث کی رو سے جمہوریت ایک طاغوتی نظام ہے ۔اس کا کسی بھی صورت میں ساتھ دینا اسلام میں درست نہیں ہے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہندو اور مسلم کا فرق کیا ہے؟
ان کا نظام زندگی ہی ہے نا ۔اسی کی بنیاد پر دو قومی نظریہ بنا اور پاکستان کا مطالبہ کیا گیا اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے الگ ملک کا مطالبہ کیا گیا یہ باتیں بھی ہمارے یہی رہنما کرتے ہیں اور دوسری طرف حقیقی جمہوریت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں جمہوریت کا تو کہیں وجود نہیں ہے آپ اقوام متحدہ کو ہی دیکھ لیں اس میں پانچ ممالک کو ویٹو کا حق حاصل ہے پوری ایمانداری سے بتائیں کیا یہ جمہوریت ہے لیکن اس کالم میں ہمارا موضوع جمہوریت اور اسلامی نظام حکومت ہے آئیںان کا موازنہ کرتے ہیں ۔ اسلام میں مقتدار اعلی ذات صرف اللہ سبحان و تعالی ہے ۔تمام طاقت کا سرچشمہ اللہ ہے ۔
البقرہ ۔165 حکومت تو صرف اللہ ہی کو سزا وار ہے ۔سورة یوسف ۔61 جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اللہ نہیں اللہ کی مخلوق ہے ۔اسلام میں قانون اللہ کے ہیں مثلا حرام و حلال ،وراثت،عدلیہ،وغیرہ اللہ کی حکومت ،اللہ کے بندوں کے ذریعے یعنی اللہ کے بنائے ہوئے قوانین پر اللہ کے بندوں کے ذریعے عمل ان کے اختیارات کا بھی ایک دائرہ ہوتا ہے اور جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار عوام کے نمائندوں کو حاصل ہوتا ہے (ان کے ایسے معبود ہیں جنہوں نے اللہ کی اجازت کے بغیر ان کے لیے کوئی دین بنا دیا ہے؟ سورة شوری ۔آیت 21 ) قانون اللہ کے بندے بناتے ہیں۔اب ایک بات بہت غور طلب ہے کہ اسلام کہتا ہے لوگوں کی اکثریت گمراہ ہوتی ہے سورة انعام آیت نمبر 117 میں اللہ کا واضح فرمان ہے
Democracy
اور اگرتم زمین پر رہنے والے لوگوں میں سے اکثر لوگوں کی اطاعت کر و گے تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں گے ۔ دوسری طرف جمہوریت کا تمام دارومدار اکثریت پر ہے دو جاہلوں کی رائے ایک عالم کی رائے پر بھاری ہوتی ہے۔ اس بات کی وضاحت ایسے بھی ہو سکتی ہے کہ دنیا میں اگر 7 ارب آبادی ہے تو ان میں سے ایک ارب 90 کروڑ مسلمان ہیں اور اکثریت مسلمان نہیں ہے جمہوریت میں تو مسلمانوں کو ان کی پیروی کرنی چاہیے اپنا دین چھوڑ دینا چاہیے ۔کیونکہ اکثریت میں نہیں ہے۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اکثریت گمراہ ہوتی ہے ۔جمہوریت کا نظام اکثریت کا نظام ہے اس لیے یہ درست کیسے ہو سکتا ہے ۔جمہوریت میں آپ قانون سازی کے ذریعے شراب ،جوا،زنا،ہم جنس پرستی ،مطلب جو دل چاہے اسے جائز کر سکتے ہیں امراء کے لیے الگ اور غربا کے لیے الگ قانون بنا سکتے ہیں جمہوریت میں بعض افراد پر قانون کا اطلاق نہیں کر سکتے ان کو استعثناحاصل ہوتا ہے لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے ۔خلیفہ وقت کو بھی استعثنا حاصل نہیں ہے ۔اولاد آدم سب برابر ہے ۔آج پاکستان کی عوام گواہ ہے کہ اس ملک میں برادری ازم، غنڈہ گردی، دہشت گردی، پولیس، مقدمات، کرپشن، کردار کشی، دھونس، دھاندلی اورجو بھی غیر اخلاقی حربے اور ذرائع میسر ہوں بروئے کار لائے جاتے ہیں
اقتدار کے لیے جمہوریت کے لیے کیونکہ اقتدار کے پجاری حکمرانوں نے اپنی کرپشن،غنڈہ گردی،دہشت گردی،دھونس،دھاندلی اوراس فرسودہ نظام کو تحفظ جو دینا ہے یہ کب چاہتے ہیں کہ ان کی یہ خود ساختہ بادشاہت ان سے چھن جائے جن کو انہوں نے جمہوریت کا نام دے رکھا ہے ۔اور اب آپ حقیقی جمہوریت کی بات کرتے ہیں بجائے جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا اس نظام حکومت کی بات کرتے اس کے لیے جہدو جہد کرتے ۔آپس میں اتحاد کرتے دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتے جب آپ خود ہی ایک دوسرے کے مسلک کو برداشت نہیں کریں گے تو پھر آپ کو جمہوریت کی چھتری کے نیچے آنا ہو گا آپ خود ہی اسلام کو ناقابل عمل کہہ رہے ہیں اور صبح شام جمہوریت کی تعریفیں کرتے ہیں
ملکی مسائل کاواحد حل کرپٹ اور غریب کش نظام کی تبدیلی ہے ،وہ نظام جو معاشی وسماجی انصاف پر مبنی ہو ،جس میں عدل ومساوات کا راج ہوجس میں حکمران عوام کے خادم بن کرکام کریں جس میں عوام کی دہلیز پر حقوق میسر ہوں ،لیکن موجودہ جمہوری نظام حکومت میں یہ ممکن نہیں ہے مجھے کہنا یہ بھی ہے کہ مذہبی جماعتوں کو آپس میں اتحاد کر کے اسلامی نظام حکومت کے لیے جہدو جہد کرنی چاہیے اور جمہوریت کے ٹھیکیداروں کے اتحاد اور طاقت سے ڈر کر جمہوریت کو اسلامی نظام حکومت کا متبادل قرار نہیں دینا چاہیے ۔اللہ کی نعمت نہیں کہنا چاہیے اس کے خلاف جہدو جہد کرنی چاہیے ۔یا اوپر درج تمام باتوں کا تسلی بخش جواب دیا جائے تاکہ میرے جیسے ہزاروںا فرد مطمئن ہو سکیں ۔