تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم قوم کو ہانکنے والے سیاسی بازی گراِسے اپنی مرضی سے ہا نکے جا رہے ہیں اور یہ بیچاری ہے کہ بھیڑ بکریوںکی طرح اپنے انجام سے بے خبر منہ نیچے کئے چلے چلی جارہی ہے حالا نکہ ہا نکنے والے کو سِوا ئے اپنی کرپشن کے راستے کے عوامی فلاح وبہبود کا کو ئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا ہے مگر پھر بھی یہ کیوں؟اپنے ہا تھ میں ڈنڈا اُٹھا ئے اپنا گلا پھاڑتے مجھے کیوںنکالا؟ مجھے کیوں نکلا ؟ کی آوازیں لگاتا ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ کرتا قوم کو اپنی مرضی کے راستے پر ہا نکے جارہاہے اَب پتہ نہیں کب قوم کو ہو ش آئے گا؟ کب قوم کو اپنی گردن اُٹھا نے اور اپنی درست راہ اور سمت کا تعین کرنے کا موقعہ نصیب ہوگا ؟یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر ابھی تو یہ اپنے مستقبل اور کل سے بے خبر مجھے کیو ں نکالا؟کی رٹ لگاتے ڈنڈے والے اور اِس کے ڈنڈے کے سا ئے میں چلے چلی جا رہی ہے اگرچہ ابھی قوم کو خود کو سنبھالنے اور اپنی درست سمت متعین کرنے کا اچھا موقعہ ہے مگر یہ تو چنے اور جُو کا ستُوپی کر جیسے ٹُن ہو ئی پڑی ہے اِس کی تو آنکھوں میں مجھے کیوں نکالا؟اور اداروں سے لڑنے والے کا خمارچڑھاہوا ہے جو بہت جلد اپنے انجام سے دوچار ہو نے کو ہے۔
بہر حال ،پچھلے دِنوں مُلک میں ہو نے والے سینیٹ انتخابات میں ہار س ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کے بعد چیئر مین سینیٹ کے چناو ¿ کے لئے بھی مُلک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی کے درمیان گھمسان کا رن جاری ہے آج بھی دونوں ہی جماعتیں تمام آئینی قانونی ، سیاسی سماجی اور اخلاقی حدود کو دیدہ دلیری سے اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ کے عمل میںمصروف ہیں۔سوچیں آج جب یہ ایسا کررہی ہیں تو کیا اِن سے آئندہ کسی قا نونی اور آئینی ، سماجی سیاسی اور اخلاقی بہتری کے اچھے عمل کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟ کیو ںکہ آج جب سینیٹ کی بنیاد ہی کرپشن ، ہا رس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ کا غلط طریقہ استعمال کرکے رکھی جا رہی ہے تواِس طرح ساری عمارت ہی کمزور اور غلط تعمیر ہو گی، جس کے سا ئے تلے کرپٹ اور کرپشن کے دلدادہ افراد مُلک اور قوم کی بہتری کے لئے کیا ؟ اور کیسی قانون سازی کریں گے؟اَب آپ اِس کا اندازہ خود ہی لگا لیجئے ..!! آئندہ ہمارے اُوپر کیسے؟ حکمران مسلط ہو ں گے؟بڑے افسوس کی بات ہے کہ مُلک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ کے گھناونے فعل کو بھی جمہوری روایات کا خا ص حصہ سمجھتی ہیں اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہر نا جائز اور غیر آئینی اور غیر قا نونی عمل کو بھی سینہ چوڑا کرکے رائٹ اور درست کہہ رہی ہیں۔
الغرض یہ کہ جیسے آج مُلک میں لگا ہے مصر/ حُسن (ہا رس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ) کا بازارتم کیا کیا خریدوگے؟ جیب میں پیسے ہیںتو مٹی بھی سونے کے بھاو ¿ خرید لو ور نہ دور کھڑے پچھتانے کے عمل سے دونوں جماعتیں خوفزدہ ہیں یہ ٹھیک ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ سے ن لیگ اور پی پی پی دونوں ہی اپنا چیئر مین سینیٹ لا نے کے لئے جا ئز قرار دے رہی ہیں مگر درحقیقت اِن کا یہی عمل آئندہ اِن کے گلے کا طوق ثابت ہوگا کیو ں کہ ہا رس ٹریڈنگ اور جابراََ فلور کراسنگ سے متعلق اعلیٰ عدالتوں نے نوٹس لے لیا ہے اور تحقیقات کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں مگر جب چور وںکا گزر بسر اور دال دلیہ ہی چوری اور کرپشن پر چل رہا ہو تو پھر اِنہیں کسی کا ڈراور خوف نہیں رہتاہے اِن کے گریبان میں قا نون ہا تھ ڈالے یا اِن کی پکڑ ربِ کائنات کرے یہ بے خوف و خطر وہی کرتے ہیں جو اِن کی فطرت میںرس بس گیا ہے آج ایسا ہی کچھ ن لیگ اور پی پی پی والے بھی سمجھ کر کئے جا رہے ہیں۔
بہر کیف ، کیا ا حکمرانو، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کاداروں سے ٹکراو ¿ اور کشیدگی کاجاری عمل سب کچھ لے ڈوبے گا؟ یہ ایک وہ سوال اورنکتہ ہے جو ہر باشعور پاکستا نی ووٹرکو پریشان کئے ہوئے ہے اور وہ یہ بھی سوچ رہاہے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ کہ جس میں اشرافیہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے تو کمر بستہ ہے جبکہ عوام الناس جمہوری ثمرات سے محروم ہیں، کیا اِسی کو کہنے والے جمہور، جمہوریت اور جمہوری عمل کہتے ہیں؟ جس میں عوام الناس کے حصے میں نہ پہلے کبھی خوشیاں آئیں تھیں اور نہ آج عوام کے دامن اور حصے میں جمہوری پھل آئے ہیں۔پچھلے ستر سالوں سے تو عوام کو جمہور، جمہوریت اور جمہوری دیوی کے پنڈتوں نے بے وقوف بنا کر اپنا ہی اُلو سیدھا کیا ہے اور آتے جاتے جمہوری پوجاریوں نے قومی خزا نے کو اپنے اللے تللے کے لئے دل کھول کر استعمال کیا اور کمر پر ہا تھ پونچھ کر چلتے بنے ہیں مگر اِن کے اِس کرتوتِ سیاہ سے مُلک اور عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبے تو دبتے ہی چلے گئے ۔آج سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لئے جوڑ توڑ ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ کے دلدل میں دھنسے حکمران اور سیاستدان بوروں میں روپے بھر کر اراکین سینیٹ کو خریدنے میں مصروف ہیں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اِن کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی ہے ؟ یہ بھی ایک سوال ہے؟ اِن سے کیا کو ئی کبھی یہ پوچھے گا یا سب ٹھیک ہے کی آواز مارکر آگے چلتا بنے گا؟
اِدھر ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ جیسے فعلِ شنیع میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتے اور کا میابی کے جھنڈے گاڑتے ن لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کے سربراہان و کارکنان اور حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیوروکرٹیس کو خبردار کرتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ کے ادارے آئی ایم ایف نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جس نے واہ شگاف انداز سے انکشاف کیا ہے کہ ”پاکستان کے بجٹ اور بیرونی خسارے کو معیشت کے لئے درپیش بڑاچیلنج قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ بڑھتے خسارے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے معاشی استحکام کو خطرہ ہے“جبکہ ہمارے کرتا دھرتاو ¿ں کو اِس خطرے کی فکر ہی نہیں ہے یہ تو سینیٹ میں اپنا چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین لا نے کے لئے فکر مند ہیں یہ اِن دِنوںسینیٹ میں اپنا سینہ ، اپنی گردن اور اپنا طرہ اُونچا رکھنے کی خواہش لئے ہارس ٹریڈنگ اور فلورکراسنگ میںلگے ہو ئے ہیں۔
اَب اِس منظر اور پس منظر میں بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ آج اداروںکو دائرے اختیار میں رہنے کی باتیںکرنے والے خود ہی اپنے اقتدار اور اختیار کے لئے آئینی اور قانونی دائرے سے باہر نکلتے جا رہے ہیں بھلا اِن بھٹکے ہوو ¿ں کی کسی ایسی بات پر کو ئی حق و سچ ہو نے کا گمان کیو ں کر کرے گا؟ جب کہ یہ خود ہی اپنے سیا سی و ذاتی اور اقتداری مفادات کے خاطر بے لگام گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑے چلے جارہے ہیں ایک عام آدمی اِنہیں کیسے صادق اور امین گردا نے گا ؟
تاہم اِن دِنوں ہر با شعور پاکستا نی اس نتیجے پر پہنچاہے کہ مُلک کو اِس کے22/21 کروڑغریبوں اور مزدور ں اوراِن پڑھوں اور جاہلوں نے ستر سالوں میں اِتنا نقصان نہیںپہنچایا ہے جتنا کہ گزشتہ ستر سالوں سے غریبوں ، محنت کشوں ، مزدوروں اور اَن پڑھوں اور جاہلوں سے ووٹ لے کر مسندِ اقتدار پر قدمِ ناپاک رنجافرما نے والوں اور مُلکی ایوانوں میں نرم و ملائم اور گداز کرسُیوں پر بیٹھنے اور ریٹ لال کارپٹ قا لینوں پر چلنے والوں اور قومی خزا نے سے اللے تللے کرنے والوں جمہور اور جمہوریت کی قدم پہ قدم مالاجپنے والوںنے مُلک کو لوٹا کھایا اور آف شور کمپنیاں بنا کر مُلک اور قوم ستیاناس کیا ہے اور اَب پھر..؟۔(ختم شُد)