تحریر : محمد ریاض پرنس آج ہم نے پاکستان کے جمہوری نظام کا وہ حال کر دیا جس کا کبھی اس کو بنانے والوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ کہ ان کے بعد ہم اس ملک کا یہ حال کر دیں گے ۔ آج اگر ہم چاہتے تو ہمارا ملک دنیا کا ایک بہترین ملک بن سکتا تھا ۔ وہ ممالک جو ہم سے کئی سال بعد آزاد ہوئے ۔ آج وہ ہم سے آگے نکل چکے ہیں اور ہم وہیں 1947ء کے دور میں سے گزر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے سوچیں کہ ہم نے ہمیشہ نہیں رہنا ۔بلکہ اس ملک پاکستان نے ہمیشہ رہنا ہے۔ ہم اپنا گھر بنانے کی بجائے ملک کو بنا نا شروع کردیں ۔توہم ان تمام ممالک سے آگے نکل سکتے ہیں۔مگر آج جمہوریت کے نعرے لگا لگا کرہم نے ملک کا بیڑا غرق کر دیاہے ۔ہمارے ملک کا کون سا جمہوری نظام ہے جس نے ملک کو ترقی دی ۔بلکہ جب بھی جمہوری حکومت بنی ۔ملک کی ترقی رک گئی ۔ہمارے ملک کے جمہوری نظام کو آئے روز دھرنوں کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔ان دھرنوں کی وجہ سے ملک کا کتنا نقصان ہوتا ہے کبھی کسی نے سوچا ہے ۔وہ تو صرف حکومت گرانے کی سازش میں غیروں کو خوش کر رہے ہوتے ہیں ۔کبھی کسی لیڈر نے یہ سوچا ہے کہ اس ملک کے ایک عام آدمی کا کیا بنے گا۔یہ جو بڑے بڑے لیڈر بنے پھر تے ہیں ۔ انہوں کبھی ملک کے بارے میں سوچا ہے ۔ جو سال بعد ملک میں انتشار پھیلانے کے لئے ملک اور عوام کے دشمن بن کر ملک کا بیڑا غرق کرنے کے لئے آجاتے ہیں ۔یہ لوگ کس دشمن کی لابی پر کام کر رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو ملک کے اندر نہیں آنے دینا چاہئے ۔ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ حکومت کو چلنے نہیں دیا جاتا۔اگر حکومت کارکردگی نہیںدیکھائے گئی تو پھر ایسے ایشوز کا سامنہ تو کرنا پڑے گا۔مگر یہ ایشوز پر امن ہونے چاہئیں۔
ہمارے ملک میں جب جمہوری حکومت بنتی ہے اس کو کوئی چلنے نہیں دیتا ۔آخر کون ہے جو ہمارے ملک کو کھوکھلا کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ آج تمام ممالک ہم سے آگے نکل کر ترقی کر رہے ہیں ۔ مگر ہم پیچھے کو جا رہے ہیں۔ اس کی آخر وجہ کیا ہے۔ جو ایسا ہو رہا ہے۔اس میں خرابی کس سسٹم کی ہے ۔جو پاکستان کو ترقی کرنے سے روک رہی ہے۔یاپھر ہمارے نمائندے ہم کو ترقی کرنے نہیںدے رہے۔ کوئی نہ کوئی تو اس میں غلط ہے جو ایسا نہیں ہونے دے رہا ۔اس کی سب سے بڑی وجہ آج ہم سب قصور وار ہیں ۔ جوہم پاکستان کو ایک ناکام ریاست بننے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ ہم میں اب وہ جذبہ آزادی نہیں رہا اس لئے ہم کسی کے خلاف آواز بلند نہیں کرسکتے ۔ ہمارے ملک میں آج کو ن محفوظ ۔ کس کو ان کا حق مل رہا ہے۔ کس کو مکمل صحت کے مواقع میسر ہو رہے ہیں۔کون آزاد زندگی گزار رہا ہے ۔ کون ہے جو آج پریشان حال نہیں ۔ اور کون ہے جو آج خوشحال ہے۔ اگر کوئی خوشحال ہے تو وہ سیاستدان ، اگر کوئی آزاداورمحفوظ زندگی گزار رہا ہے تو وہ ہے سیاستدان ،اگر کسی کو علاج کرانے کے لئے بیرون جانا پڑتا ہے تو وہ ہے سیاستدان ، اور اگر کسی کو مرنا ہے تو اس کے لئے ہمارے ملک میں ہی بہت سی علاج گاہ موجود ہیں ۔اگر ہم اپنا علاج اپنے ملک کے اندر نہیں کرواسکتے تو تمام ہسپتالوںکو بند کردینا چاہئے۔اگر ایک غریب پاکستانی کا علاج ہمارے ملک میں ہو سکتا ہے تو ہمارے حکمرانوں اور سیاستدان کیوں ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں،کیا وہ ملک میں محفوظ نہیں ۔وہ تو محفوظ ہیں مگر پاکستانی محفوظ نہیں ہیں۔
Mosque
آج ہماری مسجدیں جو اللہ کا گھر ہے۔ انسان بھولا بھٹکا پریشان مسجد میں جا کر سکون محسوس کرتا ہے اور اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے گناہ کی بخشش چاہتا ہے ،مگر اب وہ بھی نہیں جاسکتا۔کیونکہ ہماری بدنصیبی ہے کہ آج ہماری مسجدیں بھی محفوظ نہیں رہیں ۔ہمار ے لئے کتنی شرم کی بات ہے کہ ہماری عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہی ۔ اب ہم نماز بھی بندوقوں کے سایہ تلے ادا کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔آج ہمارے ملک کو بہت درپیش مسائل کا سامنہ ہے ۔ ہمارے ملک کا سکون چین ان حکمران کی نظر ہو چکا ہے۔کبھی بھی ان کے وعدے وفا نہیں ہوئے ۔ہمارے ملک سے روشنیاں ختم ہو چکی ہیں۔آج ہمارے بچے نہ گھروں میں اور نہ ہی سکولوں میں محفوظ ہیں ۔ آج ہمارے تمام تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے ناقص انتظامات ہیں۔ ہمارے وہ بچے جنھوں نے کل کو پاکستان کو سنبھالنا ہے آج وہی ڈر اور پریشانی کے حال میںتعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ سکول میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت ان کو بندوں کا سامنہ کرنا پڑتا ہے ۔ وہ کیا محسوس کرتے ہوں گے ۔ اور ان کو کیا سبق ملتا ہوگا۔
آج بازاروں اور درباروں میں بھی ہم محفوظ نہیں رہے ۔ کوئی پتہ نہیں کب کیا ہو جائے۔ اس لئے ہمارے بچوں اور ہماری جانوں کی پرواہ ہمارے حکومتی نمائندوں کو نہیں ہے ۔ جب ان کے بچے بازاروں میں جاتے ہیں ان کو مکمل سکیورٹی میسر ہوتی ہے۔ ہمارے بچے مریںیا زندہ رہیں ان کو کیا ۔ ان کے بچے تو محفوظ ہیں ۔ہمارے سیاستدانوں کے بچوں کو مکمل سکیورٹی کے ذریعے گھمایا پھرایا جاتا ہے۔ یا پھر وہ پاکستان میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا اچھا ہی نہیں سمجھتے اس لئے ان کو بیرون بھیج دیا جاتا ہے۔تاکہ وہ محفوظ رہیں ۔ ان کو کوئی بھی تکلیف نہ ہو ۔ جب وہ واپس آئیں گے تو ان کو کیا پتہ کہ ان لوگوںنے کیا کچھ کھویا اور کیا پایا ہے۔ اور انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ برداشت کیا ہے۔
Security
اس لئے ان کو اپنے لوگوں کی قدروقیمت کا علم نہیں ہوتا ۔ وہ تو صرف کرسی سنبھالنے کے لئے پاکستان آتے ہیں ۔آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے ملک میںآج کو ن محفوظ ہے ۔ہمارے ملک میں آج صرف ہمارے سیاستدان ۔حکمران اور ہمارے لیڈر اور ان کے بچے محفوظ ہیں۔ کیونکہ ان کو ہر طرح کی سکیورٹی میسر ہے ۔اور ہم کوایک پاکستانی ہونے کے ناطے ۔مسجدوں ،سکولوں، بازاروں، درباروں، ہسپتالوں، گھروں میں کوئی سکیورٹی میسر نہیں ہم مریں جا جئیں ان کو ہم سے کوئی سروکار نہیں ۔کیونکہ وہ تو محفوظ ہیں ۔ ان کے بچے محفوظ ہیں ۔اور ان کو کیا چاہئے ۔آج کوئی بھی سیاسی پارٹی ملک کے ساتھ مخلص نہیں ۔سب کے سب ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لئے منفی پروپگنڈا کرنے پر لگے ہوئے ۔ کہ کسی نہ کسی طرح یہ لوگ جائیں اور ہم آئیں ۔ ہم کو ایسا جمہوری نظام نہیں چاہئے جس میںیہ سب لوگ تو محفوظ ہوں اور سارا پاکستان محفوظ نہ ہو۔
اگر ہم نے ملک کوبچانا اور ترقی دینی ہے تو ہم کو پاکستان کی کمان ایسے فرشتہ انسان کے ہاتھ میں دینی ہو گی جو سچا پاکستانی اور حضور ۖ کا پیروکار ہو ۔ وہ امریکہ کا ایجنٹ نہ ۔ملک کو اسلام کے قانون کے مطابق ترقی دے اور اسلام کے طرز زندگی پر چلائے۔ وہ ایسے حکمرانوں جیسا نہ ہو کہ جب کرسی سنبھالے تو ککھ پتی اور جب اقتدار چھوڑے تو کروڑپتی بن جائے۔اور جس طرح خود طرز زندگی اختیار کرے اسی طرح ہی سب پاکستانیوں پر لاگو کرے۔اور تمام اداروں کو اپنی اپنی حد کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کے احکامات جاری کرے۔اورتمام پاکستانیوں کو انصاف مساوی طور پر میسر ہو۔تب جا کر ہم ترقی کرسکیں گے۔ اور ہمارا پاکستان آگے بڑھ سکے گا۔نہیں تو پھر جمہوریت زندہ بادکے نعرے لگتے رہیں گے۔اور ہم ساری عمر ان سے مار کھاتے رہیں گے۔