جمہوریت ایک دلچسپ نظام ہے جہاں عوام اکثریت کے ساتھ کسی کو منتخب کرتے ہیں اور اقتدار دیتے ہیں۔اس کے باوجود لفظ ‘اکثریت’ خود اپنے آپ میں غیر واضح ہے۔عموماً اکثریت کا لفظ لوگوں کی بڑی تعداد یا کثرت کے لیے استعما ل ہوتا ہے۔لیکن اس کے یہ معنی باالکل بھی نہیں ہیں کہ لوگوں کی بڑی تعداد یا کثرت کو ،فیصد کے اعتبار سے بھی ثابت کیا جاسکے۔ہاں یہ بات درست ہے کہ من جملہ تعداد کا سب سے زیادہ حصہ جس شخص یا گروہ کو حاصل ہو جائے اسے اکثریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ ایک پارٹی جس نے الیکشن میں حصہ لیا اسے کل ووٹ شیئر کا 38%فیصد ووٹ حاصل ہوا۔بظاہر اس نے تمام پارٹیوں کے مقابلہ سب سے زیادہ ووٹ شیئر اور سیٹیں حاصل کیںلیکن اس فیصد اور کامیابی کے دو رخ ہیں۔ایک: کل ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد ہی 64%فیصد تھی یعنی 36%فیصد لوگوں نے ووٹ ہی دیا نہیں ۔لہذا جن لوگوں نے ووٹ دیا اس کا 38%فیصد کل ووٹ اس پارٹی کو حاصل ہوا یعنی 62%فیصد لوگوں نے اسے ووٹ نہیں دیا۔دوسری جانب اگر کل 100%عوام کا ووٹ شیئر نکالا جائے تو 23.04%فیصد ووٹ ہی اس پارٹی کو حاصل ہوئے یعنی 76.96%فیصد لوگوں نے اسے پسند نہیں کیا اور نہ ہی اسے ووٹ دیا۔لیکن چونکہ معاملہ کل کاسٹ ہونے والے ووٹ شیئر سے متعلق ہے اس لیے وہ پارٹی ‘اکثریت کی پسند ‘بن گئی اور کامیاب ہوئی۔دوسری طرف دیگر پارٹیاں ، ان کے نمائندے اور آزاد امید وار سب مل کے اکثریت کی ناپسندیدگی میں شمار ہوگئے اور ناکام ٹھہرے۔کچھ ایسا ہی حال 2019کے لوک سبھا الیکشن اور اس کے نتائج میں بھی سامنے آیا ہے جہاں ایک اتحاد کو کامیابی تو دوسرے اتحاد کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔وہیں ان لوگوں کے حصہ میں بھی ناکامی ہی ہاتھ آئی ہے جن کو گرچہ 20سے30فیصد یا اس سے زائد ووٹ شیئر حاصل ہوا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پائے۔
جہاں جمہوری نظام ایک دلچسپ نظام ہے وہیں بظاہر عوام کا اس نظام میں اعتماد بھی ہے۔ یہ اعتماد یقین کی حد تک ہے یامتبادل نظام نہ ہونے کی بنا پر اس نظام میں یقین رکھنے کی مجبوری ہے ؟یہ اپنے آپ میں موجود دور کا ایک بڑا سوال ے؟لیکن دوسری جانب اس اعتماد کے ساتھ ساتھ موجودہ جمہوری نظام پر بہت سے لوگوں کو تشویش بھی ہے۔اس تشویش کا جب اہل اقتدار کے سامنے اظہار کیا جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے جس جملے کا استعمال کرتے ہیں وہ یہی ہوتا ہے کہ “یہ سب ناکامی کی باتیں ہیں، اگر کامیاب ہو جاتے یا انہیں اس طریقہ انتخاب کے ذریعہ کامیابی حاصل ہو جائے تو پھر اس تشویش کا وہ اظہار نہیں کریں گے”۔اور یہ بات کسی حد تک حقیقت پر مبنی بھی ہے۔کیونکہ یہ باتیں عموماً اور زیادہ تر اسی وقت سامنے آتی ہیں جبکہ پارٹیاں اور نمائندے ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔اس کے باوجود یہ حقیقت بھی ہے کہ جب انسان پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے،آزمائشوں سے دوچار ہوتا، مسائل میں گھر جاتا ہے،تب ہی اسے یہ موقع بھی میسر آتا ہے کہ وہ غلطیوں،کوتاہیوں اور ناکامیوں کا ہر لحاظ سے جائزہ لے،اس درمیان جب یہ واضح ہوتا ہے کہ درحقیقت جس طریقہ کار کواب تک اس نے اختیار کیا تھا اس طریقہ میں خامیاں بھی ہیں، تو وہ اس کا برملا اظہار کرتا ہے۔اور غالباًیہی بات جمہوری نظام اور جمہوریت سے بھی وابستہ ہے۔جمہوری نظام کی خامیاں اور کمیاں اور جمہوریت بحیثیت انتخابی طریقہ کار میں جو تشویشناک پہلو سامنے آرہے ہیں یا آتے رہے ہیں،جب ان پرغور و فکر کیا جاتاہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ،ان سے چھٹکارہ پانا حد درجہ ضروری ہے نیز اس کی خامیوں کو واضح کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں دوبارہ ان غلطیوں کو نہ دہرائیں۔ساتھ ہی قبل ازوقت مسائل کا حل تلاش کیا جائے،اگر بہتری لائی جا سکتی ہے تو بہتری لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔اس سلسلے میںسدھار کی غرض سے participatory democracy کی آواز اٹھتی رہی ہیں۔یہ بھی جمہوری نظام ہی کی کچھ بہتر شکل ہے لیکن عموماً اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ڈیموکریسی کا یہ وہ طریقہ کار ہے جہاں عوام کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ پالیسی بنانے میں اہم کردار ادا کریں ساتھ ہی ان کو جمہوری نظام میں بھی اپنے اوسط کے اعتبار سے حصہ داری کا موقع ملتا ہے۔
اس کے باوجود ہندوستان جیسے ملک میں اور آج معاملہ صرف ہندوستان ہی کا نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں ایک گروہ خاص کو دہشت گرد ثابت کرنے کی جو جدوجہد جاری ہے۔اس کے نتیجہ میں بڑی اور مقبول سیاسی پارٹیاں اکثریتی طبقہ کے لیے گروہ خاص کو جس کی شناخت ایک امن پسند مذہب سے ہے،بطور خطرہ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے،نیز یہ اپیل کرتا ہے کہ ‘خطرے ‘سے نمٹنے کے لیے ہمیں ہی ووٹ کاسٹ کیا جائے۔تاکہ ‘دہشت گردگروہ ‘کی نمائندگی کسی بھی جگہ اِس انداز میں نہ ہونے پائے کہ اُس کی آواز مضبوط ہو یا سنی ہی جاسکے۔سوال یہ ہے کہ کیاجس گروہ کو مذہبی بنیادوں پر دہشت گرد ثابت کرنے کی راست اور بلاواسطہ کوششیں کی جارہی ہیں حقیقتاً وہ دہشت گرد ہے؟اور جو لوگ اور نظریات کے حاملین اس کوشش میں سرکرداں ہیں وہ امن پسند ہیں؟سوال کے جواب میں جب حقائق تلاش کیے جائیں جاتے ہیں،کیسیس دیکھے جاتے ہیں،سرگرمیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اعداد و شمار اکھٹا کیے جاتے ہیں تو آپ کو حیرانی ہوگی کہ جو آج خود کو امن پسند کہہ رہے ہیں دراصل وہ خود راست یا بلاواسطہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث اور فروغ دینے میں سرگرم عمل ہیں،جس کے نتیجہ میں سماج کا اکثریتی طبقہ دہشت میں مبتلا ہے،مسائل سے دوچار ہے۔
گفتگو کے پس منظر میں غالباً یہی وجہ ہے کہ آج ایک بڑا طبقہ رائج الوقت جمہوری نظام کو زوال پذیر نظام سمجھتا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ موجودہ جموری نظام میں اس قدر بڑی بڑی خامیاں کھل کے سامنے آگئیں ہیں جس کی روشنی میں یہ نظام آہستہ آہستہ آمریت میں تبدیل ہوگیا ہے۔دنیا بھر میں آزادی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے ایک امریکی تھِنک ٹینک فریڈم ہاؤس کے عالمی جمہوریت کے سالانہ جائزے کے نتائج کے مطابق دنیا میں جمہوریت کو بحران کا سامنا ہے۔ جائزے کے مطابق دنیا بھر میں جمہوریت تنزلی کا شکار ہے۔ موجودہ دور میں ان ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی جہاں سیاسی حقوق اور شخصی آزادیوں پر پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ کچھ ممالک میں حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔رپورٹ کے مطابق آج سے ربع صدی پہلے، جب سرد جنگ ختم ہوئی تو ایسا لگتا تھا کہ اب آمریت اور مطلق العنان حکومتیں ماضی کا قصہ بن جائیں گی اور بیسویں صدی کی نظریات کی عظیم جنگ آخر کار جمہوریت نے جیت لی ہے، لیکن آج دنیا بھر میں جمہوریت پہلے کے مقابلے میں کمزور تر ہو چکی ہے۔جن ممالک میں جمہوریت زوال کا شکار ہے ان میں اکثریت ایسے ممالک کی ہے جن سے جمہوریت کے حوالے سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا رہی تھی۔2017 میں دنیا میں جمہوریت کو گذشتہ کئی عشروں کے سب سے بڑے بحران کا سامنا رہا، اور اس دوران آزادنہ و منصفانہ انتخابات، اقلیتوں کے حقوق، پریس کی آزادی، اور قانون کی حکمرانی جیسی بنیادی جمہوری اقدار مسلسل دباؤ کا شکار رہیں۔دنیا کے 71 ممالک میں سیاسی حقوق اور شخصی آزادی میں کمی آئی جبکہ صرف 35 ممالک میں ان شعبوں میں بہتری دکھائی دی۔ یہ سال عالمی آزادی کے حوالے سے مسلسل ایسا 12واں سال رہا جس میں ان اقدار میں زوال دیکھنے میں آیا۔فریڈم ہاؤس کا کہنا ہے کہ جمہوری ممالک میں جمہوریت کو درپیش مسائل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں ایسے عوام پسند یا پاپولِسٹ رہنما مقبول ہوتے جا رہے ہیں جو تارکین وطن کے خلاف ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کی پرواہ نہیں کرتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ آج کے نوجوان، جنھیں فسطائی یا فاشسٹ حکمرانوں اور کیمونسٹ حکومتوں کے خلاف لوگوں کی طویل جد وجہد کے بارے میں علم نہیں، ان کا جمہوریت پر اعتبار اٹھتا جا رہا ہے اور وہ جمہوریت کے خاطر کسی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوانوں میں جمہوریت کے حوالے سے ایک خطرناک لاپرواہی پروان چڑھ رہی اور ان کے خیال میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے ہاں جمہوریت ہے یا نہیں!
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com