تحریر اسکوائر کی عوامی جدوجہد کو حق اور اس جدوجہد کو کچلنے کی کوششیں کرنے والے حکمرانوں کو ابلیس و یزید قرار دینے والے تمام ہی سیاسی اکابرین جمہوریت کے نام پر متحد و مجتہد ہوکر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی آزادی اور انقلابی جدوجہد کو غیر آئینی قراردے چکے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر حکومت یا خاندانی و جاگیردارانہ سیاسی نظام کے تحفظ کیلئے متحد ہونے والوں کے اس طرز عمل نے حکمرانوں کے غیر قانونی اقدامات کیخلاف ایک درست ایف آئی آر کے اندراج اور حصول انصاف کیلئے اسلام آباد میں سترہ روز سے دھرنے میں موجود پاکستانی نظام سیاست سے مایوس پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری اور ان کے کارکنان عدلیہ اور افواج پاکستان کی جانب سے بھی مایوسی کا شکار ہونے کے بعد پسپائی اور پارلیمنٹ کی تحلیل کے مطالبے سے دستبرداری کے ساتھ استعفے کیلئے وزیراعظم کو مزید ایک ماہ کی مہلت فراہم کرنے پر مجبور ہوکردیا مگر ان کی اس پسپائی اور شاہراہ دستور سے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے ان کے آخری پرامن احتجاج کو ”بدنامی “ میں تبدیل کرنے کیلئے پنجاب پولیس کی شکل میں انتظامیہ میں پہنچائے ”گلو بٹ“اور قادری کے اجتماع میں داخل کئے گئے ”پومی بٹ “ کے کرداروں نے اپنا رول بہت بھرپور انداز سے ادا کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے پاکستان کی تاریخ کا بدنام ترین منظر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی جس کی بیشتر ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انتظامی تشدد سے صرف مظاہرین کی ہی تواضح نہیں کی گئی بلکہ میڈیا نمائندگان کے ساتھ بھی” سبق آموز“ سلوک کے ذریعے نہ صرف سانحہ ماڈل ٹاون کی نقاب کشائی کا بھرپور بدلہ لیا گیا بلکہ چینل مالکان تک یہ واضح حکومتی پیغام بھی پہنچایا دیا گیا کہ حکومت کو ”اے آر وائی “ کسی صورت برداشت نہیں ہے بلکہ جو ”جیو “ بنے گا وہی جی سکے گا اور ”سماء“ بننے کی کوشش بھی کسی طور برداشت نہیں کی جائے گی اسلئے ہر چینل کو جاری رہنے کیلئے ”جیو“ بننا ہوگا یعنی اب ہر پاکستانی کو جینے کیلئے صرف اور صرف ”جیو “ ہی کہنا ہوگا۔
پنجاب پولیس کی جانب سے چینل مالکان اور میڈیا نمائندگان تک پہنچائے جانے والے اس پیغام کو منافق و مفاد پرست صحافیوں نے خاص مسکراہٹ سے قبول کرتے ہوئے حکومتی بین پر سر ہلانا اور حکومتی ”جیو “ راگ الاپنا شروع کردیا ہے مگر نظریاتی صحافیوں نے اس پیغام کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ فوج کیخلاف سازشیں کرنے اور میڈیا کو کئی دھڑوں میں تقسیم کرنے والے عوام دشمن طبقات جو ملک وقوم کوسے غداری کے باوجود ڈیل کے ذریعے بیرون ملک فرار ہونے اور قومی دولت باہر لیجانے والے اب کی بار نہ تو احتساب سے بچ سکیں گے ‘ نہ سعودی یا یہودیوں کی مدد سے باہر فرار ہوسکیں گے اور نہ ہی حب الوطنی کے لیبل میں چھپائی گئی ملک و قوم سے غداری اب زیادہ دیر تک قوم کی نظروں سے اوجھل رہ پائے گی ۔ دوسری جانب سانحہ ماڈل ٹاون کی ایف آئی آر کے اندراج میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے طبقات نے مذاکرات میں ناکامی کے بعد عمران خان اور طاہرالقادری کیخلاف محض دوروز میں غداری کا مقدمہ درج کرادیا ہے جس کے بعد حکومت و مظاہرین کے درمیان خونریزی کے آثار صرف واضح ہی نہیں ہونے لگے ہیں بلکہ ان کا اظہار بھی ہونے لگا ہے جس کے بعد حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومتی درخواست پر صلح کار کاکردار ادا کرنے والی فوج وزیراعظم کے درخواست سے انکار کے باعث ملنے والی بدنامی کے باجوداپنے فریضے کے ادائیگی میں دو قدم مزید آگے بڑھ آئی اور آرمی چیف کی سربراہی میں ہونے والے کور کمانڈرز اجلاس میں قومی معاملات کو سیاسی مصالحت کے ذریعے جلد سے جلد حل کرنے کے عندیئے نے جہاں خورشید محمود شاہ سمیت جیسے دیگر جمہوریت پسندوں کو اطمینان و تسلی عطا کی وہیں گزشتہ روز اسلام آباد میں سترہ روز سے پر امن دھرنے کے شرکاءکی پارلیمنٹ کی جانب پیش قدمی سے خوفزدہ ہوکر پنجاب پولیس کے ذریعے چنگیزی مظالم ڈھانے اور میڈیا نمائندگان کو اس فرعونیت کو عوام تک پہنچانے سے روکنے کیلئے یزید کو بھی مات دینے والوں کو بھی طاقت کے استعمال سے بازرہنے پر مجبور کر دیا۔
فوج کی غیر جانبداری نے جبر کی روایت کو جمہوریت قرار دیکر لاہور ماڈل ٹاون میں قتال کرنے والوں کو اسلام آباد میں شریفی جمہوریت کی تجدید سے روکنے کے ساتھ لاتوں ‘ گھونسوں ‘ ڈندوں اور بندوقوں کے استعمال کو ہی عزت و شرافت اور بہادری و اعزاز جاننے والی” پنجاب پولیس“ کے ہاتھ بھی باندھ دیئے اورمخالفین حکومت کو بھی پیغام دے دیا کہ فوج نہ تو اقتدار میں آنے کی خواہش رکھتی ہے ‘ نہ جمہوریت کا بسترا گول کرنے کا کوئی ارادہ ہے البتہ عوامی و قومی مفادات کیخلاف اقدامات کیلئے حکومت کی بیجا حمایت کی روایت کے اعادے کی بھی قائل نہیں ہے مگر آئین و قوانین اور قومی مفادات کے منافی اقدامات کیخلاف سیسہ پلائی دیوار کا کردار ضرور اداکرے گی خواہ وہ اقدامات انقلاب مارچ والوں کے ہوں ‘ آزادی مارچ کے کھلاڑیوں کی جانب سے منظر پر آئیں یا جمہوریت کے متوالوں کی جانب سے کئے جائیں۔
افواج پاکستان کا یہ کردار یقینا پاکستان کی 68سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ مثالی و قابل توصیف ہے مگر عوام جس مشکل سے دوچار ہیں اور حکمران طبقے پر دھاندلی کے ذریعے انتخابی فتح کے ساتھ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس کی جانب سے انتخابی دھاندلی میں ملوث ہونے کے اقراری بیانات منظر عام پر آجانے کے بعد مقتدر ٹولہ نہ صرف حکمرانی کے اخلاقی جواز سے محروم ہوچکا ہے بلکہ عوامی رائے عامہ بھی مخالفانہ شکل اختیار کرتی جارہی ہے جس کے بعد فوج سے جمہوریت کی بجائے ملک و قوم کے تحفظ کیلئے کردار کی ادائیگی کا عوامی مطالبہ بڑھتا جارہا ہے اور اس مطالبے کے تسلیم میں پس و پیش اور فوج کا صبر اب عوام کے صبر کا امتحان بن چکا ہے جس کی بناءپر سترہ روز سے پر امن دھرنا دینے والوں نے مایوس ہوکر پارلیمنٹ کی جانب پیش قدمی کی اور وہ حالات پیدا ہوئے جن کے باعث آرمی چیف کور کمانڈرز کانفرنس اور سیاسی حل جلد نکالنے کے اعلان پر مجبور ہوئے۔
Corps Commanders’ Conference
انقلاب کے متوالوں کی پنجاب پولیس کے ہاتھوں دھلائی اور میڈیا کو دیئے جانے والے حکومتی پیغام نے افواج پاکستان کوکور کمانڈرز کانفرنس کے انعقاد اور سیاسی انداز سے معاملات فوری سلجھانے کے پیغام کے اجراءپر مجبور کردیا جس کے بعد حکومتی طرز عمل میں تبدیلی واقع ہوئی جبکہ انقلاب اور آزادی کے متوالے شاید اس پیغام کو سمجھنے میں غلطی کر بیٹھے اور اسی وجہ سے انہوں نے پارلیمنٹ کی جانب بڑھنے والے اپنے قدموں کو روکنے کی بجائے پیشقدمی جاری رکھی اور جس کے باعث پیر کی صبح موسلا دھار برسات کے ساتھ پولیس اہلکاروں اور مظاہرین میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں پولیس کی کمان سنبھالنے والے ”دبنگ “ فیم پولیس آفیسرایس ایس پی عصمت اللہ بھی زخمی ہوگئے اور مظاہرین پارلیمنٹ ہاوس تک میں داخل ہوگئے جہاں موجود فوجی دستوں نے کمال صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین کو ایک حد سے آگے نہ بڑھنے کا پابند کیا اور مظاہرین نے اس پابندی کو تسلیم کرکے نظم و ضبط کا جو کمال مظاہرہ کیاوہ بھی یقینا مثالی ہی کہلایا جاسکتا ہے جبکہ مظاہرین کی جانب سے پاکستان ٹیلیویژن سینٹر پر قبضے اور توڑ پھوڑ کی حوصلہ افزائی یا تعریف تو کسی طور نہیں کی جاسکتی یہ یقینا قابل مذمت عمل ہے مگر ٹی وی سینٹر کی عمارت پر قبضے کرنے والے مظاہرین سے فوج کی عزت کی خاطر پر امن واپسی کی فوجی ذمہ داروں کی اپیل پر مظاہرین کی پر امن منتشری اور واپسی یقینا پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں تھرڈ امپائر کی موجودگی کا اشارہ ہے جس کے بعد زرداری حکومت کیخلاف مسلسل سوموٹو ایکشن لینے والی عدلیہ کی جانب سے نواز حکومت پر لگائے جانے والے الزامات پر مسلسل خاموشی کے بعد اچانک ”ثالثی “ کی کوشش اور تحریک انصاف و پاکستان عوامی تحریک کے وکلاءکو ایک گھنٹے میں قیادت کے فیصلے سے مطلع کرنے کے احکامات کے بعد سیاسی گیم میں ایک نیا ٹوئسٹ آچکا ہے اور دانشور یہ سمجھنے سے محروم ہیں کہ سپریم کورٹ قومی فریضہ اداکرنے کیلئے میدان میں آیا ہے یا حکومت کی درخواست نے اسے میدان میں کودنے پر مجبور کیا ہے یا پھر تھرڈ امپائر بالر یا بیٹس مین کے حق میں فیصلہ دینے کیلئے سپریم کورٹ کو گراونڈ امپائر بنانا چاہتا ہے تاکہ تھرڈ امپائر کے فیصلے سے انحراف و مخالفت کا کوئی امکان نہ رہے اور ہر سمت سے اس فیصلے کو تائیدو توثیق حاصل ہو سکے۔
Democracy
دیکھنا یہ ہے کہ لاہور ماڈل ٹاون میں جبر کو جمہوریت ثابت کرنے کی کوشش سے شروع ہونے والے تحریک انصاف و پاکستان عوامی تحریک کی جدوجہد اپنی منطقی منزل مارشل لاءتک پہنچنے والی ہے یا پھر عمران خان اور طاہرالقادری کے اعلانات اور متحدہ قومی موومنٹ و جماعت اسلامی کی خواہشات کے تحت فوج کی نگرانی میں قومی حکومت تشکیل پانے والی ہے یا پھر جمہوریت کے نام پر خاندانی اور جاگیردار مافیا ایک بار پھر اپنا تحفظ کرنے میں کامیاب ہونے والی ہے پردے کے پیچھے چھپا یہ سچ 68سالوں سے غلام قوم کے سامنے آنے والا ہے جس کی آزادی کی جدوجہد ابھی محض سترہ روزہ ہے اور اتنی محدود جدوجہد کی کامیابی کے آثار تاریخ میں تو کہیں نہیں ملتے۔