تحریر: ایم سرور صدیقی کل ایک شخص نے سوال کیا۔۔۔توہین ِعدالت کیا ہے؟ میں حیرت سے اس کو تکنے لگا۔۔۔بولا میں نے ایک چھوٹی سی بات پوچھی ہے آپ مجھے ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے میں مسئلہ فیثا غورث پوچھ بیٹھا ہوں۔۔۔ میں نے جواباً کہا سب جانتے ہیں کسی بھی عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر توہین ِ عدالت لگتی ہے عدالت ِ عطمیٰ کا ایک حکم نہ ماننے پر ایک وزیراعطم کو ملنے والی چند سیکنڈ کی سزا نے انہیں الیکشن میں حصہ لینے کیلئے نااہل قراردیدیا تھا ۔۔۔۔یار توہین ِ عدالت اتنی خوفناک ہوتی ہے؟۔۔ اس نے پھر پوچھا۔۔۔خوفناک نہیں۔میں گویا ہوا۔عدلیہ کااحترام سب پر قرض ہے لوگوں کے دلوں سے یہ احترام ختم ہو جائے تو انصاف کا کبھی بول بالا نہیں ہو سکتا۔۔۔اس نے کہا۔توہین ِعدالت کے مرتکب افرادکو سزا دینا بھی عدالتوں کی ذمہ داری ہے نا!۔۔۔میںنے کہا یقینا۔۔۔۔وہ شخص بولا عدالتیں کئی سالوں سے بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم دے رہی ہیں سابقہ چیف جسٹس نے بھی درجنوں مرتبہ حکم دیا جو حکمرانوں نے ہوا میں اڑا دیا اور آج تک بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔
ان حکمرانوں پر توہین ِ عدالت کیوں نہیں لگی؟ یہ عدالتی حکمران ماننے سے کیوں انکاری ہیں؟ میں گم سم چپ چاپ اس کی تلخ ترش باتیں سننے پر مجبور تھا کہ ایسی باتوں کا کیا جواب دوں۔۔یہ تو کوئی قانون دان ہی بہتر بتا سکتا ہے۔۔۔۔میں تو اتنا جانتاہوں بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات ڈکٹیٹروں کی چھڑی کے اشارے سے ہوئے ہیں۔۔۔ آج پارلیمنٹ میں درجنوں سیاستدان ایسے موجود ہیں جو بلدیاتی اداروں کی پیداوار ہیں بنیادی جمہوریت کے اس پلیٹ فارم پر کام کرنے والے ہمیشہ فعال کردار کے حا مل رہے لیکن اس کے باوجود بلدیاتی امیدواروں کے ساتھ ایسا سنگین مذاق کیا گیا جس کی دنیا بھر میں کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے 80 ہزارسے زائد بلدیاتی امیدواروں کے ساتھ ہاتھ ہوگیا دو دوبار فیسیں جمع الیکشن کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ چیئر مین، وائس چیئر مین کے ہزاروں امیدوار وںنے مشکل صورت ِ حال کے باوجود اپنے پینل مکمل کئے بیشتر کونسلروں کی سیکورٹی فیس بھی ذاتی گرہ سے جمع کروائی، فلیکس، سٹکر، اشتہار، بینربنائے اور انتخابی دفتر قائم کئے ووٹروں سپورٹروں کی ضروریات کا خیال رکھا،آئے گئے کی انتخابی دفاتر میں بریانی، چائے، بسکٹ اور مٹھائی سے تواضح کی جاتی رہی ہر امیدوارنے لاکھوں روپے خرچ کر ڈالے لیکن الیکشن ملتوی ہونے سے سب مٹی ہو گیا۔۔
الیکشن کمیشن کا یہ اعلان کہ جو امیدوار فیس جمع کروا چکے ہیں انہیں دوبارہ فیس جمع نہیں کروانا پڑے گی اس اعلان پر تو عملاً عملدرآمدہوتا نظر نہیں آرہا اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ نئی حلقہ بندیاں بننے سے فیس کے ساتھ الیکشن کمیشن کوجمع کروائے تمام پینل ٹوٹ جائیں گے۔ بلدیاتی انتخابات کاالتواء جلدبازی کے فیصلوںکا نتیجہ ہے جس کا عوام پر اچھا تاثر نہیں پیدا ہو ا موجودہ حالات میںحلقہ بندیوں کیلئے یہ وقت موزوں ہے الیکشن شیڈول کااعلان کرکے حکومت مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کروا سکتی ہے یہی بہتر، سہل اور آسان طریقہ ہے۔ ملتوی ہونے کے بعد امیدو ار اور ان کے حواری، ووٹر سپورٹر ایسے ٹھنڈے ہو گئے ہیں جیسے برائلر مرغی ۔۔۔بارات لیٹ ہوجانے باعث دیگوں میں پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔۔بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی بہت سارے لوگ پینٹر، فلیکس، کاغذ، پریس والوں کے ساتھ ساتھ دیہاڑی دار”سرگرم ِ عمل ہو گئے ” تھے جو لوگ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے تھے وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ منہ دھونے بلکہ سچ جانئے تو نہانے لگ گئے تھے امیدوار کے انتخابی دفاتر اور ڈیروں پر ڈھول بجتے تو اچھے خاصے لوگ لڈیاں ،دھمال ڈالتے اورنعرے لگاتے بریاتی کھا کر گھروں کو لوٹ جاتے کئی جیبوںمیں نوٹ بھی لے جاتے پھر اچانک اس ماحول کو کسی کی نظر لگ گئی جہاں الیکشن کی ہا ہا کار مچی ہوئی تھی وہاں الو بولنے لگے اور بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے سے کئی دہاڑی لگانے والوں کے منہ لٹک گئے اس کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے چہرے بھی مر جھا گئے ہیں بیشتر امیدواروںنے اپنے انتخابی دفاتر بند کر دئیے ہیں۔
در اصل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد شروع دن سے ہی مشکوک تھا اس میں حکومتی بے حسی کا زیادہ دخل کہا جا سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت، بیور و کریسی اور خاص طور پر ارکان ِ اسمبلی اختیارات تقسیم کرنا ہی نہیں چاہتے بلدیاتی انتخابات ہو نے سے عام آدمی بھی اختیارات کی دوڑ میں شامل ہو جاتا جو اس ٹرائیکا کو گوارا نہیں تھا۔یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اس کے باوجود جمہوریت کے دعوے کرنے والوںکی کوئی کمی نہیں اب معلوم نہیں یہ ڈھٹائی ہے یا سیاست۔۔۔کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ ن لیگ اپنی ممکنہ شکست کے خوف سے بلدیاتی انتخابات نہیں کرنا چاہتی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب ترک وزیر اعظم جو خود ماضی میں ایک بلدیاتی ادارے کے میئر رہ چکے ہیں لاہور میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا تو پاکستانی حکام کے ساتھ استنبول کے میئر کا تعارف کروایا گیا جب انہوں نے لاہور کے میئر بارے استفسار کیا تو ہر بات پر ترکی کو فالو کرنے والے حکمرانوں کی حالت دیدنی تھی پھر انہوں نے جلدی سے ایک سابق لارڈ میئر کو آگے کردیا ۔بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ جنرل مشرف کا تجویز کردہ ضلعی حکومتوں کا نظام عوام کے بہترین مفادمیں تھا جس کے تحت ملک بھر میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام اس دور میں ہوئے اس لئے اس سسٹم کو جمہوریت کی بنیاد بھی کہا جا سکتا ہے۔ جس کی بدولت نہ صرف اختیارات نچلی سطح پر تقسیم ہوئے بلکہ عوامی مسائل بہتر انداز سے حل ہونے میں پیشرفت ہوئی۔
Municipal Election
اس وقت کئی مسلم اور مغربی ممالک میں ضلعی حکومتوں پر مبنی بلدیاتی نظام اپنی بھرپور افادیت کے ساتھ کام کررہا ہے پاکستان میں بھی اس سسٹم کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے اس نظام میں ترمیم کرکے مزید مؤثر بنانے کی ضرورت تھی۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہ کر وانے کے اعلان سے عوام کوعملأ بیور کریسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو اب چھوٹے چھوٹے مسائل حل کروانے کیلئے افسروں کی منتیں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ،حالانکہ ناظمین یا چیئر مین اور کونسلر عوام کے منتخب نمائیدے ہوتے ہیں بلدیاتی اداروں میں سرکاری ایڈ منسٹریٹر تعینات کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ لوکل باڈیز کے حوالہ سے عوام میں پیپلز پارٹی با رے کوئی اچھا تاثر نہیں ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس کی صف میں شامل ہوگئی ہے جو پہلے ہاتھ دھو کر ضلعی بلدیاتی سسٹم کے پیچھے پڑی رہی پھر اس نے گذشتہ پانچ سال بھی بلدیاتی الیکشن کروانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی جوسمجھ سے بالاتر ہے بلدیاتی سسٹم جو بھی ہو عوام کی خدمت کا مؤثر ذریعہ ہے اب مسلم لیگ ن کی حکومت نے ضلعی حکومتوں کے نظام کو ہی فالو کرکے ناظم کا نام چیئر مین اور نائب ناظم کو وائس چیئر مین کا نام دے کر نیا لو کل باڈیز ایکٹ تیار کیا تھا یعنی یہ ضلعی حکومتی نظام کا جدید ایڈیشن ہے ۔۔۔ حالانکہ خامیاں دور کرکے ضلعی حکومتوں کے نظام کو مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔
کتنا ستم ظریف تھا وہ آدمی قتیل مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا
ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات ڈکٹیٹروں کی چھڑی کے اشارے سے ہوئے ہیں شاید تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرائے گی لیکن ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم اور ہماری جمہوری حکومتوں کو تاریخ کے اس چکر سے بچائے۔۔۔۔ ویسے ایک تجویز ہے کہ عدلیہ اور حکومت مل کر ایک ایسا آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دے جو حکومتی اداروں کی کشمکش اورانکے اثر سے واقعی آزاد ہو۔۔۔جو وقت ِ مقررہ پر صوبائی، قومی اور بلدیاتی انتخابات کے انعقادکو یقینی بنانے کیلئے خودبخود کام کرتا رہے۔ آخر میں آپ سے ایک سوال ہے جمہوریت کے دعویدار بھی عوام کو انکے بنیادی حق سے محروم رکھ کر بلدیاتی انتخابات نہ کروائیں تو پھراس ادا کو آپ کیا نام دیں گے؟ ڈھٹائی ۔۔یا۔سیاست؟