تحریر : سید توقیر زیدی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ نواز شریف احتساب سے بچ گئے تو ملک کا کوئی مستقبل نہیں رہیگا’ ساری قوم کو چاہئے کہ باہر نکل آئے اور پاکستان کے اداروں پر دبائو ڈالے اور اس وقت تک سڑکوں پر رہے جب تک انصاف نہیں مل جاتا۔ وہ گذشتہ روز لاہور میں تحریک احتساب ریلی کے آغاز اور راستے میں مختلف مقامات پر خطاب کر رہے تھے۔ عمران خان نے کہا کہ نواز شریف چار سوالوں کا جواب دیں۔ کیا آپ نے حلال پیسوں سے لندن میں جائیداد خریدی؟ پیسہ کہاں سے ؤیا؟ ملک سے باہر کیسے گیا؟ کیا اس پر ٹیکس ادا کیا گیا؟عمران خان نے کہا کہ ان سوالوں کے جواب نہ دیئے گئے تو عید کے بعد رائیونڈ جائیں گے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے راولپنڈی میں قصاص، سالمیت پاکستان مارچ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا اسلام آباد جانا ہے یا جاتی عمرا، دونوں آپشنز موجود ہیں۔
آئندہ کا لائحہ عمل باہمی مشاورت سے طے کریں گے، شریف برادران سکیورٹی تھریٹ ہیں، بھارت کی مدد سے پاور پلانٹ لگا رہے ہیں کلبھوشن کی کالز کا ریکارڈ ان کی مل سے ملا۔ ان کی ملوں میں تین سو بھارتی جاسوس ہیں۔ شریف برادران کے اتحادی بھی پاکستان کے دشمنوں کے پے رول پر ہیں۔ حکومت نے اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر جمعہ کے روز مردان اور ایل او سی پر حملہ کرایا، پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازش کی۔ ان کو سارے جرائم کا حساب دینا ہوگا۔ تحریک قصاص جابرانہ اقتدار کے خاتمے تک جاری رہے گی۔نواز شریف نے ضرب عضب ناکام بنانے کیلئے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ جب بھی حکومت دبائو میں آتی ہے ملک میں دھماکے شروع ہو جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے تین ستمبر کے جلسوں، احتجاج اور مظاہروں کا بڑا شور تھا۔ ان کے حامیوں نے ان سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں جبکہ دوسرے کیمپ یعنی حکومت کے حامی ”نہ جانے کیا ہو جائے” کے خدشات میں مبتلا تھے۔ دونوں پارٹیوں نے ریلیوں پر پورا زور لگایا۔ لاہور اور پنڈی میں رات کے پچھلے پہر تک کہیں رونق لگی رہی کہیں عوام ٹریفک میں پھنس کر بیزار ہوتے رہے۔ راستے بند ہونے سے مریض تڑپ تڑپ گئے ایک بچے اور خاتون کی ہلاکت کی اطلاعات بھی ہیں۔ ان ریلیوں سے کسی کی توقعات پوری ہوئیں نہ خدشات درست ثابت ہوئے تاہم وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے بقول لاہور میں پی ٹی آئی کی ریلی کی وجہ سے ایک دن میں 4 ارب کا نقصان ضرور ہوا۔ مال روڈ کے تاجر اپنے کاروبار بند ہونے پر ایک سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔
Tahir-ul-Qadri
حکومت کے نکتہ نظر سے 3 ستمبر کا دن خیر سے گزر گیا مگر احتجاج کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ عمران خان نے چار سوالوں کا جواب نہ ملنے کی صورت میں عید کے بعد رائیونڈ جاکر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ طاہر القادری نے اسلام آباد اور رائیونڈ میں سے دھرنے کیلئے کسی ایک جگہ کا انتخاب ابھی کرنا ہے۔ بادی النظر میں طاہر القادری اور عمران خان ایک ہی دن ایک بار پھر حکومت پر یلغار کرینگے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ ان کے کینیڈا جانے پر اعتراض کیا جاتا ہے میں دنیا میں جہاں بھی جائوں کسی کو کیا تکلیف ہے۔ طاہر القادری نے بجا کہا کہ وہ دنیا میں جہاں مرضی جائیں مگر ان کے کینیڈا جانے اور وقفے وقفے سے پاکستان ا? کر شہروں کو مفلوج کرنے کی کوششوں پر اس لئے اعتراض ہے کہ انہوں نے کینیڈین شہری ہونے کے ناطے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے جو ان کی پاکستان کے ساتھ وفاداری کو مشکوک بناتا ہے۔ دہری شہریت کے حامل پاکستانی ممبر پارلیمنٹ بننے کے اہل ہیں نہ ان کو کسی اہم عہدہ پر تعینات کیا جا سکتا ہے، اس طرح آئین کی رو سے بھی ان کی پاکستانیت کا اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے تاہم طاہر القادری نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کو محض ان کی ”نیم پاکستانیت” کے باعث نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں جو الزامات لگائے ان کے مبینہ ثبوت بھی لہرا لہرا کر پیش کرتے رہے۔ ان کے شدید نوعیت کے الزامات سنجیدہ انکوائری کے متقاضی ہیں۔
گو طاہر القادری دہری شہریت رکھتے ہیں تاہم وہ پاکستان سے محبت کے بھی دعویدار ہیں۔ پاکستان سے ان کی محبت کا تقاضہ ہے کہ وہ ان الزامات کو عدالت میں لے جائیں۔ ان میں صداقت ہوئی تو ایسے الزام کے حامل لوگوں پر آرٹیکل 6 یقیناً لگے گا مگر طاہر القادری الزامات عدالت میں لے جانے کے بجائے فوج کو پکار پکار کر ایکشن لینے کا کہہ رہے ہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ ان کے پاس یہ ثبوت کہاں سے آئے، کیا مولانا کی انٹیلی جنس ان اداروں کو بھی مات دے گئی جن کا کل وقتی کام ہی ملک دشمنوں پر نظر رکھنا اور ان کی سرگرمیوں کا سراغ لگانا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے بار بار شریف برادران کا نام لے کر ان کو ملک کیلئے سکیورٹی تھریٹ قرار دیا۔ ان الزامات سے بہت سے لوگوں کے ذہن میں شکوک پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائدین خود یہ معاملہ عدالت لے جائیں۔ وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے دیا جائے۔ صورت حال جوں کی توں رہنے دی گئی تو اپوزیشن ان الزامات کو طعنے کے طور پر اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ اب تک ہر جانے کا دعویٰ دائر ہو جانا چاہئیے تھا۔ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ عمران خان نے نہ جانے کس برتے پر کہہ دیا کہ وزیراعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالا جائے۔ جب تک طاہر القادری کے الزامات کی تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتی ان کو بھی پاکستان میں رہنے کا پابند کیا جائے۔
قصاص تحریک حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ جاری ہونے سے طاہر القادری کے الزامات کو تقویت ملی ہے۔ دوسری جے ا?ئی ٹی سے بھی ملزموں کو بچانے کی کوشش کا تاثر ملتا ہے۔ تاہم اصولی طور پر طاہر القادری باقر نجفی کمشن کا حوالہ نہیں دے سکتے، انہوں نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا، جے آئی ٹی سے تعاون سے بھی انکار کیا تھا۔ قصاص تحریک کو سانحہ ماڈل ٹائون کی غیر جانبدارانہ تحقیقات سے کیس کو منطقی انجام تک پہنچا کر کشیدگی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔طاہر القادری مذہبی سکالر ہیں۔ ان سے بہتر اخلاقیات کون جانتا ہو گا وہ اپنے طرز سخن پر ذرا غور کریں۔ فلاں کے گلے میں پھانسی، فلاں کو لٹکانے کی باتیں مناسب نہیں۔
Democracy
عمران خان کی تحریک ایک معمہ ہے۔ وہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ جس اپوزیشن کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں وہ ان کو چکمہ دے جاتی ہے۔ ان کو کبھی بلاول تک کنٹینر پر کھڑے نظر آتے ہیں کبھی وہ تنہا اس دشت کی سیاحی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ پانامہ لیکس کا معاملہ الیکشن کمشن لے گئے۔ پھر سپریم کورٹ گئے جہاں رجسٹرار نے ان کے اس اقدام کو ہی غیر سنجیدہ قرار دیدیا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ پھر سپریم کورٹ جائیں گے۔ جب آپ معاملہ الیکشن کمشن لے گئے، سپریم کورٹ جا رہے ہیں اور آپ کی نمائندگی پارلیمنٹ میں بھی ہے تو پھر تحریک احتساب کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ الیکشن کمشن اور سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔ عمران خان اور طاہر القادری اپنے جلسوں میں فوج کو پکارتے رہتے ہیں اسے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جس کا کم از کم عمران خان کو حصہ نہیں بننا چاہیے۔ جمہوریت کا تحفظ کرنا ہر پارٹی کا فرض ہے۔ تحریک انصاف کی تو ایک صوبے میں حکومت اور وفاق میں قابل ذکر نمائندگی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ معاشی بحران سے نہ نمٹنے پر ماضی کی حکومتوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ تین سال میں بہتری آئی، آج معیشت پھر بحال ہو رہی ہے۔ وزیراعظم صاحب آج کل موٹرویز، سڑکوں اور پاور منصوبوں کے افتتاح اور جلسوں میں اپنی حکومت کے کارنامے شمار کراتے نظر آتے ہیں۔ زبانی جمع خرچ سے عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ پانامہ لیکس پر وزیراعظم خود کو کئی بار احتساب کیلئے پیش کر چکے ہیں۔