مادر جمہوریت بیگم کلثوم نواز

kalsoom Nawaz

kalsoom Nawaz

تحریر : شاہ بانو میر

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

آمین

سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف کی اہلیہ مختصر علالت کے بعد قضائے الہیٰ سے وفات پا گئیں

انا للہ و انا الیہ رٰجعون

بیگم نصرت بھٹو نے سیاست پر اپنا خاندان قربان کر کے یہ اعزاز پایا تھا

آج

یہ اعزاز ایک اور دکھیاری ماں کو پاکستان کی عوام دے چکی

“” مادرِ جمہوریت محترمہ بیگم کلثوم نواز شریف “”

آج محترمہ بیگم کلثوم نواز علالت کے بعد انتقال کر گئیں

تاریخ نے جب کسی کو عظیم بنانا ہوتا ہے تو مشکلات آزمائشوں میں مبتلا کر کے ان کا رب ان کو آزماتا ہے

اور

پھر ان کے درجات عام سطحی انسانوں سے بہت بلند ہو جاتے ہیں

نواز خاندان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے

ان کی مشکلات انشاءاللہ ختم ہوں گی

اور

تاریخی لوگ نئی تاریخ رقم کریں گے

سنجیدہ مزاج اور عوامی نمائیندے عوام کے درمیان بے خوف ہو کر زمینی شاہراوں سے گزرتے تھے

ہر قسم کی پریشانی سہتے تھے

ہر رد عمل کو خندہ پیشانی سے سہتے ہوئے عوام کے درمیان ہی رہے

عمران خان کی طرح عوامی غیض و غضب سے بچنے کیلئے فضا میں اڑان نہیں بھرتے تھے

مشکل وقت آتا ہے گزر جاتا ہے

سیاست میں مشکلات ہی تو عظیم رہنما بناتی ہیں

جناب نواز شریف اور ان کی اہلیہ اور بیٹی مریم نواز

پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور رہیں گے

آج ایک ماں سسکتی ہوئی روتی ہوئی منتظر نگاہوں کو ساکت کر گئی

یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی

انشاءاللہ

ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے

یہ وقت آج یہاں ہے تو کل آپ کی طرف بھی آئے گا

یہاں تو رونے والی بیٹی ہے بیٹے ہیں

اپنا سوچیں

کون ہوگا آپ کے پاس؟

کون دو آنسو بہائے گا؟

اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں

موجودہ وزیر اعظم کا امتحان ہے

کہ

وہ کیا طرز عمل سامنے لاتے ہیں

جو ان کے سیاسی قد کو گھٹا بھی سکتا ہے اور بڑھا بھی سکتا ہے

عمران خان کا موجودہ سیاسی طرز عمل کیا عکاس ہے ریاست مدینہ کا ؟

والی مدینہ پیارے نبیﷺ بڑے سے بڑے دشمن کیلئے ہمدردی کا عنوان تھے

جبکہ

موجودہ سربراہ کی سیاسی مخالفت ابھی تک برقرار ہے

ایسے میں کوئی کیا توقع رکھے کہ کہاں کی فلاحی ریاست اور کہاں کی تبدیلی؟

اقتدار 2018 سیاست سے بزریعہ ووٹ تبدیل ہوتا تو اس میں درندگی اوچھا پن نہ ہوتا

یہاں تو یہ حال تھا کہ

بھارت سے کہیں بڑھ کے ہم نے سیاسی مخالفین سے نفرت کا بازار گرم کیا

اب جب خود اقتدار میں آئے تو سب کچھ واپس بھی ملنا تھا

اس نتیجے سے آگاہ تھے

تمام گندے ٹماٹر اور انڈوں کا یوں خاتمہ کیا

کہ گاڑی کی بجائے ہیلی کاپٹر سے اڑان بھری

یہ تو کوئی بات نہ ہوئی

کہنے کی جرآت تھی تو سہنے کا بھی حوصلہ رکھنا چاہیے تھا

جو 510 ملازمین آپ نے وزیر اعظم ہاؤس سے نکالے ان کے نکالنے کی اصل وجہ کچھ اور ہے

آپ نے تاثر یہ دیا کہ بجٹ کم کر رہے ہیں

میٹنگز مہمانوں کی تفصیل فراہم کرنے والے تمام عناصر کو نکال باہر کیا

یہی وہ لوگ تھے جو ماضی میں اندر کی خبریں آپ کو دیتے تھے

ان سب کو ملازمت سے فارغ کر دیا

نہ رہے بانس نہ بجے بانسری

آج نواز شریف خاندان سے ایک قیمتی شخصیت بیگم کلثوم نواز صاحبہ رخصت ہو گئیں

سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والا خاندان اس وقت صدمے اور دکھ کا شکار ہے

محترمہ کلثوم نواز کی وفات عمران خان آپ کے لئے چیلنج ہے

ایک خاندان جو پابند سلاسل ہے

اس کے لئے بطور وزیر اعظم سیاسی نفرت بھلا کر آپ کیا احکامات جاری کرتے ہیں

ویسے تو آپ کی سیاسی تنگ نظر گھٹی سوچ سے کوئی اچھی اور بڑی توقع نہیں کی جا سکتی

آپ کا مطالعہ مغربی سیاست پر زیادہ ہے جو سفاک اور بے رحم ہے

زباں پر آپ کے ریاست مدینہ کا نام ہے

ریاست مدینہ کے دور کا مطالعہ کریں تو آپ کو

درگزر اور معاف کرنا اہم ترین نقاط دکھائی دیں گے

اس وقت سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپ کو نرم احکامات جاری کرنے ہوں گے

نہ کہ جلتی پر تیلی کام کرتے ہوئے کوئی غیر مقبول سرکاری بیان جاری کریں

کلثوم نواز نواز شریف کی اہلیہ ہی نہیں پاکستان کی ماں بھی تھیں

بیگم نصرت بھٹو ہو یا بے نظیر اب بیگم کلثوم نواز ان سب کی حیثیت مسلمہ ہے

جنہیں کوئی مسخ نہیں کر سکتا

اس سیاست کی ظالمانہ روایات نے سب کو زندگی سے موت کی وادی تک پہنچایا ہے

سوچیں

بیگم کلثوم نواز صاحبہ کو بہترین علاج معالجہ میسر تھا

مگر کیا وہ ان کے شوہر کا مداوا تھا؟

بیٹی کا رشتہ ماں سے کتنا حساس کتنا نازک ہوتا ہے

سوچیں

اس وقت سیاسی قد سے ہٹ کر مریم کا کیا حال ہوگا؟

اس ملک کا ایوان عدل پہلے ایک شخص کو کئی قانونی موشگافیوں کے باوجود مجرم ثابت کرتا ہے

اس پر نا اہل کا لیبل لگاتا ہے

پھر

دوسرے شخص کو ایماندار ڈکلئیر کرتا ہے

اسلام میں کس دور کے قاضی کو ایسی جانبداری کی اجازت تھی؟

تاریخ معاف نہیں کرے گی

آج شوہر سے ملنے کی حسرت بیٹی کو دیکھنے کی تمنا لئے

ایک ماں بالکل ویسے ہی دنیا سے رخصت ہو گئی

جیسے کل بیگم نصرت بھٹو حواس سے عاری دنیا سے چلی گئیں

کب تک اس ملک کی مائیں قیمت چکاتی رہیں گی؟

اس ملک کو دعا کیسے لگے جہاں ماؤں کے دل خون کے آنسو روتے ہوں؟

اللہ پاک سے دعائے خاص ہے کہ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے

اور جنت کے اعلیٰ درجات عطا فرمائے

حکمرانوں کا امتحان ہے کہ

وہ مدینہ کی ریاست کے پیش رو بنتے ہوئے قید لوگوں کو اسلام کے اعلیٰ اصولوں کے تحت فراخدلی سے

موقعہ دیں

کہ وہ

مرحومہ کی تمام رسومات میں شریک ہوں

انتہائی افسوس سے لکھنا پڑتا ہے

اس سے پہلے آج تک ملک میں جتنی سیاسی جماعتیں برسر اقتدار آئیں

سب کی سب جماعتیں بارعب اور متاثر کُن تھیں

مگر

اس بار ہمیں متاثر کُن باتیں سنائی دیتی ہیں

مگر

پردہ سیمیں پر آنے والے تمام کے تمام چہرے بے اثر اور بے رعب ہیں

جب تک یہ سب خود پر اسلامی مطالعے کی ذمہ داری ڈال کر اپنے ذہن کو پختہ نہیں کرتے

تب تک ان کی غیر سنجیدہ گفتگو اور زبانی نعرے بے اثر اور بے مقصد ہیں

ان کے بڑے بڑے اعلانات بھی بچوں کے کھیل لگتے ہیں

مدینہ کہتے ہو تو مدینہ کے حکمرانوں کو پڑہو اور ان کی ذات صفات کو اپنے اوپر حاوی رکھو

پھر

سنجیدہ اعتماد شائد قائم ہو سکے

عمران خان یورپی سیاست نہیں اسلامی طرز عمل اختیار کرو

اسلام کہتا ہے

کہ مومن ایک جسم کی مانند ہیں

اب یہ مظاہرہ دیکھنا چاہتے ہیں

محترمہ بیگم کلثوم نواز کی رحلت پر ہمیں وہ فضا حکومتی سطح پر بھی نظر آنی چاہیے

اپیل کرتی ہوں حکمران جماعت کے کارکنان سے

کہ

اس دکھ کی گھڑی میں وہ روایتی سفاکی کا چولہ نہ اوڑھیں

انسان اور انسانیت کو یاد رکھتے ہوئے

کسی قسم کی توہین آمیز پوسٹ سے اجتناب برتیں

مائیں سب کی ہیں

اس خاندان کے دکھ کو محسوس کریں

دعائیہ کلمات لکھ کر اپنے ذمہ دارانہ رویے کا اظہار کریں

محترمہ کیلئے پاکستان میں دعائیہ تقریبات کا اہتمام ہونا چاہیے

ایک دکھی ماں دنیا سے چلی گئی دل کی حسرتیں دل میں لئے

بیگم کلثوم نواز تو چلی گئی

جیسے نصرت بھٹو گئیں

جیسے بے نظیر گئی

سوال پیچھے چھوڑ گئیں

کیا یہی پاکستان ہے ؟

کیا یہی تبدیلی ہے؟

کبھی ایک ماں تو کبھی دوسری ماں جدائی میں تڑپ تڑپ کر جاں دے دے؟

کون جوابدہ ہے؟

کون احتساب کرے گا؟

کون ذمہ دار ہے؟

کس کو سزا ملے گی؟

کس کو؟؟؟؟؟؟؟؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر