پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ 2 جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کی۔ پہلے 2013ء میں اقتدار کی پُرامن منتقلی ہوئی اور اب نوازلیگ کی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے ہونے پر اقتدار نگران حکومت کے سپرد کر دیا۔ اِن 10 سالوں کے دوران بہت سے نشیب وفراز آئے لیکن جمہوریت پٹری سے نہ اُتری۔ پیپلزپارٹی کے دَورِحکومت میں لال حویلی والے شیخ رشید جیسے لوگ فوج کو آوازیں دیتے اور پیشین گوئیاں کرتے تھک بلکہ ”ہَپھ” گئے لیکن پیپلزپارٹی نے اپنی آئینی مدت پوری کی اوراقتدار پُرامن طریقے سے نوازلیگ کو منتقل کر دیا۔ یکم جون کو ایوانِ صدر میں ایک پُروقار تقریب میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ناصرالملک نے نگران وزیرِاعظم کا حلف اُٹھایااور نوازلیگ کے وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی ایوانِ وزیرِاعظم سے رخصت ہوئے اور یوں جمہوریت کے تسلسل کا ایک اور دَور مکمل ہوگیاجو یقیناََ ملکی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل ہے اور اِسے جمہوریت کے تسلسل کی فتح قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی عین حقیقت کہ 2008ء سے 2018ء تک جمہوریت سُکڑی ،سمٹی اور خدشوں میں ہی گھِری رہی۔
2008ء میں پیپلزپارٹی کو اقتدار منتقل ہوااور اُس کے آغاز سے اختتام تک ہر لمحہ جمہوریت خدشات کا شکار رہی۔ اُسی دَور میں غضب کرپشن کی عجب کہانیاں منظرِعام پر آئیں اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پیپلزپارٹی کو یقین ہو چلا ہو کہ یہ اُس کی حکومت کا آخری دَور ہے ،اِس لیے بہتی گنگا میں جتنے ہاتھ دھو سکتے ہو، دھو لو۔ اُن دنوں مشاہد حسین سیّد نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا تو ایجنڈا ہی ”لُٹو تے پھُٹّو” ہے۔ پیپلزپارٹی کے دَور میں عدلیہ بحالی تحریک نے زور پکڑا، آصف زردای نوازلیگ کے ساتھ عدلیہ بحالی کے وعدے سے مُکر گئے۔ اُن کا کہنا تھا ”وعدے قُرآن وحدیث نہیں ہوتے”۔تب میاں نوازشریف لاہور سے عوام کا جمِ غفیر لے کر نکلے اور ابھی وہ گوجرانوالہ ہی پہنچے تھے کہ اُس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فون کرکے اُنہیں یقین دلا دیا کہ عدلیہ بحال ہو جائے گی جس پر میاں نوازشریف لاہور واپس آگئے۔
عدلیہ بحال ہوئی اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بالکل اُسی طرح سے اَزخود نوٹس لینا شروع کیے جیسے آجکل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار لے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی ہی کے دَور میں سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں وزیرِاعظم یوسف رضاگیلانی نااہل ہو کر گھر سدھارے۔ سپریم کورٹ کے جس بنچ نے اُنہیں نااہل قرار دیااُس کی سربراہی موجودہ نگران وزیرِاعظم ناصرالملک کے پاس تھی۔ اُسی دَور میں ”میموگیٹ سکینڈل سامنے آیاجس میں حسین حقانی (امریکہ میں پاکستانی سفیر) موردِالزام ٹھہرے۔ اِس سکینڈل پر وقت کی اُڑتی دھول جَم چکی لیکن ہمیں یقین کہ آج نہیں تو کل اِس سکینڈل کا فیصلہ ہو کر رہے گا۔پیپلزپارٹی کا یہ ہنگامہ خیز دَور 2013ء میں تمام ہوا۔ ہمارے نزدیک پیپلزپارٹی کی آئینی مدت پوری ہونے کا سہرا آصف زرداری کے سَر ہے جنہوں نے اپنے ہر اتحادی کی ہر خواہش پر سرِتسلیم خَم کیا۔ اتحادیوں کے ساتھ اُن کا رویہ کچھ یوں تھا کہ
میں بچا تیرِ حوادث سے نشانہ بن کر آڑے آئی میرے تسلیم ، سَپر کی صورت
ایم کیو ایم بار بار روٹھتی رہی اورآصف زرداری اُسے مناتے رہے۔ ”قاتل لیگ” کو ”قابل لیگ” بنا کر چودھری پرویزالٰہی کو ڈپٹی وزیرِاعظم بنا دیاگیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی ہر خواہش کا احترام فرضِ عین سمجھا گیااور جب آرمی میں تھوڑی بہت تشویش پائی گئی تو فوری طور پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی کی مدتِ ملازمت میں 3 سالہ توسیع کر دی گئی۔ یہ آصف زرداری کا سرِتسلیم خم کرنا ہی تھا جو پیپلزپارٹی اپنی آئینی مدت پوری کر گئی لیکن قوم اتنی بَددل ہوئی کہ2013 ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی سُکڑسمٹ کر دیہی سندھ تک محدود ہوگئی۔ آجکل باپ بیٹا (آصف زرداری اور بلاول زرداری) دونوں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے لیے بھرپور تَگ ودَو کر رہے ہیںلیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ”ایں خیال است و محال است وجنوں”۔
نوازلیگ کو ابتدا ہی میںچیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ خزانہ خالی، ڈوبتی ہوئی معیشت، قرضوں کا بوجھ، مہنگائی کا عفریت، دہشت گردی کا دیو ِ استبداد اور اٹھاہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جیسے چیلنجزنوازلیگ کو بَدحواس کرنے کے لیے کافی تھے لیکن وہ کمر کَس کر اِن چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گئی۔ غیرجانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ نوازلیگ کے دَورِحکومت میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اُس نے اپنے ایجنڈے پرمکمل طور پر عمل کر دکھایا تو یہ غلط ہوگا۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر اُس کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جاتے تو شاید پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔ نوازحکومت کے سامنے تحریکِ انصاف ڈَٹ کر کھڑی ہو گئی اور اُس کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کر دیں۔ عمران خاں اور مولانا طاہرالقادری کا ڈی چوک اسلام آباد میں طویل دھرنا اب تاریخ کا حصّہ ہے۔ اِسی دھرنے کے دَوران وزیرِاعظم ہاؤس پر حملہ ہوا، پارلیمنٹ کے گیٹ توڑے گئے، پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا، سپریم کورٹ کی دیواروں پر ”پوتڑے” لٹکائے گئے اور سول نافرمانی کا آغاز ہوا۔ اُن دنوں عمران خاں بار بار امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا اعلان کرتے رہے لیکن جنرل راحیل شریف ٹَس سے مَس نہ ہوئے ۔ بالآخر سانحہ اے پی ایس پشاورکا بہانہ بنا کرعمران خاں کو اپنا 126 روزہ دھرنا ختم کرنا پڑا۔ اُنہی دنوں چین کے صدر کا پاکستان کا دَورہ طے تھالیکن کپتان نے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کہہ دیا ”او جھوٹو! چینی صدر تو آ ہی نہیں رہا تھا”۔ کپتان کے اِس بیان کے بعدچینی وزارتِ خارجہ کو یہ وضاحت دینی پڑی کہ چینی صدر واقعی پاکستان کے دَورے پر آرہے تھے لیکن اب وہ دَورہ ملتوی کر دیا گیا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر سپریم کورٹ کا فُل بنچ تشکیل دیا گیا جس کی سربراہی اُس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک کے پاس تھی۔ اِس بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ 2013ء کے انتخابات شفاف اور عوامی اُمنگوں کے عین مطابق تھے۔ کپتان نے طوہاََ وکَرہاََ یہ فیصلہ قبول تو کر لیا لیکن آج بھی وہ بَرملا کہتے ہیں کہ فیصلہ درست نہیں تھا۔
پھر پاناما کیس غلغلہ اُٹھا جس کی لپیٹ میں پورا شریف خاندان آگیا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے انتہائی متنازع فیصلہ دیتے ہوئے میاں نوازشریف کو اقامے اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میںتاحیات نااہل قرار دے دیا۔ اُن سے مسلم لیگ نون کی صدارت کا حق بھی چھین لیا گیا۔ میاں شہبازشریف ،نوازلیگ کے صدر اور شاہد خاقان عباسی وزیرِاعظم بنے لیکن ”زورآوروں” کے مائنس وَن فارمولے پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوسکا کیونکہ میاں نوازشریف مسلم لیگ نواز کے تاحیات قائد کی صورت میں سامنے آچکے ہیں۔اُن کے جلسوں میں عوام کے جَمِ غفیر کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عوام نے بھی اِس فیصلے کو مسترد کر دیا ہو۔
الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے 25 جولائی کی تاریخ مقرر کر دی ہے لیکن انتخابات پر ابھی بھی سوالیہ نشان ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تاحال نگران وزرائے اعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوسکا۔ پنجاب میں صورتِ حال انتہائی مضحکہ خیز رہی۔ تحریکِ انصاف نے پنجاب کے سابق چیف سیکرٹری ناصر سعید کھوسہ کا نام بطور نگران وزیرِاعلیٰ پروپوز کیا جسے میاں شہباز شریف نے تسلیم کر لیا لیکن اگلے ہی دِن تحریکِ انصاف نے ایک بہت بڑا یوٹرن لیتے ہوئے یہ نام واپس لے لیا۔ وجہ اُس کی یہ بنی کہ شریف برادران نے ناصر کھوسہ کی دیانتداری کی تعریف کر دی جو تحریکِ انصاف کو قبول نہیں تھی۔ پھر نئے ناموں کی تلاش میں پنجاب کے اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید اور تحریکِ انصاف کے ترجمان فواد چودھری میں” پھَڈا” پڑا۔ میاں محمودالرشید پنجاب اسمبلی کے سپیکر کو اوریا مقبول جان سمیت تین نام دے چکے جبکہ فوادچودھری کے نزدیک اوریامقبول جان متنازع شخصیت ہیںاِس لیے اُن کی جگہ ایازامیر کا نام دیا جاتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ جو سیاسی جماعت نگران وزیرِاعلیٰ کے لیے مجوزہ ناموں کا انتخاب بھی نہیں کر سکتی، کیاوہ کل کلاں ایٹمی پاکستان کو سنبھال پائے گی؟۔