تحریر : شہزاد سلیم عباسی جنوری 2015 میں دستور ساز اسمبلی نے اعلی عدلیہ اور تقریباََ تمام جماعتوں کے تعاون سے آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ کے ذ ریعے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کو کاروائی کی اجازت دی تھی، جس پر پی پی پی نے اپنے تحفظات سے بھی وزیراعظم کو آگاہ کیاتھا کہ ہمیں ان عدالتوں سے کسی قسم کا بالواسطہ یا بلا واسطہ گزند نہیں پہنچنا چاہیے۔ وفاقی حکومت کی اجازت کے بعد خصوصی مقدمات خصوصی عدالتوں میں منتقل ہوئے اور پاک فوج نے دہشتگردی میں ملوث افراد کو سزائیں دیں ۔بہرحال سول حکومت نے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی سوچ کے بے وقعت زاویوں ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ظاہری کیموفلاج کی لایعنی ترکیب اجزائی کے جس دقیانوسی طریقہ کار کومد نظر رکھتے ہوئے ملٹر ی کورٹس کا سہارا لیا گیا تھا وہ 7 جنوری 2017 کو غیر فعال ہوگئیں۔اب جنرل قمر جاوید باجوہ کے ضرب آہن اور آپریشن رد الفساد کے ذریعے دہشت گردی کے ناسور کو نیشنل ایکشن پلان ، نیکٹااور قومی قیادت کے چار وناچار اتفاق سے لے کرآگے چلنا چاہتے ہیں ۔ خبردار! آگے چلنے اور بڑھنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ پاک فوج پر لازم ہے کہ وہ پختونوں کے خلاف پنجاب کے سازشی عناصر کو بھی بے نقاب کرے جنہوں نے پچھلے دنوں بے ڈھنگی کیمپین چلا کر بڑے نوسربازوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیادہشت گرد افراد کے ساتھ دہشت گردی پھیلانے والے عناصر یا گروپوں کے خلاف (جو پاکستان کے معزز شہری بنے بیٹھے ہیں) بھی کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی تو جواب” نہیں ”میں ہے اور ہمیشہ” نہیں” میں رہے گا بھلے وطن عزیز کا سول وجمہوری نظام ہی لپیٹ کر ہمیشہ کے لیے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سپر د کر دیا جائے ۔یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ ہمارے ہاں سول و ملٹری ریلیشن شپ اورسول و ملٹری تنائو جیسے خراب استعارے واشارے سننے کو ملتے ہیں حالانکہ دنیا کے ہر ملک میں سول و ملٹری تعلقات کو اہمیت نہیں بلکہ سول و ملٹری نظام کی” بہتری ”کو اہمیت دی جاتی ہے۔
خیال فاسد ذہن میں ابھر تاہے کہ سیشن کورٹس ، ہائی کورٹس،سپریم کورٹ ، انسدادِدہشت گردی کورٹس ، تحفظ پاکستان کورٹ، سول کورٹس ، احتساب انکم ٹیکس ، بے شمار دوسر ی کورٹس اور پولیس ، ایف آئی اے وغیرہ کے ہوتے ہوئے آخر” آرمی کورٹس” یا ملٹری ٹریبیونل کی کیا ضرورت آن پڑی ؟ اگر فوجی عدالتیں ہی امن کی ضامن ہیں تو تو فوجی عدالتیں ایک خاص مدت کے لیے ہی کیوں؟۔ اگر فوجی عدالتیں اتنی ہی ضروری ہیں تو پھر پیپلزپارٹی کے دو بنیادی اعتراضات کو کیوں نہیں سنا جارہا؟ سی پیک سے لیکر پی ایس ایل تک ہر ترقی و ترویج کا زینہ اور امن و خوشحالی کاپیغام فوجی قیادت ہے تو پھر سول حکومتوں کا کیا کام؟ بس پھر فوج کو سول عدالتی نظام کا کنٹرول بھی دے دیں تاکہ سول مقدمات جو مسائل کی اصل آماجگاہ ، وہ بھی جلد سے جلد نمٹائے جاسکیں۔
Pakistan
آگے چلئے: ملٹری کورٹس تو کینیڈا ، فن لینڈ، جرمنی،بھارت، یو کے،یوایس ، سری لنکا اور دوسرے کئی ممالک میںقائم کی گئیں لیکن فرق واضح ہے کہ پاکستان میں ملٹری کورٹس ایمرجنسی، غیر یقینی کی کیفیت اور دہشت گردی کو ٹھکانے لگانے کے لیے بنائی گئیں جب کہ باقی ممالک میں ”فوجی عدالتی نظام” ایک مخصوص دائرہ کار اور فریم ورک میں کام جنگ اور ملک میں انارکی کی صورتحال میں کام کرتا ہے جب کہ میرے ملک میں تو مدارس کی اصلاحات اور کسی علاقے سے ڈاکوئوں کے خاتمے کے لیے بھی پاک فوج کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ فورتھ شیڈولنگ یا سی کیٹیگری، آپریشن، دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان ،ایمرجنسی صورتحال کا نفاذ، مذاہب و مسالک میں ہم آہنگی، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کا قیام، قومی و بین الاقوامی سطح پر مسائل و درپیش چیلنجز کا سامنا، قومی بیانیہ اور لائحہ عمل، امن و امان کا قیام، اقتصادی ، معاشی و معاشرتی ، اصلاحی و تربیتی امور کا جائزہ،دستور سازی، مسودہ، ایکٹ و شق میں ترامیم، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال، ججوں، استغاثہ اور گواہوں،مدعی مدع علیہ اور وکیل اور ججز کا میرٹ پر بھرتی ہونا وغیرہ ،سب سول حکومتوں کے ڈومین میں ہے۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام ، میڈیا پر دہشت گردی کا ڈھنڈورا پینٹے اور جمہوری وطن میں آپریشن کاچرچا کرنے سے بین الاقوامی سطح پر ہمارا امیج بہتر نہیں ہوسکتا۔ ہمیشہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیںجو خود بھی امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کو پسند کریں اورجن کے حکمران بھی مخلص ہوں اور غیروں کے مقابلے میں اپنی قوم سے وفا کرنے والے ہوں۔ کریمنل جسٹس سسٹم کے حقیقی نفاذ سے ہی ملٹری جوڈیشل سسٹم اور سول عدالتیں کامیابی کے قدم چوم سکتی ہیں ، صرف دہشت گردی کے نام پر فوجی عدالتوں کے قیام سے ”دہشت گردی کے ٹھہرائو” کی وقتی فضاء توقائم کی جاسکتی ہے لیکن انصاف کی بحالی کے بناء حصول علم و رزق اور انصاف کی جامع اصلاحات اور” میڈیم ٹو لانگ ٹرم ” فوائد و ثمرات حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
ملک پاکستان کے ہر دیرینہ مسئلے کی اصل جڑ انصاف کی عدم فراہمی ہے جس دن محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے تو جان لیں اسی دن سے پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ ہٹنا شروع ہو جائے گی ۔ کچھ خیال پرستوں کا ماننا ہے کہ تعلیم ، روزگار، صحت، عدلیہ،مدارس اصلاحات وغیرہ وغیرہ سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے جب کہ ناچیز کا حسن ظن وتخیل ہے کہ عدل و انصاف کے سوا ملک میں بہتری کی توقع رکھنا گناہ کبیرہ سے کم نہیں ہے۔