جمہوریت کی فتح

PML-N

PML-N

تحریر : چوہدری غلام غوث
ریاضی کے اُستاد نے اپنی کلاس کو ایک سوال تختہ سیاہ پر حل کر کے سمجھایا اور مکمل کرنے کے بعد پوچھا بچو! کیا آپ کو سوال کی سمجھ آ گئی ہے تو ساری کلاس نے یک زبان ہو کر کہا جی نہیں۔ اُستاد نے سوال کو مٹایا اور نئے سرے سے سمجھانا شروع کر دیا اور پہلے سے زیادہ جاندار طریقے سے اُس کی تفصیل بتائی مکمل کرنے کے بعد سوال دُہرایا گیا سمجھ آ گئی ہے میرے بچو۔ کلاس سے اتنا ہی جاندار جواب موصول ہوا کہ جی نہیں، اُستاد نے سوال تختہ سیاہ سے مٹایا اور تیسری مرتبہ مدلّل طریقے سے اُس کی تمام جزئیات سمجھائیں اور سوال کو مکمل کرنے کے بعد پوچھا سمجھ آئی جواب آیا نہیں آئی تو اُستاد نے کہا کہ مجھے آ گئی ہے ” آپ لوگ سوال سمجھنا ہی نہیں چاہتے” وزیر آباد سے مسلم لیگ (ن) نے سیٹ جیتی تو سوال کیا گیا سمجھ آ گئی پی۔ٹی۔آئی کی جانب سے جواب موصول ہوا جی نہیں، جہلم سے سیٹ جیتی تو سوال کیا گیا سمجھ آ گئی پی ٹی آئی کی طرف سے جواب آیا جی نہیں اب چیچہ وطنی سے پھر مسلم لیگ (ن) نے سیٹ جیت لی ہے اور جٹ برادری کے تین سگے بھائیوں نے ایک وقت میں ارکان پارلیمنٹ منتخب ہو کر پارلیمانی تاریخ کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے اور یہ اعزاز بھی مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آیا ہے۔

اب جب سوال کیا گیا ہے کہ سمجھ آئی جناب جواب وہی ہے کہ نہیں تو اب (ن) لیگ والوں کو سمجھ جاناچاہیئے کہ پی ٹی آئی والے سوال سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے لیکن اس مرتبہ PTI والوں نے سوال سمجھانے کے طریقہ کار پر تو بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے اُن کے سینئر رہنما محمد سرور نے کہا ہے کہ فوج کی نگرانی میں انتخابات میں امن و امان رہا اور دھاندلی نہیں ہوئی نتائج دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ جیت کے اس مسلسل عمل سے یہ تاثر پختہ ہوا ہے کہ لوگوں نے ن لیگ کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور وہ اس حکومت کا تسلسل چاہتے ہیںتا کہ اس کو پورا موقع دیا جائے اور ن لیگ کی حکومت اپنی آئینی مدت پانچ سال پوری کرے۔

میں اس جیت کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں کو دینے کی بجائے حزبِ اختلاف کے راہنما اور ان کے مدِ مقابل پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو دیتا ہوں میاں محمد نواز شریف مقدر کے سکندر اور قسمت کے دھنی ہیں کہ اُن کا پالا عمران خان جیسی حزبِ مخالف سے پڑا ہے اور عمران خان کے بقول اُنہیں بھی اب مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کا فلسفہ سمجھ میں آیا ہے جب اُنہوں نے اقبال کو پڑھا ہے اسی لئے میاں صاحب سے با بانگِ دہل کہہ رہے ہیں

تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے

کیونکہ (ن) لیگ کی حکومت کی اب تک کی کارکردگی اتنی زیادہ تسلی بخش نہیں کہ وہ اس کی جیت کا باعث بنے بجلی کی لوڈ شیڈنگ تا حال زور شور سے جاری و ساری ہے کرپشن اپنے عروج کی حدوں کو چھو رہی ہے اس میں کوئی کمی ہوتی نظر نہیں آتی، بے روزگاری کا سیلاب اُسی طرح ٹھاٹھیں مار رہا ہے، تھانہ کلچر کا نظام وہی فرسودہ جس میں مظلوم سے مزید ظلم جاری ہے بااثر اور طاقتور اُسی طرح آزاد اور خودمختار ہے، قبضہ گروپ اور کمیشن مافیا اپنی دھاک بٹھانے میں مصروف ہیں۔ عدالتی نظام میں بھی وہی سقم باقی ہے جس میں لوگ حکم امتناعی حاصل کرکے زندگیاں گزار دیتے ہیں اور ایک نسل انصاف کے حصول کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے اور اگلی نسلیں تک انصاف کی بھیگ مانگتی نظر آتی ہیں، لوگوں کو علاج و معالجے کے بغیر سسک سسک کر جان دینی پڑتی ہے ڈاکٹروں کو ایک بیڈ پر تین تین مریض اور بعض اوقات فرش پر مریض لٹا کر چیک کرنے پڑتے ہیں، ابھی بھی تعلیمی اداروں کی حالت زار ویسی ہے غریبوں کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم خواب ہے چونکہ یہ شعبہ باقاعدہ کاروباری صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے ، زچہ بچہ کی ناکافی سہولتوں کے باعث اُن کی اموات میں اضافہ جوں کا توں ہے مہنگائی کا جن بوتل سے مسلسل باہر ہے، غربت میں اضافہ اور کسانوں کی بدحالی اپنی جگہ موجود ہے۔

Election

Election

دہشت گردی اور امن و امان کی ابتری برقرار ہے۔غرضیکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ (ن) لیگ کے موجودہ دور میں دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہیں مگر اس تمام تر صورتحال میں بھی ضمنی انتخابات میں اُن کی مسلسل جیت آخر یہ کیا ہے۔ اس جیت کا کریڈٹ اگر عمران خان کو نہ دیا جائے تو زیادتی ہو گی۔ قارئین کرام اصل حزب مخالف کے سربراہ عمران خان ایک غیر متوازن اور ایک ناپختہ سیاستدان کا امیج بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیںاور اُن کا یہ امیج مستقبل میں بھی بدلتا ہوا نظر نہیں آ رہادھرنوں اور مارچوں نے پارٹی کو مزید کمزور کر دیا ہے ، گالم گلوچ ، لڑائی جھگڑے ، عدم برداشت کا جو کلچر عمران خان نے پروان چڑھا دیا ہے اس سے وہ مزید اپنے مقصد سے دور چلے گئے ہیں۔

اُن کی اس روش سے اُن کے حامیوں میں بددلی اور مایوسی دن بدن بڑھ رہی ہے اور اب لوگ اُن کے مشیروں اور کچن کیبنٹ کو بھی میاں صاحب کے وزیروں اور مشیروں کی طرح سمجھنے لگے ہیں نظام کی تبدیلی کا دعویٰ اب عوام کی نظر میں کمزور ہوتا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان تحریکِ انصاف نے خالصتاًعوامی ایشوز کو چھوڑ کر غیر عوامی اور تھکا دینے والے ایشوز کو اپنا لیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ اُن کی توجہ اصل ایشوز سے سرک کر کہیں اور جا اٹکی ہے ٹھیک ہے پانامہ لیکس بھی اہم ہیں مگر ان سب سے اہم آپ کی پاکستانی عوام کے لیے روزگار کی فراہمی ، صحت کی سہولتیں، بچوں کی معیاری تعلیم، امن و امان کی بہتری، کرپشن کا خاتمہ، مہنگائی سے نجات، انصاف کی فراہمی، تھانہ کلچر کی تبدیلی، پینے کے صاف پانی کی دستیابی، معیار زندگی میں بہتری اور قانون کا یکساں نفاذ اور سب سے بڑھ کر عزتِ نفس کی بحالی بہت ضروری ہیں آج بھی نظام میں اصلاح کی ڈھیروں گنجائش موجودہے جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں اور جس کے بغیر کچھ ہونے والا نہیں اگر نظام کلی طور پر درست اور مضبوط ہوتا ، ادارے اپنا اپنا کام بھرپور طریقے سے کر رہے ہوتے تو آج دھرنوں اور مارچوں کی نوبت نہ آتی نظام کی ان خامیوں سے فائدہ اُٹھانے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان تحریکِ انصاف سمیت ملک کی تمام مقتدر جماعتیں شامل ہیں یہ کبھی بھی اس بات پر سنجیدہ دکھائی نہیں دیں گی کہ جمہوریت اور نظامِ جمہوریت سمیت اداروں کو مضبوط بنائیں بلکہ یہ سب لوگ نظام کی خامیوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے عادی ہو چکے ہیں۔

Democracy

Democracy

انہوں نے جمہوریت کو صرف اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور جب جمہوریت کی سیڑھی لگا کر ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں تو اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے فرسودہ اور ناکارہ نظام سے مستفیض ہوتے ہوئے نظام کی مضبوطی تو درکنار اِلا ماشاء اللہ ذاتی مضبوطی پر خصوصی توجہ دے کر اس کو مضبوط تر اور مضبوط ترین کر لیتے ہیںکیونکہ اگر ان تمام حکمرانوں اور مقتدر جماعتوں کی صدقِ دل سے منشاء ہوتی تو یہ نظام کب کا بدل چُکا ہوتا جو کہ سات عشرے گزرنے کے بعد بھی جوں کا توں ہے اور یہ نظام ایسی گنگا ہے کہ جس میں جمہوریت کے سپوت ہاتھ دھونے کی بجائے خوب ڈبکیاں لگا کر نہاتے ہیں اور پوِتّر ہو کر نکلتے ہیں اور تادم آخرپوِتّررہتے ہیں۔

آج بھی اگر عمران خان صدقِ دل سے عوامی ایشوز پر بالغ نظری سے آگے بڑھنے کا سوچ لیں ، حب الوطنی اور کھرے پن کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت اور تدبر اپنا لیں، اس ملک اور اس میں بسنے والی 20 کروڑ عوام کی بھلائی اور بہتری کا ایجنڈا لے کر چلیں نظام کو بدلنے کے لیے بھرپور ہوم ورک کریں ، پارٹی میں اصلاح اور اس کو مضبوط کرنے کے اقدامات کریں اور اپنی توجہ آنے والے الیکشن 2018 ء پر مرکوز کر لیں تو وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں ورنہ موجودہ صورتحال جو رُخ اختیار کرے گی اُس کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف اپنی کارکردگی کی بنا پر اگلا الیکشن جیتنے کی بجائے حزبِ اختلاف کی نالائقیوںاور غلط حکمتِ عملی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے جیت جائیں گے اور پھر کہیں گے کہ یہ 20 کروڑ عوام اور جمہوریت کی فتح ہے۔

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر : چوہدری غلام غوث