جمہوریت خطرے میں ہے

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : محمد نواز بشیر
اسلام آباد میں 2 نومبر کو منعقد ہونے والے سیاسی دنگل کے سلسلہ میں تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں عمران خان اور اس کی پارٹی خیبرپختونخوا کی حکومت کے ساتھ مل کر زیادہ سے زیادہ لوگ 2 نومبر کو اسلام آباد لانے کی کوشش کر رہے ہیں عمران خان کا کہنا ہے کہ اب حکومت سے 2 نومبر کو اسلام آباد میں ہی پانامہ پیپرز پر بات ہوگی ،وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں 2نومبر کو ہونیوالا دھرنا کوئی پہلا دھرنا نہیں ہوگا،اس سے قبل بھی متعدد بار اسلام آباد کو سیاسی طور پر فتح کرنے کیلئے اسلام آباد پر چڑھائی کی جا چکی ہے۔

پہلی مرتبہ 1979ء میں اسلام آباد پر چڑھائی کی گئی تھی، اس دھرنے اور احتجاج کے دوران امریکی سفارتخانے کو آگ بھی لگا دی گئی تھی اور چند لوگ بھی اس دھرنے میں مارے گئے تھے اس وقت کی حکومت نے دھرنا دینے والوں کے لیئے نیا کمیشن تشکیل دیا تھا،دوسری مرتبہ 2جولائی 1980ء کے پہلے ہفتے اسلام آباد کے پاک سیکرٹریٹ پر قبضہ کرلیا گیا تھا ،ایک ہفتے سے زائد جاری رہنے والے اس دھرنے میں متعدد افراد بھی مارے گئے تھے۔تیسری اور چوتھی مرتبہ 4 جولائی 86 19اور اپریل 1987ء کو ملک میں شریعت کے نفاذ کیلئے حکومت پے دبائو ڈالنے کیلئے لوگوں کی بڑی تعداد اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی،اس احتجاج کے دوران کوئی جانی ومالی نقصان نہیں ہوا تھااگلا احتجاج ملعون سلمان رشدی کے خلاف تھا اس احتجاج کے دوران چودھری اعتزاز احسن پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر داخلہ تھے،یہ احتجاج کسی جانی نقصان کے بغیر ختم ہوگیا تھا لیکن ساتھ ہی حکومت کو بھی جانا پڑا،ان کے علاوہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنے تو مشہور ہی ہیں،آخری مر تبہ 4 اگست 2014ء میں ڈاکٹر طاہر القادری اور تحریک انصاف نے اسلام آباد پرچڑھائی کی،یہ دھرنے مہینوں تک جاری رہے اور بے نتیجہ ختم ہوگئے اب 2نومبر 2016ء کو ایک بار پھر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری ایک ساتھ مل کر اسلام بند کرنے کا پروگرام بنا چکے ہیں دونوں جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف تلاشی دیں یا استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں ان کا کہنا ہے کہ کرپشن اور حکومت مل کر نہیں چل سکتے۔

البتہ بہت سے لوگ بدستور یہ سوال کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اب اس معاملہ پر غور کا آغاز کر چکی ہے ابھی عمران خان کی اندرخواستوں پر بھی فیصلہ ہونا باقی ہے جن میں نواز شریف اور اسحاق ڈار کو کام کرنے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری انتشار اور انارکی پیدا کرنے کے سوا 2 نومبر کے احتجاج سے کیا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے عمران خان کے دعوؤں اور دھمکیوں کے باوجود ملک کے عوام کو یقین دلایا ہے کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ملک میں انتخابات شیڈول کے مطابق 2018 میں ہی ہوں گے ،حکومت کے وزراء بھی زوردار بیان بازی کے ذریعے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو نیچا دکھانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں چند دن پہلے فیصل آباد میں مفتی محمود کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ وہ پاناما پیپرز کے نام پر اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں، ادھر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کابینہ کے دیگر ارکان کی طرف سے ان الزامات کے بعد کہا ہے کہ عمران خان اور مولانا سمیع الحق کے علاوہ دیگر انتہا پسند گروہ اسلام آباد میں شرپسند عناصرکو لانا چاہتے ہیںایک طرف تقریبا 20 کروڑ وہ عوام ہے جو ہر روز اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ انکے ووٹوں سے منتخب ہوکر حکمرانی کے مزے لوٹنے والی حکمران جماعت ان کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کرے گی کب پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا اور کب عوام کے چہروں پر خوشحالی کا رنگ چمکے گا مگر ہمارے ہی ووٹوں سے ہم پر مسلط ہونے والوں نے نہ صرف ملک کو قرضوں کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے بلکہ غریب عوام کو مہنگائی اور ٹیکسوں کی دلد ل میں بھی دھکیل دیا ہے اور یہ شائد اسی لیے یہ سب ہو رہا ہے کہ الیکشن کے دنوں میں غریب کو دو وقت کی روٹی کھلا کر دوبارہ پھر ووٹ حاصل کرلیے جائیں گے۔

Democracy

Democracy

کیونکہ ہمارے الیکشن میں اب یہ رواج بن چکا ہے کہ ووٹروں کو ہی خرید لیا جائے کسی کو روٹی کے چکر میں کسی کو چائے کے لالچ میں اور کسی کو پیسوں سے خرید لیا جائے اسی لیئے غربت نے ہمارے ملک کے بیشتر ووٹروں کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے اور ان میں قوت فیصلہ کی اسی خامی کا فائدہ اٹھا کر سیاستدان ہم پر مسلط ہو کر بادشاہی کا خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں یہاں تک کہ حکمران الیکشن ہونے کے بعد اپنے ہی حلقہ میں عوام کو منہ دکھانے نہیں آتے اور جس حلقہ سے ووٹ لیکر وزیراعظم اور وزیراعلی منتخب ہوتے ہی انکے ووٹر بھی انکو نہیں مل سکتے اس سے بڑی بد قسمتی اور بدنصیبی اور کیا ہو گی کہ ایک ووٹر اپنے جیتے ہوئے امیدوار کو ہی نہ مل سکتا جو جیتنے کے بعد ملک کی تقدیر کا مالک بن جاتا ہے ہمارے حکمرانوں نے جمہوریت کو صرف تماشا بنا رکھا ہے جب انکا دل چاہا جمہوریت کی ڈگڈگی نکالی اور بجاناشروع کردی عوام تو ہماری پہلے ہی فارغ ہے جہاں مداری نے تماشا لگایا وہی مجمع لگ جاتا ہے ہمارے اکثر عوامی مقامات جیسے بس اڈے،ریلوے اسٹیشن اور مختلف بازاروں میں اپنی مختلف قسم کی ادویات بیچنے کے لیے مجمع ساز چند کھلونوں اور قصے کہانیوں سے درجنوں لوگوں کو جمع کرلیتے ہیں اور پھر گھنٹوں مزیدار باتیں کرنے کے بعد اپنا منجن اور دوائی بیچ کرہزاروں روپے کی دیہاڑی لگا لیتا ہے حالانکہ مجمع میں موجود ہرشخص یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے کہ جو دوائی ہم لے رہے ہیں وہ کسی کام کی نہیں مگر پھر بھی وہ مداری کی باتوں میں آکر اسکی دوائی خرید لیتے ہیںاسی طرح ہمارے سیاستدان بھی الیکشن کے دنوں میں آکر عوام کو اپنی باتوں سے بیوقوف بناتے ہیں اور اپنا منجن بیچ کر چلے جاتے ہیں ہمارے لوگوں میں سیاسی شعور بھی ہے۔

عقل اور سمجھ بھی ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ حکمرانوں کا کام صرف لوٹ مار ہی کرنا ہے مگر اس کے باوجود وہ ہر بار ان کے جھانسہ میں آکر اپنا ووٹ دے کر انہیں بادشاہ بننے پر مجبور کردیتے ہیں ہم نے اپنے ووٹ کو ڈالنے سے پہلے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جتنے امیدوار ہیں ان میں سے بہتر کون ہے جو کل کوہمارے درمیان ہی رہے گا نہ کہ وہ الیکشن کے فوری بعد لاہور یا اسلام آباد شفٹ ہوجائے گااور پھر اگلے الیکشن میں ہی دوبارہ نظر آئے گا اسی لیئے سپریم کورٹ یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جمہوریت میں حکمران عوام کے قریب ہوتے ہیں ہر خوشی اور غمی میں شریک ہوتے ہیں مگریہاں تومعاملات ہی الٹ ہو چکے ہیں۔حکمرانوں اور انکے حواریوں نے جمہوریت کو سرعام ننگا کر کے الٹا لٹکا رکھا ہے جیسے ہمارے تھانوںمیں غریب انسان کو الف ننگا کرکے الٹا لٹکایا جاتا ہے اور پھر بد ترین تشدد کرکے پولیس والے اپنی ذہنی تسکین پوری کرتے ہیں بلکل ایسے ہی ہماری جمہوریت کو ہمارے حکمرانوں نے اپنی ذہنی تسکین کا زریعہ بنا رکھا ہے کبھی جمہوریت کا سربازار مجرا کروادیاجاتا ہے تو کبھی جمہوریت کو اپنے پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے کبھی جمہوریت کو اپنے خاندان کی حفاظت پر چوکیدار بنا دیا جاتا ہے تو کبھی جمہوریت کو پرانے کپڑوں کے ساتھ تبدیل کر دیا جاتا ہے یہ کہاں کی جمہوریت ہے کہ جمہوری حکمران اپنے سردرد کا علاج بھی یورپ میں جاکر کروائیں۔

جمہوریت کے لیے جان دینے والی عوام اپنے علاج کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھائیںمحب وطن اور عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے اعلی افسران کھڈے لائن جبکہ کرپشن کے ماہر اور جی حضوری کرنے میں ماہر چھوٹے افسر اعلی عہدوں پر صرف اس لیے تعینات کر دیے جاتے ہیں تاکہ وہ حکمرانوں کی جوتیوں پر سے نظر اٹھا کر بات نہ کرسکیں تو ایسی لولی لنگڑی جمہوریت میں پاکستان قرضوں کی دلدل میں ڈوبتا جائے گا ہر آنے والا بچہ اپنی پیدائش سے قبل ہی مقروض پیدا ہوگا اور غلام نسل کے بادشاہ حکمران یونہی لوٹ مارکرتے رہیں گے ہماری عدالتیں یونہی اپنے ریمارکس دیتی رہیں گی اور ہم ان مداریوں کے یونہی تماشائی بن کر اپنا وقت برباد کرتے رہیں گے کیونکہ ہم غلام ہماری جمہوریت تماشا اور ہمارے ادارے معذور بن چکے ہیں اور یہ ہماری مکمل بربادی تک یونہی جمہوری مجرا چلتا رہے گا۔

Nawaz Bashir

Nawaz Bashir

تحریر : محمد نواز بشیر
[email protected]