تحریر : شیخ خالد ذاہد محترم اور معزز قارئین! کسی بھی معاشرے کی قدروں کا تعین کرنے والے اور ان کی پاسداری کرنے والے آپ جیسے لوگ ہوتے ہیں کیوں کے آپ کسی کو ہیرو کا درجہ دے کر دنیا میں مشہور و معروف کراتے ہیں اور آپ ہی کسی مجھ جیسے پر سوائے ایک واجبی سی نظر ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ آپ کو قدرت نے اہم ترین ذمہ داری پر فائز کیا ہے اور اپنا خلیفہ بنا کر دنیا میں بھیجا ہے، جی ہاں، ہم سب خلیفہ کے درجہ پر فائز کئے گئے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے مذہبی امور کیلئے یہ خلافت محلے کی مسجد کے امام کو سونپ رکھی ہے اور ملک اور معاشرے کیلئے سیاست دان کو۔ اپنے ذمہ ہم نے ماہانہ یا جمعہ کے جمعہ مسجد میں چندہ دینا یا پھر سیاسی جماعتوں کو ماہانہ بھتہ دینا۔ اب ان اہم ترین ذمہ داریوں کو ہم لوگوں نے اپنے سر سے اتار دیا ہے۔
ہم تو صبح سے شام تک بیوی بچوں اور عزیز و اقارب کی ضرورتوں کیلئے بھاگ دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ جب کبھی الیکشن ہوئے تو کبھی زبان کی بنیاد پر یا برادری کی بنیاد پر یا پھر فرقہ کی بنیاد پر یا پھر علاقے کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کر دیا جاتا ہے اور ایسے فرد کو اپنا نمائندہ بنا کر اپنے مسائل کے حل کیلئے اسمبلیوں کی زینت بنا دیتے ہیں۔ یہ صاحب جو ہم جیسوں کے ایک ایک ووٹ کی وجہ دنیا جہان کی مراعت اور اہمیت کے اہل ٹہرتے ہیں۔ یہ تمام آسائشیں جس کے یہ یقیناً اس وقت تک اہل نہیں ہونے چاہیئں جب تک یہ کچھ کر کے نا دیکھا دیں۔ مگر ہمارے ملک میں کسی سے کام کروانے کیلئے کوئی قانون نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ قانون نہیں ہے، قانون ہے روٹی چوری کرنے والے کیلئے ، پانی چوری کرنے والے کیلئے، چپل چوری کرنے والے کیلئے، جیب کترے کیلئے اور اسی طرح چھوٹے موٹے چوروں لٹیروں کو سزا دینے کیلئے ہے۔ آپ میں اگر ہمت ہے تو کوئی بڑا کام کر لیجئے کوئی آپ کو چھونے کی بھی گستاخی نہیں کرے گا بلکہ آپ کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے گا جیسا کہ ہمارے ووٹوں کی مرہونِ منت اسمبلی ہالوں میں بیٹھنے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے بلکہ آپ کو ان کے ساتھ بیٹھنے کا بلمشافہ ملاقات کا شرف بھی مل سکتا ہے۔
جمہوریت کا بنیادی مقصد ہر خاص و عام کو ایک جگہ، ایک ساتھ کھڑا کرنا ہے مگر ہمارے یہاں تو جو طاقتور ہے وہ کمزور کے کندھے پر چڑھ کر کھڑا ہے اور اپنا وزن بڑھائے جا رہا ہے۔ ان لوگوں میں اکثریت درآمد شدہ لوگ ہیں، جمہوریت کی بقاء کیلئے، جمہوریت کو بچانے کیلئے سارے درآمد شدہ لوگ اکھٹے ہو جاتے ہیں۔
Democracy
جو ہمارے وطنِ عزیز کی مٹی کی مہک سے بھی شناسائی نہیں رکھتے جہیں گلی محلوں کا کچھ پتہ نہیں۔ کون سی سڑک کہاں پہنچاتی ہے اور کتنی ٹوٹی پھوٹی ہے جیسی معلومات سے قطعی نا آشنا، یہ تو سوچ بھی نہیں سکتے کے سڑکوں پر کھڈے بھی ہوتے ہیں کیونکہ یہ جہاں پلے بڑے ہوتے ہیں وہاں تو ایسا سوچا بھی نہیں جاتا۔ ہماری جمہوریت کا دستور ہی نرالا ہے ووٹ بھی ہم (عام آدمی) دیں اور انتظار بھی ہم کریں، لائنوں میں بھی ہم لگیں، ڈنڈے بھی ہم کھائیں، اور خاص آدمی بننے کے بعد ہم اس شخص کو روبرو دیکھنے کو ترس جائیں، علاقے کے مسائل تو بہت دور کی بات ہیں۔
آج جب کوئی قانون کے نفاذ کی بات کرتا ہے قانون کی بالادستی کی بات کرتا ہے تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ کیا ہمارے ملک کی جمہوریت ملوکیت کے ڈھب پر چلائی جاتی ہے ؟ جہاں اقتدار ووٹوں کی گنتی زیادہ ہونے پر تو حاصل کیا جاتا ہے مگر اقتدار کے ملتے ہیں ملوکیت کے قوانین نافذ ہوجاتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جب قانون کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے، جب خاص و عام کا فرق مٹانے کی بات کی جاتی ہے، جب احتساب کی باری آتی ہے تو جمہوریت اور جمہوریت کا نام لیواؤں کو کس چیز کے خطرات گھیر لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی سیاست کی وجہ ہی یہ رہے گئی ہے۔
پاکستان کی اعلی ترین عدلیہ ملک کے صحیح اور حقیقی انتظامی ڈھانچے کی داغ بیل ڈالنے بیٹھ گئی ہے۔ اب وقت بتائےگا کہ یہ عدلیہ اپنی آزادی کا اعلان کرتیں ہیں یا پھر گلے میں غلامی کا طوق ڈالے اپنی بداعتمادی کے سفر پر رواں دواں رہتی ہیں۔ انصاف کی بحالی ہم پاکستانیوں کے لئے سب سے اہم نکات ہے جز ہے سب کچھ ہے۔ بلکہ جہالت کی تاریکی میں انصاف روشنی کی نوید بن کر ابھرنے کو بےتاب ہے۔ پاکستان انتظامی امور کی راہیں متعین کرنے کیلئے آج انتہائی اہم موڑ پر ہے، بات کسی کی عزت اور ذلت کی نہیں بات پاکستان کی ہے اور پاکیستانی کی ہے۔ ہم پاکستانیوں کی ایسا کوئی نظام قبول نہیں ہونا چاہئے جس میں “قانون” نام کی کوئی چیز نہیں ہو چاہے وہ جمہوریت ہو یا ملوکیت ہو یا ڈکٹیٹرشپ۔ ہمیں قانون پر مبنی نظام چاہئے جہاں پاکستانیوں کی ووٹوں کے ساتھ ساتھ ہماری بھی عزت کی جائے۔ ہم کسی بھی نظام کی حمایت کرنے کو تیار ہیں مگر ہمیں قانون کی بالادستی کی یقین دہانی کروائی جائے۔