تحریر : سید توقیر حسین جمہوری نظام کو اِس لئے بہتر کہا جاتا ہے کہ اس میں مسائل باہمی طور پر بحث کر کے حل کرنے کی صلاحیت اور گنجائش ہوتی ہے، اِسی لئے اس نظام میں ضد اور انتہا پسندی کو اچھا خیال نہیں کیا جاتا، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ معاملات بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے طے کریں، جن ممالک میں اس پر عمل کیا جاتا ہے وہاں منتخب ایوان کو بڑی ہمیت دی جاتی ہے اور اجلاس تسلسل سے ہوتے ہیں، ان میں تلخ و ترش رویہ اور باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، لیکن مجموعی طور پر ماحول تعاون کا بن جاتا ہے تاہم ہمارے مْلک کا انداز ہی نرالا ہے۔ یوں بھی یہاں ابھی ایوان کی کارروائی جاری رکھنے اور مسائل طے کرنے کا کلچر ہی نہیں بنا، حزب اقتدار کا انداز اپنا اور حزب اختلاف کا اپنا ہوتا ہے، قائد ایوان دوسری مصروفیات جاری رکھتے اور ایوان کو اہمیت نہیں دیتے، اپوزیشن والے بھی اپنی ضرورت کے تحت ہی ایوان کی کارروائی میں حصہ لیتے ہیں۔
موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو جو اب ہونے جا رہا ہے یہ پہلے بھی ہو سکتا تھا اور پاناما لیکس پر بات چیت اور ایوان میں کارروائی ہو سکتی تھی، سنجیدگی اختیار کی جاتی تو وزیراعظم ایوان میں آ جاتے اور پھر شاید شور ہوتا تو تھم بھی جاتا اور نوبت یہاں تک نہ آتی کہ آپ سے کہا جائے، اب حزب اقتدار کی طرف سے وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے اطلاع دی کہ وزیراعظم جمعہ کو ایوان میں آئیں گے۔ آپ کسی طرح بھی تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کریں، لیکن اب کوئی بھی نہیں مانے گا کہ یہ فیصلہ رضاکارانہ ہے۔ گزشتہ روز کی ملاقات اور خبر سے واضح ہے کہ کون کیا چاہتا ہے، حزب اختلاف کی طرف سے اگر پانامہ کے 499افراد کو چھوڑ کر ایک ہستی وزیراعظم کو ہدف بنایا گیا تو وزیراعظم کی طرف سے بھی طلال چودھری اور دانیال عزیز جیسے لوگ اس ڈیوٹی پر ہیں کہ اعتراض کا جواب بڑے الزام سے دیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ اب سبھی اس حمام میں ننگے ہیں، کتنے نام آئے اور کون کون آف شور کمپنی کا مالک ہے اب کوئی پردہ نہیں رہ گیا۔
Nawaz Sharif
وزیراعظم محمد نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے اور ان کو انتہائی تجربہ کار اور زیرک جانا جاتا ہے، لیکن وہ ایک سرمایہ دار اور صنعتکار ہیں، ان کے مزاج میں حاکمیت ہوتی ہے وہ بھی صنعتکار جیسی ہوتی ہے کہ سب ان کے ملازم اور کوئی بولے تو بولے کیوں، لیکن یہاں جمہوریت میں تو ایک عام رکن بھی سب کچھ کہہ سکتا اور اسے ووٹوں سے منتخب کیا جاتا ہے اور پھر مْلک کے جو آئینی ادارے ہیں اگر آپ ان سے آئینی حدود کی پابندی کا تقاضا کرتے ہیں تو پھر آپ کو بھی آئینی اور جمہوری حدود کا خیال رکھنا ہو گا، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزراء منگل کو قائد حزب اختلاف سے ان کے چیمبر میں رابطہ کرنے سے پہلے بات کر لیتے کہ خورشید شاہ نے لمحہ بھر کے لئے بھی انتہائی موقف اختیار نہیں کیا، حتیٰ کہ متحدہ اپوزیشن وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر مکمل اتفاق نہیں کر سکی، بات صرف ٹی او آرز کی تھی جن کی صورت یہ تھی کہ مذاکرات سے معاملہ طے ہو جاتا، اب بھی مذاکرات ہوں گے، لیکن اب بات کھل گئی ہے۔ آپ لاکھ بات بنائیں، لیکن تاثر تو یہ ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے آگاہ کر دیا کہ احتساب ضروری، کیونکہ کرپشن جاری آپریشنوں کو متاثر کر رہی ہے۔
اب جو کچھ بھی ہو گا وہی ہے جو اس سے پہلے مذاکرات ہوتے تو ہو جاتا۔ اب یہ زبان زد عام ہے کہ پنجاب میں صوبائی حکومت کی مرضی کے خلاف آپریشن کی وجہ سے جو تناؤ پیدا ہوا، اس میں اور بہت سی باتیں شامل ہو گئیں جن کا تعلق خارجہ امور سے بھی ہے، چنانچہ ایک صفحہ والی بات نہیں تھی، بعض لکھاریوں نے مختلف انداز میں اور بعض بااثر حضرات نے کھل کر لکھا کہ ایک صفحہ والی بات درست نہیں اور یہ اب ثابت ہو رہی ہے اب تو یہ بھی کھل گئی کہ وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے جنرل راحیل شریف کے گھر جا کر ملاقات کی تھی، پھر ان کی اور چودھری نثار کی کوشش سے منگل والی ملاقات اور میٹنگ ہوئی اور اس کی خبر بھی کئی پہلوؤں سے شائع ہو گئی۔ بہرحال اب بھی ضرورت ہے کہ ڈائیلاگ میں تاخیر نہ کی جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے زیرک انسان کو تاخیر کا فائدہ نہیں نقصان ہوا تھا۔یوں بھی پارلیمینٹ ہی صحیح فورم ہے اس پر آیئے،ہمیں تو سید خورشید شاہ سیاست دان لگے ہیں ان کو جو بھی چاہے کہہ لیں۔