تحریر : عثمان غنی غصہ اور اشتعال حکمت کو کھا جاتا ہے ، حکمت سے امید کے پودے نشوونما پاتے ہیں۔ ، فرمایا ! حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے ، خوف کوخلوص نیت اور اعمال صالح سے شکست دی جاتی ہے ، انا میں لپٹی ہوئی ذاتی رنجشوں اور چاہتوں سے نہیں مگر یہ سوچے گا کون نہیں ، بقول جان ایلیا اب نہیں کوئی بات خطرے کی اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے کالم کی ابتداء میں ہی کالم نگاری کے ”سلطان راہی ” ایسے ہیرو(اور ولن ) کا لقب پانے والے محترم حسن نثار صاحب کا یہ جملہ یاد آگیا کہ ”پیپلزپارٹی مرحومہ و مغفورہ” آپ یقین مانیں کہ میں نے اس جملے کو خود یاد نہیں کیا بلکہ مجھے دو بارہ یاد کرایا گیا ہے ، پیپلزپارٹی نے تازہ بیان یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اصل اپوزیشن پی ٹی آئی ہے یا پی پی پی فیصلہ عوام نے کرنا ہے بات بالکل بجا ہے کہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے ،لیکن جناب عالیٰ ! فیصلہ ہو چکا ہے کہ اصل ”اپوزیشن” کون ہے ”پہچانی ہوئی صورتیں بھی پہچانی نہیں جاتی” کی طرح میں آگر ”پہچان” بھی لوں تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ، بھٹو کی روٹی ، کپڑا اور مکان فراہم کرنے کامنشور رکھنے والی جماعت کا جو حال آزادکشمیر کے الیکشن میں ہوا یا جو حال ضمنی انتخابات میں ہو رہا ہے۔
یہاں ”ہم چپ رہے ، ہم ہنس دئیے ، منظور تھا پردہ تیرا” والا معاملہ ہے، 70کی دہائی میں ناقابل تسخیر قوت بن کر قومی افق پر ابھرنے والی جماعت ایک وقت میں اس طرح Captaincyسے محرو م ہو جائے گی۔ کسی کو اندازہ تک نہ تھا ۔ جیالے بھی شام غریباں منانے کے بعد عقلمندی سے ”کہیں ” اور پیا گھر سدھار چکے ہیں ۔ پی پی پی کے ساتھ عجیب ”معاملہ ” یہ ہے کہ ن لیگ کو چھوڑنا چاہے تو بھی نہیں چھوڑ سکتی ، وجہ مگر ”میثاق جمہوریت” ایسے صحیفے کی موجودگی نہیں ، درآن حالانکہ بات بے لاگ احتساب کی ہے جس پر آنے کیلئے روایتی سیاستدان چنداں تیار نہیں ، سب جانتے ہیں کہ بات نکلی تو بہت دور تک جائے گی ، پی پی پی نے جس طرح سے پانامہ ہنگامے پر ”صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں ” والا معاملہ کر کے بظاہر پی ٹی آئی کا کندھا تھپکا کر ، لیکن در حقیقت” ان” کو ٹائم Gainکرنے میں مدد فراہم کی ہے روایتی سیاست کرنے کا ثبوت فراہم کیا ہے لیکن اس ”عقلمندی” کی Symbolic- Significanceیہ ہے کہ پی پی پی کا ووٹ بینک صرف اندرون سندھ تک Shrinkہو کر رہ گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ چیئرمین اب تک اس مردہ گھوڑے میں زندگی کی روح پھونکنے میں ناکام رہے ہیں Unclesکے ہوتے ہوئے عمر میں کوئی بھی چھوٹا بھلا کیا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے ۔ بروزپیر آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی توحکومت نے مشکل وقت میں ساتھ دینے والوں کو بلانے میں ترجیح دی اور جن کو باامر مجبوری بلایا گیا ان سے ذرا دور رہنا ہی مناسب سمجھا گیا ، ایک سیٹ والے اعجاز الحق کو بلا لیا گیا جبکہ لال حویلی کے سیاسی بابے کو مدعو کرنا حکومت نے اپنی توہین سمجھا ۔ مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا کام بھٹو دور میں عروج پر تھا اور اس کا نتیجہ بھٹو نے سولی پر لٹک کر ادا کیا، پی پی پی کی مشکل کو عمران خان کے ایک فیصلے نے آسان کر دیا ہے کہ Joint Sessionمیں پی ٹی آئی شرکت نہیں کرئیگی اس لیے پی پی پی کے پاس اب پی ٹی آئی کا ”ساتھ ”دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا۔
Imran Khan
عمران خان کی Entryنے اس گلے سڑے سیاسی نظام میں بھونچال برپا کر رکھا ہے مگر اس نے پہاڑ جیسی غلطیاںکرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ جہاں 24گھنٹے پہلے تک آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی تھی ۔وہیں ایک دن اور موجودہ وزیراعظم کو ”برداشت ”کر لیتے ، جوائنٹ سیشن کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور ان پر ہونے والے ظلم و ستم کو روکنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ بھارتی جارحیت کے متعلق تھا لیکن جو چال چلی لاجواب چلی کی طرح ایوان کو چھوڑنا مسئلے کا حل نہیں ۔ سیاست میں سب سے اہم Factorٹائم ہوتا ہے ، پی ٹی آئی آج تک اس کا ادراک نہیں کر سکی ، اگر طوعاً و کرھاً اجلاس میں شرکت کر لیتے تو سبکی سے بچا جا سکتا تھا ، تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ ہر مسلے کو گلی ، محلوں اور سڑکوں ، چوراہوں پر حل کیاجاسکتا ہے تومقدس ادارے کی Sovereignty کو چیلنج کرنا اس کے اپنے خلاف بھی جا سکتا ہے۔
اگر تین سالوں سے کپتان خود پارلیمنٹ میں ہونے والے اجلاسوں میں شرکت کرتے تو سیاسی طور پر پی ٹی آئی کا قد اور بلند ہوتا ،تبدیلی کے جذبات سے سرشار ”بچے ” مگر چاہتے ہیں کہ کپتان ہمیشہ باقی سیاسی پارٹیوں سے الگ نظر آئے اور رونق میلہ لگا رہے ،”الگ” رہنے سے زیادہ اہم کارکنوں کی تربیت اور جماعت کی تنظیم سازی ہے ۔ اس پر شاذہی توجہ دی گئی ہے ، تحریک انصاف جس طرح شہری علاقوں میں مقبول ہے اس کی مقبولیت کا نصف بھی دیہی علاقوں میں نہیں ، جس کا تناسب آبادی میں نصف سے بھی زیادہ ہے۔
شہروں میں مقبولیت کا دارومدار صرف اور صرف کپتان کی Fan Followingپر منحصر رہا ہے ، گزشتہ الیکشن میں80لاکھ ووٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ، کرپشن پر تحریک کا آغاز کر کے کپتان نے سیاسی تاریخ میں ایک منفرد کام کیا ہے ، جس نے ہر پاکستانی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ملک کو چند خاندانوں کی ملکیت سمجھ کر مزید چلانے کی اجازت نہیں دی جائیگی جس طرح بیک وقت ہر کسی کو خوش نہیں رکھا جا سکتا اسی طرح سب ”دوستوں” کو ناراض کرنا اس موقع پر عقلمندی کا تقاضا نہیں۔ کپتان کو ایک وقت میں کئی محاذ کھولنے سے گریز کرنا ہوگا۔ جس دن کپتان وقت کا صحیح استعمال سیکھ گیا تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔