تحریر : شہزاد سلیم عباسی اللہ کی تمام کتابوں بشمول آخری اور معتبر کتاب قرآن عظیم فرقان حمید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ”اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی اور جس نے ایک شخص کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ”۔ انسانیت کا مطلب ایک دوسرے کے کام آنااورکسی غریب ، مسکین، یتیم اور بے آسرا کے سر پر دست شفقت رکھنا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے ”اے لوگو! بے شک میں نے تمہیں مذکر اور مونث کے جوڑے سے پیدا کیا ، اور تمہیں گروہوں اور قبیلوں میں تقسیم کیاتاکہ تم ایک دوسرے کو سمجھ سکو ،اور بے شک جان رکھو!کہ اللہ کے ہاں سب سے عزت والا’متقی’ ہے ”۔بدقسمتی سے پیارے پاکستان کو دشمن منہوس کی بری نظر لگ گئی ہے جس نے ارض پاکستان میں نفرت ، برادری ، موروثیت اور حرص کی آگ جلا کر ہمارے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ سیاسی و عسکری پنڈتوں نے ملک و قوم کو دائیں اور بائیں بازو کی سیاست ، مذہبی انتہاپسندی ، اسلامی زعم ، مسلکی فرقہ واریت اور فروعی اختلافات و مسائل کی بے فائدہ بھٹی میں ڈال دیا ہے جہاں صرف اور صر ف نفرت کی تربیت دی جاتی ہے ۔یاد رکھئیے ،سیاسی پیچ و خم کو سمجھنا بڑی جواں مردی کا کام ہے جس میںفتح یابی صرف کروڑں اربوں روپے کے انوسٹرز اور ملک و قوم کی عزت و ناموس کو ایک طرف رکھنے والے بازی گروں کی ہوتی ہے ۔ معذرت سے غیر مرئی طاقتیں اور پاکستانی حکمران لازم و ملزوم ہیں جسکااشارہ عمران خان اپنے دھرنے اور نواز شریف اپنی استقبالیہ ریلی میںکر چکے ہیں۔ عوام کاسچا یا جھوٹا فلسفہ ہے کہ دائیں بازو والے جمہوریت پسند جب کہ بائیں بازو والے عسکری حکومتوں کے قیام میں دلچسپی رکھتے ہیںاور پاکستان میں دائیں اور بائیں بازئوں کی سیاسی جماعتوں میں تعمیری مقابلہ سازی سے زیادہ سیاسی مخاصمہ اور جمہوری تخریب سازی نظر آتی ہے۔
سر سیداحمد خان، مولانا ابو الاعلی مودودی،مولانا ابو الکلام آزاد، شبیر احمد شاہ اور مفتی ہند جیسے اعلی اکابرین نے کبھی سیاست کو مذہب یا اسلام سے الگ نہیں سمجھا ، یہ لوگ تو’ جد ا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی’پر کاربند تھے ۔ سیا ست الگ ہے اوردین و مذہب الگ ہے (بنیادی طور پر یہ ان لوگوں کی سوچ ہے جو سیاست و مذہب اور ووٹ کے چنائو کے عمل کو الگ رکھ کر جہالت پر مبنی ایک فکری و سیاسی لکیر کھینچناچاہتے ہیں جہاں وہ چنائو کے وقت عوامی مینڈیٹ ہتھیا سکیں اور اپنی مسندوں کو دوام بخش سکیں )۔ مذہبی لوگوں میں سے کچھ مسالک اور علماء و مفتیان ووٹنگ سسٹم سے اختلا ف کرتے ہیں۔ کوئی انقلابی بابا کیساتھ ہیںاور بعضے ڈاکٹر اسرارکی تحریک کیساتھ مگن ہیں ۔دوبڑی مذہبی و دینی جماعتیں جو کہ شاید کُل آبادی کا 80 فیصد ہیں جو نام لیتے ہیں اسلام، دین اور مذہب کا لیکن ووٹ کے وقت ناحق کو ووٹ ڈال کر اپنے So Called جلسے ، ریلیاں ، مکالمے، مناظرے اور مجادلے جاری رکھتے ہیں۔ بقول ڈاکٹراقبال : مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے ، من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا۔
ہمارا دشمن انگریز کہا کرتا تھا کہ اگر مسلمانوں پر حکمرانی کرنی ہے تو پھر انہیں جاہل اور نابلد رکھو یہ کبھی سر نہ اٹھائیں گے ۔ آج یہ کام ہمارے چاروں صوبوں کے حکمران بڑی خوبی و مہارت سے تعلیم اور آگاہی کو حقیقی معنوں میں عوام سے دور رکھ کر سر انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے حکمران بھی انگریزوں کے وفادار ہوا کرتے تھے بلکہ اب تک ہیں اسی لیے کچھ جراثیم ہمارے حکمرانوں میں موجود ہیں اور وہ غلامانہ سوچ کے باعث لوگوں کو تین بنیادی چیزوں تعلیم، صحت اور صاف پانی سے محروم رکھے ہوئے ہیں تا کہ محرومیوں کے باعث لوگوں کو آگاہی نہ ہوسکے کہ ووٹ کتنی بڑی طاقت ہے۔
فکر طلب بات ہے کہ کبھی قائداعظم کی سوچ پر لوگو ں کو ٹارگٹ کیا گیاتو کبھی علامہ اقبال کی شاعری سے متاثرہ لوگوں پر اعتراضات لگائے گئے۔ ایوب خان کورسوا کرکے اتارنے والوں کی اپنی فکر ہے اور جنرل ضیاء الحق مرحوم کی وفاداری پر دشنام طرازی کرنے والوں کی بھی ایک معقول تعداد ہے ۔بھٹو کوکچھ آئین اور ایٹمی پروگرام کے کرم فرما کے طور پر یاد کرتے ہیں تو کچھ بھٹو کو مشرقی پاکستان کی علیحد گی اور ادھر تم ادھر ہم کا مطلق ذمہ دار سمجھتے ہیں۔پاکستانی بے نظیرکو عالمی سطح کی لیڈر اور قاضی حسین احمد کو عالمی و اسلامی امہ کا بڑا محسن قرار دیتے ہیں۔
ایک سوچ جنرل یحی، جنرل مشرف ، شجاع پاشا اور راحیل شریف کے ماننے والوں کی بھی ہے۔آج کی جمہوری طاقتوں میں میاں نواز شریف ، آصف علی زرداری ، عمران خان، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، اسفند یار ولی، فاروق ستار اور دوسری چھوٹی پارٹیوں کے متوالے ، جیالے اور چاہنے والے بھی ملتے ہیں۔ راقم کا اس بے ڈھنگی تقسیم یعنی رائٹ اورلفٹ کی سیاست کے نام سے شدید اختلافات بھی ہیں اور تحفظات بھی ہیںکیونکہ سیاست اور جمہوریت صحیح غلط یا اچھے برے کا نام تو ہو سکتا ہے لیکن دائیں بائیں کا نام نہیں ۔دائیں اور بائیں بازوکی سیاست کسی نظریے یا فکر کا نام نہیںہے بلکہ ذاتی و صفاتی بندربانٹ ،من کی تسکین بجھانے اور سیاسی افق پر عوام کو پریشان اور بے وقوف بنانے کے لیے ایک غیر منصفانہ اور من گھڑت تقسیم ہے جس کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ عوام کو بے چین کرنے کے مترادف ہے ۔ عوام وہ طاقت ہیں جو حکمرانوں کو ایوانوں میں بٹھاتے ہیں اس لیے عوامی استحصال کو روک کر جمہوریت کو عوام دوست اور عوام کوحقیقی معنوں میں جمہوریت کی روح قرار دیا جائے۔