قوم خوش کہ جمہوریت پٹری پر چڑھ چکی، جمہوریت کا نخلِ نوخیز ”ووٹ” کی آبیاری سے تَن آور پیڑ میں ڈھلنے لگا اور ووٹ کی عزت ہونے لگی۔ تاریخِ پاکستان میں پہلی بار تواتر سے تیسرے انتخابات خوش کُن مگر کڑوا سچ یہی کہ ووٹ کو پہلے کبھی پرکاہ برابر حیثیت دی گئی نہ اب۔ اِس حقیقت سے انکار ناممکن کہ
نا حق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ، ہم کو عبث بدنام کیا
منصورِ حقیقت یہاں کوئی نہیں، اقتدار کے ”اصل سرچشموں” کا نام سوچتے ہی زبانوں پر لکنت طاری ہو جاتی ہے، قلم تھرتھرانے لگتا ہے اور پاؤں کے نیچے سے زمین سرکنے لگتی ہے۔ پھر اذہان وقلوب میں اُٹھنے والی پُرشور آندھیوں کو دبانے کی خاطر تشبیہوں اور استعاروں سے کام نکالنے کی سعیٔ بیکار کی جاتی ہے۔ یہ تشبیہیں اور استعارے عامیوں کے ادراک سے بالا تر۔ حقیقت یہی کہ حکومت تو بہرحال اُنہی ”سیّد برادران” کی رہے گی جن کا جب جی چاہتا تھا کسی مغل شہزادے کو کان سے پکڑ کر ”شہنشاہِ معظم” بنا دیتے اور ابھی ”ہٹو بچو” کا شور بھی ختم نہ ہوتا کہ اہلِ ہند کسی دوسرے مغل شہنشاہ کا دیدارِ عام کر رہے ہوتے۔ یہ سنتے سنتے کان پَک گئے ”بَدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے”۔ مگر کیسے؟۔ یہ سوال ابھی تک تشنۂ جواب ہے اور اُس وقت تک رہے گا جب تک دل وزبان ایک نہیں ہوتے اور زبانوں پہ طاری لکنت ختم نہیں ہوتی۔
آگے چلتے ہیں، جون ایلیا نے کہا ہے سیاست سے تعلق تو فقط اتنا ہے کوئی کم ظرف میرے شہر کا سلطان نہ ہو
اگر یہ قوم خودتراشیدہ بتوں کی پرستش چھوڑ کر اپنا مطمح نظر ملک وقوم کی بہتری بنا لے تو فلاح کی راہ نکل سکتی ہے لیکن ہمارا تو اپنا اپنا قبلہ اور اپنا اپنا کعبہ۔ جب حضورِ اکرمۖ مشرکینِ مکّہ کو بتوں کی پوجا سے منع فرمایا کرتے تو مشرکین کہتے کہ اُن کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے آئے تھے۔ یہی عالم اب وطنِ عزیز میں ہے۔ جس کی جہاں آنکھ لڑی، وہ وہیں جَم کے کھڑا ہو گیا، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اُس کا انتخاب غلط بھی ہو سکتا ہے۔ یہ رسمِ بَد ہمارے لکھاریوں اور تجزیہ نگاروں میں سب سے زیادہ۔ نیوزچینل پر چہرے دیکھتے ہی ناظرین سمجھ جاتے ہیں کہ کون کِس کی مدح سرائی کرے گااور کس کے خلاف زہر اُگلے گا۔ قوموںکی تقدیر یوں تو نہیں بدلا کرتی۔
آئیں یہ فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں جیت کس کی ہوئی اور ہار کس کا مقدر ٹھہری۔ کون جیتا یا ”جتوایا” گیا اور کیوں؟۔ کپتان کو مبارک ہوکہ اُنہیں اب کچھ کر گزرنے کے لیے کھُلا میدان مِل چکا۔ اقتدار بھی اُن کے پاس اور مہربانوں کا دستِ شفقت بھی۔ اُنہوں نے انتخابات سے پہلے جو 100 دنوں کا منشور پیش کیا تھا، اب اُس کی تکمیل کرکے حریفوں کا مُنہ بند کرنے کا وقت آن پہنچا۔ اُنہوں نے فرمایا تھاکہ تحریکِ انصاف پہلے 100 دنوں کے اندر صوبہ جنوبی پنجاب کی تشکیل کرے گی، بلوچستان کے ناراض رَہنماؤں کے ساتھ مفاہمت کا عمل مکمل کرکے اُنہیں قومی دھارے میں لائے گی، تعلیم، صحت اور زراعت کے شعبوں میں انقلاب لائے گی، کراچی کے لیے بڑا ترقیاتی پیکج لائے گی تعلیم وصحت کے لیے 4 قومی ادارے تعمیر کرے گی، بیروزگار نوجوانوں کوایک کروڑ نوکریاں دے گی اور بے گھروں کے لیے پچاس لاکھ گھر تعمیر کرے گی۔اِس کے علاوہ کرپشن کو جَڑ سے اکھاڑنا اُن کے منشور کا بابِ اوّل ہے۔ اِسی بنیاد پر قوم نے اُنہیں ووٹ دیا۔ مگر جس سسٹم (اسٹیٹس کو) کے خلاف تبدیلی کا نعرہ بلند کرکے وہ مسندِ اقتدار تک پہنچے، اُسی سسٹم کے سب سے زیادہ پیروکار تواُن کی اپنی جماعت میں ہیں، 22 سال پہلے والی تحریکِ انصاف کہیں نظر آتی ہے نہ 10 سال پہلے والی۔ سارے”جیتنے والے گھوڑے” تو اُنہوں نے اپنے گرد اکٹھے کر کے کہہ دیا ”الیکٹیبلز ہوں گے تو میں وزیرِاعظم بنوں گا اور تبدیلی لاؤں گا”۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ جن الیکٹیبلز کے خلاف تبدیلی کا نعرہ بلند کیا اب وہی خاں صاحب کے دَست وبازو ہیں۔ کیا وہ اِنہی کے خلاف تبدیلی لانے کے لیے پَر تول رہے ہیں؟۔
خاں صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے ہرگز قرض نہیں لیں گے لیکن مجوزہ وزیرِ خزانہ اسد عمر کہتے ہیں کہ خزانہ خالی ہے۔ شنید ہے کہ اب نئی حکومت کشکولِ گدائی تھامے آئی ایم ایف کے پاس 12 ارب ڈالر قرض کی درخواست کرنے جا رہی ہے۔ اِسے کہتے ہیں ”ساغرِ اوّل و دُرد”۔ یا دوسرے لفظوں میں ”سَر منڈاتے ہی اولے پڑے”۔جب ذوالفقار علی بھٹو نے ”روٹی، کپڑا اور مکان” کا نعرہ بلند کیا تو ہر ذی شعور نے کہا کہ ناممکن۔ آج بھی پیپلزپارٹی یہی نعرہ لیے گلی گلی گھوم رہی ہے۔ اُسے بھٹو کے بعد بھی تین بار حقِ حکمرانی ملا لیکن یہ نعرہ محض نعرہ ہی رہا۔ یہی نعرہ بھیس بدل کر ہمارے سامنے ہے۔ کپتان نے 100 دنوں میںایک کروڑ نوکریاں اور بے گھروں کے لیے 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن ہم کہتے ہیںکہ ناممکن، یہ وہی روٹی، کپڑا اور مکان ہے جو بھٹو کے زوال کا سبب بنا اور اب مستقبل قریب میںاِسی نعرے کا شکار تحریکِ انصاف بنتی نظر آرہی ہے۔ کپتان نے کہاکہ وہ وزیرِاعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے جا رہے ہیں لیکن یہ کہہ کر بھولے بھالے عوام کو تو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے، واقفانِ حال کو نہیں۔ ایوانِ وزیرِاعظم ”ریڈزون” میں واقع ہے جہاں پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ اور ایوانِ صدر بھی ہے۔ جہاں پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا، وہاں یونیورسٹی کا قیام ناممکن۔ ریڈ زون کو کسی بھی صورت میں شارعِ عام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کپتان نے کہا تھا کہ وہ وزیرِاعظم ہاؤس کی بجائے پارلیمنٹ لاجز میں قیام کریں گے لیکن یہاں بھی وہ یوٹرن لے گئے۔ اب وہ بنی گالہ میں ہی اپنے 300 کنال پر مشتمل محل میں قیام کریں گے ،جسے وزیرِاعظم ہاؤس کا درجہ دے دیا گیا ہے۔اُنہوں نے چاروں گورنر ہاؤسز کو بھی تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کا نعرہ بلند کیا ہے۔ یہ نعرہ تقریباََ ہر حکومت نے بلند کیا لیکن آج تک اِس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اب دیکھتے ہیں کی کپتان ایفائے عہد کرتے ہیں؟۔
100 دنوں میں صوبہ جنوبی پنجاب کی تشکیل کا عہد بھی پایۂ تکمیل تک پہنچتا نظر نہیں آتا کیونکہ پنجاب اسمبلی میں نوازلیگ پچھلے دورِ حکومت کے دوران ایک قرارداد منظور کر چکی ہے جس میں صوبہ بہاولپور اور صوبہ جنوبی پنجاب، دو الگ صوبوں کا ذکر ہے۔ اب پہلے ووٹنگ کے ذریعے اُس قرارداد کو ختم کرنا ہوگا تاکہ ایک ہی صوبے کی تشکیل ممکن ہو سکے لیکن فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ بھی مدّ ِ نظر رہے کہ پیپلز پارٹی اور نوازلیگ سمیت تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں بھرپور احتجاجی تحریک کے لیے سرگرم ہیں۔ ایسے میں صوبہ جنوبی پنجاب کی تشکیل تو بھول ہی جائیں۔ یہ مکافاتِ عمل ہے، اگر کپتان لگ بھگ تیس ارکانِ اسمبلی کے ساتھ نوازلیگ کے خلاف طویل احتجاجی تحریک چلا سکتے ہیں تو 150 سے زائد ارکان پر مشتمل اپوزیشن جماعتیں کیوں نہیں؟۔ قوم کی کوشش اور خواہش تو یہی ہوگی کہ افراتفری اور انارکی کی بجائے کپتان کو فری ہینڈ دیا جائے کہ اسی میں ملک وقوم کی بہتری مضمر ہے لیکن کیا تحریکِ انصاف نے نوازلیگ کو فری ہینڈ دیا تھا؟۔ اگر نہیں تو پھر اُنہیں بھی رَدِعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
کپتان کو وزارتِ عظمیٰ تو مل گئی اور ہم دعاگو کہ وہ ایک مضبوط ترین وزیرِاعظم بن کر اُبھریں لیکن جن قوتوں نے اُنہیں وزیرِاعظم بنوایا ہے، کپتان اُن کے احکامات سے سرِمو بھی انحراف نہیں کر سکتے۔ الیکٹیبلز کی فائلیں اب بھی نَیب میں کھُلی ہیںاور اِنہی فائلوں کے زور پر ”مہربانوں” نے الیکٹیبلز کو پی ٹی آئی میں شمولیت پر مجبور کیا۔ یہ سارے جیتنے والے گھوڑے اب بھی مہربانوں کے قبضۂ قدرت میں ہیںاور اشارے کے منتظر۔اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ”سانپ سیڑھی” کا کھیل ہے اور سیڑھی کسی وقت بھی کھینچی جا سکتی ہے۔