تحریر: ملک محمد سلمان قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہمارے ملک میں مخلص اور دیانتدار سیاسی لیڈر شپ ناپید ہو گئی تھی اور اس خلاء کو پورا کرنے کے لیے طالع آزما لیڈر شپ نے جنم لیا اس خطرناک لیڈر شپ نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جمہوریت پر ایسے ظالمانہ وار کئے اورشدید نقصان پہنچا یا بلا آخر یہ بے چاری لولی لنگڑی ہو کر رہ گئی۔
مفاد پرست لیڈروں کے مسلسل اقتدار میں رہنے سے ملک کو ایک تو صاف ستھری صحیح انداز میں لیڈر شپ نصیب نہ ہوسکی اور دوسرا یہ کہ آمریت کو مسلسل فروغ ملا جس سے جمہوری ادارے نیم جان ہو کر رہ گئے اور ذرائع ابلاغ کو ذاتی تشہیر کا ذریعہ بنا لیا گیا۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی بھاگ ڈور ہمیشہ سے جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے ہاتھوں میں جکڑی رہی ہے۔جس نے مجبور و بے کس جمہوریت کو دولت کے بل بوتے پر خریدے رکھا اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کی بجائے ذاتی جاگیر سمجھ کر لوٹ کھسوٹ کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے ملکی دولت سے اپنی تجوریاں خوب بھریں موجودہ صورتحال یہ ہے کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عوام جمہوریت کو پسند تو کرتی ہے لیکن دل سے قبول نہیں کرتی ۔اس کی اصل وجہ ملک میں مخلص اور دیانتدارانہ قیادت کا فقدان اور طالع آزما لیڈروں کی بھر مار ہے۔ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے جن بنیادی عوامل کی شدید ضرورت ہے اس سے انحراف بھی خود غرض سیاستدانوں کی عادت بن گئی ہے ۔فلور کراسنگ کی پابندی کے باوجود ارکان اسمبلی کے روز بروز فارورڈ بلاک کی مسلسل تشکیل نے اس بات کو سچ کر دکھایا ہے کہ جمہوریت کی اصل قاتل یہ سیاسی لیڈر شپ ہی ہے جو اپنے مفادات کو عوامی مفادات پر ہر گز قربان نہیں کرنا چاہتی اور جمہوریت کے استحکام کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنے کی متمنی ہے۔
Insaf
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جمہوریت میں بھی غریبوں کو سستے بھائو انصاف ملتا ہے نہ ہی ان کے چھوٹے موٹے مسائل کا قلع قمع ہوتا ہے وہ بیچارے دکھوں کے مارے سسک سسک کر اپنی زندگی گزار دیتے ہیں ۔چوکیاں تھانے ،عدالتیں ثالثی کونسلیں یہ سب کے سب ادارے غریبوں اور دکھ کے مارے لوگوں کیلئے نہیں ہیں بلکہ یہاں بھی سیاسی اور صحافتی بلائوں اور آفتوں اور کالے جنوں کا قبضہ ہے ۔تھانے اور چوکیوں میں بھی کسی شریف آدمی کوبیٹھے نہیں دیکھا بلکہ دو نمبری صحافیوں ،کن ٹٹے سیاسی ورکروں اور پولیس ٹائوٹوں اور مخبروں کو اکثر براجمان دیکھا ہے۔ بعض تھانے اور چوکیوں کے سربراہوں ،اہلکاروں اورسیاسی ٹائوٹوں کے ساتھ شراب پیتے اور کباب کھاتے دیکھا اور سنا ہے۔
امید تھی کہ مارشلائوں کے ظلم سے تنگ آئے سیاستدان اور افسران اپنا قبلہ درست کرکے جمہوریت کو چار چاند لگائیں گے غریبوں ،مفلسوں اور مسکینوں کے مسائل و مشکلات کا مداوا کرنے کے جتن کریں گے مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا مارشلاء جاتا ہے خوردونوش کی اشیاء بازار سے غائب ہو جاتی ہیں ذخیرہ اندوزوں اور تاجروں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں مگر غریبوں ،مسکینوں اور بے سہار ا لوگوں کے مسائل بڑھ جاتے ہیں یہ لوگ سیاسی ڈیروں پر سارا دن زمین پر بیٹھ کر اپنی انگلیوں سے دائرے بناتے بناتے تھک ہار کر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسا ہنر نہیں ہوتا جو وہ کسی ایم پی اے یا ایم این اے کو رام کر سکیں ایسے ڈیروں پر سیاسی ٹائوٹوں کن ٹٹے ورکروں اور دو نمبریوں کو چودراہٹ نصیب ہوتی ہے اور پھر یہ لوگ ڈیروں پر آئے ہوئے مجبور بے کس لوگوں سے سودے بازی کرتے ہیں اور اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں جو دے جائے اس کو دیدار کرا دیا جاتا ہے ورنہ یہ لوگ تسلی کے جام پی کر اپنے گھروں کو چل دیتے ہیں۔
متذکرہ حالات میں ملک کی اقتصادی،معاشی حالت روز بروز دگرگوں ہوتی جا رہی ہے۔سرمایہ کا ری کا عمل سست پڑ رہا ہے، صنعتی ترقی کا عمل رک گیاہے۔ امن و امان درہم برہم ہو رہا ہے۔غیر ملکی سرمایہ کار ایسی صورتحال میں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں۔تعلیمی سرگرمیاں مانند پڑ رہی ہیں۔سنگین جرائم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔بااثر افراد قانون کو ہاتھ میں لے کر نقص امن کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔سیاسی مصلحتوں نے غریب عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔جنگل کا قانون فروغ پا رہا ہے۔شریف آدمی کی عزت نفس سر بازار مجروح کی جا رہی ہے۔انصاف خاموش ہو رہا ہے ۔ظلم کی سیاہ راتیں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔یہ ملک کے تمام سیاستدانوں کے لیے ایک عظیم لمحہ فکریہ ہے کہ اب ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔اور انہیں ان سے کس طرح عہدبرآہ ہونا چاہیے۔
Democratic System
ہر مملکت کی ذمہ داری اور فرض منصبی ہے کہ وہ اپنی علاقائی سالمیت اور اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ آزاد جمہوری نظام کا بھی تحفظ کرے عوام کی رائے اور قومی خودمختاری کا تحفظ سب سے مقدم ہے ۔خواہ کچھ بھی ہو مملکت کا یہ فریضہ کسی صورت متاثر نہیں ہوتا۔ ایک خودمختار جمہوری مملکت کو اپنے دفاع کی صلاحیت پر ہر طور برقرار رکھنی چاہیے۔ جمہوری مملکت کو مستقبل کے نادیدہ حالات سے نمٹنے کا پوری طرح اہل ہونا چاہیے۔ لیکن قومی سالمیت صرف فوجی دفاع تک محدود نہیں ۔ہمیں سلامتی سمیت کئی نئے خطرات درپیش ہیں۔اس کے اسباب بہت پیچیدہ ہیں۔ان سے نمٹنے کے لیے مربوط اور دور رس سیاسی نظریے کی ضرورت ہے جس میں سفارتی، اقتصادی ،سماجی ثقافتی پہلوئوں کے ساتھ ساتھ فوجی اقدامات بھی شامل ہیں۔
حالات کا تقاضا ہے کہ ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں علاج سے زیادہ احتیاط پر توجہ دی جائے اور بحران و تنازعات کو شدت اختیار کرنے سے پہلے حل کر لیا جائے۔ خارجہ سلامتی او اقتصادی پالیسی کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔اجتماعی سلامتی، بین الاقوامی یکجہتی میں تعاون اور بحرانوں کے خلاف باہم اشتراک سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہمارے ملک کی سلامتی سے متعلق پالیسی کی بنیاد ہے۔کیونکہ ہم خود کو ایک وسیع تر برادری کا حصہ اور اتحادی سمجھتے ہیں۔ ہمارے سیاسی نظام کی بدقسمتی اور بدنصیبی یہ رہی ہے کہ فوج اقتدار پر مسلط ہو کر جانے کا نام نہیں لیتی۔جو سیاستدان فوج کو اقتدار میں آنے پر مجبور کرتے ہیں پھر وہی فوج پر انگلیاں بھی اُٹھانا شروع کر دیتے ہیںبار بار فوج کو اقتدار میں آنے سے جہاں اس کے وقار کو زک پہنچی وہاں جمہوری نظام بھی متزلزل ہوا۔
اب امید رکھنی چاہیے کہ سیاستدان ایسی غلطیاں نہیں دہرائیں گے جس سے فوج اقتدار پر قابض ہو کر جمہوریت کی بساط لپیٹ دے ۔۔لہٰذا اب سیاستدانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سیاسی یکجہتی، برداشت ،رواداری اور محب الوطنی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اختلافات و تنازعات مٹا دیں۔ایک جگہ پر بیٹھ کر پُرا من فضا کو جنم دیں۔ملکی گھمبیر مسائل کا مثبت حل تلاش کریں۔ایک دوسرے پر یہ الزام لگا کر سیاسی فضا مکدر نہ بنائیں کہ فلاں فلاں فوج کی پیداوار ہے اور فلاں فلاں امریکہ کو بندے دے کر ڈالر کماتے ہیں۔اگر ہم گریبان میں جھانکیں تو بلی خود بخود تھیلے سے باہر نکل آئے گی۔
Malik Mohammad Salman
تحریر: ملک محمد سلمان 0300-8080566 35102-1159407-1