یہ کیسی جمہوریت

Imran Khan and Reham Khan

Imran Khan and Reham Khan

تحریر: ع۔م بدر سرحدی
الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا پر سلگتے ہوئے عوامی مسائل، موضوعات کی بجائے عمران خان اور ریحام خان ہی زیر بحث ہیں کیوں ؟ کوئی بھی موضوع ہو اُس میں طلاق کا بیچ میں ضرور آئے گا ،میں یہ دیکھ اور پڑ ھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ عمران کا نجی مسلہ اسے کیوں ایشو بنیا جارہا ہے اِسے ایک سکینڈل کیوں بنایا جا رہا ہے پشاور میں نیوز کانفرس کرتے ہوئے جب ایک صحافی کے پاس کوئی اہم قومی سوال نہیں رہا تو اُس نے وہی سوال طلاق سے متعلق کیا جس پر عمران خان نے صحافی کو کہا ایسا سوال کرتے ہوئے شرم آنا چائے۔

پھر تمام ٹی وی ،چینلز پر یہی بحث جاری تھی۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا یہ دو دن دیکھنا چاہا مگر یہی فضول بحث جاری ایک ہی بات کو چھتیس مرتبہ چسکے لگا کر رپیٹ کیا جا رہا آخر میں نے ٹی بند کر دیا مگر کو جب صبح کو ٹی آن ہوأ دیکھا پھر وہی خبر ایک بڑے گروپ کے چینل پریہی کچھ دکھایا جا رہا تھا سمجھ نہیں آخر عمران کی ازدواجی زندگی پربحث کیوں ،کیا یہ کوئی پہلا واقع ہے ، ایسے لگتا ہے میڈیا کو شائد اُس کی زندگی میں کوئی ایسا سکنڈل نہیں جس سے …….، ہمارے میڈیا نے اِسے سکینڈل بنا دیا مگر اِس سے کیا ہوگا اِ س سے عوام کو کیا پیغام دینا مقصود ہے ….. پہلے مرحلے کے بلدیاتی انخابات کے نتیجے میں غیر سرکاری نتائج سامنے آئے ،ابھی ٹرن آؤٹ نہیں آیا کہ کتنے فی صد ٹرن آؤٹ رہا مگر پنجاب کے غیر حتمی نتائج کے حوالے سے پرنٹ میڈیا میں یہ شور غوغا ضرور ہے کے پی ایم ایل ن نے میدان مار لیا۔

Pakistani Media

Pakistani Media

یعنی پنجاب کے بارہ اضلاع میں٢٩٩٦،میں سے ٢٦٦٨، نشستوں کے غیر حتمی نتائج کے مطابق نون لیگ نے ١١٩٥ ،نشتیں حاصل کیں،گویا ٢٦٦٨ ،نشتوں میں سے ٥٠ ،فی صد بھی نہیں …لیکن پھر بھی نون لیگ نے میدان مار لیا… یہ جمہوریت جس کا صبح شام میڈیا میں شور ہے ۔اب آزاد امیدوار ١٠٦٥،نشتوں پر کامیاب ہوئے ، اور ٢٨٧،نشتیں پی ٹی آئی نے حاصل کیں، پی پی پی کے حصہ میں ٤٧،ق لیگ کی ٤٤،جماعت اسلامی اور عوامی تحریک کو ، ٢،٢ ملیں اب یہ آزاد اور پی ٹی آئی کی مل کر کُل نشتیں ١٤٤٧، ہیں ،یعنی نون لیگ کی ١١٩٥ کے مقابلے میں ٢٥٢ سیٹوں کی برتری ہے،پہلے کبھی کسی سیاسی حکومت نے بلدیاتی انٹخابات ہی نہیں کرائے ،فوجی حکومتوں میں ہوتے رہے کہ اختیارات نچلی سطح پر جائیں۔

عوام کا بھی رحجان ہوتا ہے کہ حکومتی نامزد کو ووٹ دیا جائے ، کسی سیاسی حکومت کے ڈھائی سال پہلے انتخاب وہ بھی عدالت کے حکم پر ہوئے مگر اس مرتبہ الٹ ہوأ آزاد کو برتری حاصل ہوئی اِس کا مطلب واضح ہے کہ عوام کی اکثریت حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف ہیں جوپی ایم ایل نون کے لئے خطرے کی گھنٹی اور پی ٹی آئی کے لئے سوچنے کا موقع۔ اور پھر جب الیکشن کمیشن کی طرف سے ٹرن آؤٹ فی صد آیا تو پتہ چلے گا کے کتنے فی صد ووٹر نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور کتنے فی صد نون لیگ نے حاصل کئے اور کتنے فی صد ہیں جو نون لیگ کے خلاف گئے ،پھر واضح ہوگا اور کتنے فی صد ہیں جو آئے ہی نہیں….اصل میں فتح آزاد کامیاب ہونے والوں کی جن کا کوئی منشور اور نہ ہی حکومت ایسے کوئی اختیار ہی دے گی کہ وہ عوامی مسائل حل کر سکیں۔اختیارات تو بہر حال حکمران جماعت کے پاس ہیں ،اسکے بعد یہ اختیار کسی حد تک میئر اگر حکمران جماعت کا ہوأ تو اس کے پاس ہونگے۔

Democracy

Democracy

یہ اُس کی صوابدید ہوگی کہ غیروں کو کتنا دیتے ہیں یا باتوں میں …… آزاد یا دوسری جماعتوں کے چئیر مین کو شائد اتنے ملیں کہ گنجی دھوئے گی کیا نچوڑے گی کیا کے مصداق۔مگر یہی رائج الوقت جمہوریت ہے ، مثلاً اگر کل ووٹ کا چالیس فی صد آتا ہے ۔ اِس میںساٹھ فیصد نے حصہ ہی نہیں لیا ،چالیس میں تیس ایک نے لئے اور دس دوسروں نے ،اب محض تیس فی صد ووٹ لینے والے کوستر فی صد پر حکومت کرنے کا حق حا صل ہو گیا ہے ۔یہ ہے اِس دور کی رائج الوقت جمہوریت جس کا صبح شام ہر مقام پر چرچا،مگر اقلیت اکثریت پر حکومت کرتی نظر آتی ہے۔یہ قانون نہیں بن سکتا کہ حکومت کرنے والی جماعت کے لئے کم ازکم کل ووٹ کا ساٹھ فی صد ووٹ حاصل کرنا ضروری قراردیا جائے یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا مگر شائد مسقبل اچھے حالات پیدا ہوں جائیں کہ ایسا قانون بنا دیا جائے ۔مگر کوئی بھی سیاسی جماعت یہ قبول نہیں کرے گی……، کہ ہارنے والے اپنی شکست بخوشی قبول کریں گے ….. ایک رسم ہے کہ جیتنے کی خوشی میں ہار جانے والے کے گھر کے قریب جا کر ہوائی فائرنگ کرنا ڈھول بجانا بھنگڑا ڈالنا کیا کسی مغربی ملک میں بھی ایسا تماشہ ہوتا جس سے شکست خوردہ شخص کی انا بری طرح مجروح ہو جائے اور پھر وہ انتقام کی آگ میں سلگتا ہوأ کیا کرے گا۔

اس دفعہ یہ کیسا جشن تھا کے کتنے معصوم بے گناہ مارے گئے ان کے پسماندگان پر کیا گذری اور مسقبل میں کیا حالات ہونگے یہ کسی کے علم میں نہیں کل یہ بھولی بسری داستان ہوگی ۔ قائد عوام زلفقارعلی بھٹو کی سزاکے خلاف ایک جیالے مسیحی نے خود سوزی کی اور ہلاک ہو گیا وہ ایک بھولی بسری داستان ہے۔ رائج الوقت جمہوریت زندہ باد۔ اِس وقت حکومت نے ایک احسن قدم اُٹھایا ہے کہ سیٹ جیتنے پر جشن یا ڈھول ڈھماکا اور ہوائی فائرنگ کو ممنوع قرار دے دیا اگر حکومت نے اس فیصلے کو آئندہ قابل تعزیر جرم قرار دیا اور اس پر قائم رہی۔ ،اِس یہ ضرور ہوگا کہ آئندہ اچھا ماحول پیدا ہوگا اور دشمنیاں اور خون خرابہ رک جائے گا ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ہارنے والا جیتنے والے کو ہار پہنا کر مبارک دے۔ کیا مغرب میں بھی ایسے تماشے ہوتے ہیں، ہارنے والے کے گھر پر ڈھول ڈھماکے اور فائرنگ جس سے بے گناہوں کا قتل ہو۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع۔م بدر سرحدی