ترکی (جیوڈیسک) صدر رجب طیب ایردوان نے ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد یورپ کے کسی ایک رہنما کے ترکی کا دورہ نہ کرنے پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑا جرم سرزد کر دینے کی کوشش کی گئی ہے جیسے کسی دور میں اٹلی میں مافیا میں کئی افراد کے قتل میں ملوث رہی ہے اور پھر ان قاتلوں نے پی -2 گیلری میں پناہ لے رکھی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 15 جولائی کی بغاوت کو ناکام بنائے جانے کے باوجود ابھی بھی اس کا خطرہ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے ملک میں ناکام بغاوت کی کوشش کی گئی۔ کیا مغرب جمہوریت کی حامیت کررہا ہے یا بغاوت کی؟
انہوں نے کہا کہ مغرب سے ملنے والے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے وہ بغاوت کی حمایت کررہے ہوں۔
انہوں نے یورپی یونین کی خارجہ امور کی ہائی کمشنر فیڈریکا موگرینی کے ترکی میں ناکام بغاوت کی کوشش کے بعد ترکی کے بارے میں اٹھائے جانے والے اقدامات پر شدید تنقید کرتے ہوئے سخت الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں اگر اٹلی کی پارلیمنٹ پر بمباری ہوتی تو ان کا کیا ردِ عمل ہوتا؟ کیا موگرینی ایک اطالوی ہونے کے ناتے اسی قسم کا رویہ اختیار کرتی ؟ ائندہ یورپی یونین کے ساتھ ہمارے تعلقات کیسے جاری رہیں گے اس بارے میں مجھے اب خدشات لاحق ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ موگرینی کو باہر سے اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ اسے سب سے پہلے ترکی آتے ہوئے ہم سب سے تعزیت کرنے کی ضرورت تھی۔
انہوں نے کہا کہ پیرس میں دہشت گردی کا واقعی رونما ہوا دس سے پندرہ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں اور اور سب رہنما وہاں پہنچ جاتے ہیں اور ترکی میں جمہوری حکومت کا تختہ اٖتنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں 238 افراد شہید ہو جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یورپ سے کوئی بھِ اٹھ کر یہاں ہم سے تعزیت کرنے کے لیے نہیں آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ 15 جولائی کی بغاوت کو ناکام بنادیا گیا ہے لیکن ابھی بھی خطرہ جاری ہے ۔ انہوں نے پناہ گزینوں کے مسئلے کے بارے میں کہا کہ اگر ترک باشندوں پر ویزے کی پابندی ختم نہ کی گئی تو پھر طے پانے والا سمجھوتہ بھی اپنی موت اپ مر جائے گا۔
انہوں نے پھانسی کے سزا سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 75 فیصد عوام اس سزا کے حق میں ہیں اور اگر پارلیمنٹ نے اس کی منظوری دے دی تو پھر اس کے علاوہ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ہوں۔