تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم اَب ضد نہیں مگر یہ ضرورمان جا ئیں کہ بیشک یہاں کوئی بھی پارسانہیں ہے ستر سالوں میں کس حکمران نے مُلک اور قوم کو کیا دے دیاہے؟ بھاڑ میں جا ئے ایسی جمہوریت جس کے ثمرات عوام الناس تک نہ پہنچ پا ئیں جس میںاشرافیہ کا طبقہ بلیک عینک لگا کر عوامی مسائل کا حل ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر نکالنے کی کوشش کرے اورباہر نکل کر میڈیا کو بریفنگ دیں ایسی بریکنگ نیوز سے خالی پیٹ والے عوام کا کیا لینا دینا جو بغیر نتیجہ اور بغیر تحقیق کئے رینکنگ کے لئے چلا ئی جائے،اُمت کے بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کے ماتھے پر سیاہ دھبہ تو بہت بڑا ہے حلیئے سے اسلام اور ایمان کے ٹھیکدار نظر آئیں مگر اِن کے دل دغابازی کے دلدل میں دھنسے ہو ئے ہیں دنیا کی تاریخ ایسے حالات اور واقعات سے بھری پڑی ہے جِسے مذہبی پنڈتوں نے اِنسا نوں کا استحصال کیا اورہمارے یہاں تو ایسے افراد کی تعداد ہر زما نے میں نمک کے مقا بلے میں آٹے جتنی رہی ہے مگر افسوس ہے کہ اسلا می جمہوریہ پاکستان میں اِن لوگوں نے نہ اسلام کو اِس کی روح کے مطابق پروان چڑھایا اور نہ جمہوریت کی بیل کو پھلنے پھولنے دیا اسلام کی بات کی جا ئے تو جمہوریت کا رونا شروع کردیاجاتاہے اگر جمہوریت کو بے لگام کرنے اور اِس کے ثمرات عوام الناس تک پہنچا نے کا چکہ گھومایا جا ئے توپھر اسلام کی بے توقیری کے سوال اُٹھنے شروع ہوجاتے ہیںسترسالوں سے سرزمین پاکستان میں جمہوریت ، جمہوریت کرتے آمریت آن دھمکتی ہے اور اسلام ، اسلام کرتے انتہا پسند بے لگام ہو جاتے ہیں۔
یہاں یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ہم سترسالوں میں اپنے مُلک پاکستان میں جمہوریت اور اسلام کے ملاپ سے کو ئی ایسی راہ متعین نہیں کرسکے ہیں جو جمہوریت اور اسلام دونوں کے چیلوںکے لئے پسندید ہو آج جس کا نتیجہ یہ سامنے ہے کہ جمہوریت کی اپنی راہ ہے اور اسلام کے ما ننے والے اسلام سے زیادہ اپنی مرضی کی راہ پر چل رہے ہیں جس کی وجہ سے اِن میں عدم برداشت کا عنصر عروج پر پہنچ گیاہے اور جمہوریت والے میںنہ مانو ں کی ضد پر اڑے ہوئے ہیں دونوں کا یہ رویہ تصادم کی جانب بڑھنے کو ہے۔دونوں نے ایک دوسرے کو کبھی مصالحتاََ تو اکثر مجبوراََ قبول کرنے کی کوشش ضرور کی ہے مگر دائمی طور پر دونوںہی ایک دوسرے کو ماننے کو تیار کبھی بھی نظر نہیںآئے ہیں یہ بات درست ہے کہ کبھی دونوںنے ایک دوسرے کو خود قریب آنے کا موقعہ بھی تو فراہم نہیںکیا ہے کہ کبھی دونوں جانب سے پائیدار یکجہتی کا مظاہرہ سا منے آتا۔
بہر حال، جمہوریت، آمریت ، اسلام اور بریکنگ نیوز چاروں نے ہمیشہ (کچھ لے دے کر) مخصوص مافیا اور رندوں اور درندوںکے کرتوتوںپر پردہ ڈالا ہے جبکہ آمروں نے صرف جمہوریت کا نعرہ لگا نے والوں کا ہی قلع قمع نہیں کیا ہے بلکہ ہر اقسام کے مافیا ، رندوں، درندوں،لٹھ برداروں، قلم و قرطاس کے بے لگاموں کا بھی احتساب کرکے مُلک کو اپنی مرضی سے ہمیشہ چالانا چاہاہے جس سے ہر لمحہ مُلک میں بریکنگ نیوز کا نہ رکنے والا سلسلہ چلتا ہے یہ ٹھیک ہے کہ آمر کو سول حاکم آنے کی دعوت دیتے ہیں جیسے کہ سول حکمران اِن دِنوں کررہے ہیں جب پاکستان میںسول اشرافیہ ایک مافیا بن جاتا ہے تو آمر نکیل ہا تھ میںلیئے آگے بڑھتا ہے پھر سارے سول حکمران اور اِن کے چیلے بغلیںجھانکتے پھر تے ہیں ایسا منظر عنقریب پھر دہرا یا جا نے والا ہے جب سول حکمران آگے ہو ں گے اور آمراِن کے پیچھے اِنہیں پکڑنے کو بھاگ رہا ہو گا۔
پاکستان میں جمہوریت ایک خواب اور آمریت ایک حقیقت ہے، ایسا حکمرانوں اور سیاستدانوںنے ہی بنایاہے اکثر مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ جمہوریت کی چاشنی خود سیاستدانوں کو آپس میںایک دوسرے سے دور کردیتی ہے اور پھر خود ہی جمہوریت مٹھی میںبند ریت کی طرح پھسل کر آمریت کی چھلنی سے ہوتے ہوئے کچھ اِدھر تو کچھ اُدھرقید ہوجاتی ہے آج بھی اگر ہمارے سِول حکمران اور بے لگام سیاستدان اداروںکے درمیان ٹکراو کی فضا برقرار رکھیں گے تو عنقریب جمہوری چڑیا کے پَر کا ٹ دیئے جا ئیں گے اور اِسے صیاد قید کرکے رکھ لے گا تب سِوا ئے پچھتاوے اور کفِ افسوس کہ کسی کے ہاتھ او ر خا لی دامن میںدو آنسو بھی نہیں آئیں گے۔اکثر ہم میںسے بہت سے لوگ یہی سوچ کررہ جاتے ہیں کہ ستر سالوںسے جمہوریت ، آمریت اور اسلام کی کھینچا تی میں مُلک اور قوم کا کتنافائدہ ہوا ہے تو جواب صفر درصفر کے سِوا کچھ نہیں نکلا ہے اگر زیادہ سوچ کر اِس کا جواب ابھی بہتر نہ آیا تو پھر ہمیں اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنا کڑا احتساب کرنا ہوگا ورنہ ہم مزید ایک صدی اپنا آپ تلاش کرنے اور پھر اِسے سُدھار نے میںلگا نے کے بعد بھی وہیںکھڑے کے کھڑے رہیں گے آج ہم جہاں کھڑے ہیں۔
کیا ہم پوری طرح آزاد ہیں؟ اگر آزاد ہیں تو ہمیں بھی ایسی ہی آزادی ابھی تک کیوں نہیں ملی ہے ؟ جو دنیا کی ہم سے پہلے اور بعد والی آزاد اقوام کو حاصل ہے، یہ کو ئی آزادی نہیںہے کہ ایک کمرے میں چار افراد ہیں اور چاروں کمرے میں گھوم پھر رہے ہیں، آزادی تو یہ ہے کہ چار وںافراد کو آزادی سے بنیادی حقوق میسر ہوں، قانون کا احترام اور عدلیہ کا وقار برابراور یکساں چاروںپرلاگو ہو،اگر سگنل توڑے اور قانون کا غلط استعمال کوئی کرے تو قانون فوراََ حرکت میں آئے اور قانون توڑنے والے کا بلاتفریق احتساب ہوجیسا کہ دنیا کی دیگر آزاد اقوام میںہوتا ہے، ایسا نہ ہو کہ جمہوریت میںووٹرز کے ووٹ سے اقتدار کی مسندِ اعلیٰ پر کوئی قدم رنجا فرما نے والا زعم میں خدا ہی بن بیٹھے ،آف شور کمپنیاں بنا ئے اوراقا مہ رکھے جس پریہ گمان غالب رہے کہ اقتدار چونکہ عوام کے ووٹ سے ملا ہے اورمجھے عوامی مینڈیٹ حاصل ہے تو کو ئی کچھ نہ پوچھے، کوئی کچھ نہ دیکھے ، نہ کو ئی روک ٹوک کرے اِس لئے کہ جِسے اقتدار کی کرسی پر عوام کے ووٹ کی طاقت سے بیٹھایا گیاہے اِسے عوامی مینڈیٹ حاصل ہے تو یہ جمہوریت کی اُوٹ سے جو جی میں آئے کرتا پھرے قانون و عدلیہ اور سیکیورٹی کے ادارے اِسے اِس کی غیر قانونی حرکتوں اورٹیکس چوری سمیت بددیانتی کے اعمال پر بھی حرکت میں نہ آئیں مگر جب مُلکی آئین اور دستور کے مطابق ایسا قو می چور قا نون کی گرفت میںآئے اور بریکنگ نیو ز کا حصہ بنے تو پھر جمہوریت ، جمہوریت ، ووٹ اور ووٹ کے تقدس کی پامالی کا رونہ روئے اور گلے پھاڑ پھاڑ کر ” مجھے کیوں نکالا؟“ اور ” مجھے کیوں ہرایا؟“ کا معصومیت سے نعرہ بلند کرے تو یہ بھی تو کسی مہذب دنیا میںنہیںہوتا ہے اور اِس پر سینہ جوڑی یہ کہ عوام کو عدلیہ اور دیگر اداروں کے خلاف اُکسا کر عدلیہ اور اداروں کو بھاشن دیئے جا ئیں کے اداروں کو اپنے حدود میں رہ کر اپنا کام کرناچاہئے حدود سے تجاوز کرنے سے بگاڑ پیداہوتاہے مگر جب اداروں کو یہ درس دینے والے خود اداروں کو اپنی مرضی سے چلائیں اور استعمال کرتے ہوئے تمام حدود قیود پارکرجا ئیں تو پھر ؟ جب کو ئی اِن کی گرفت کرکے نااہل قرار دے دے تو پھر یہ پاگل ہو جائیں اور جمہوریت کو اسلام کے ساتھ نتھی کردیں اور عوام کو اُکسا کر سڑکوں پر لے آئیں اور دعویٰ کریں کہ ہم تو اِس طرح آمریت کے خلاف صف آرا ہیں دہت تیرے کی۔(ختم شُد)