تحریر: روہیل اکبر ملک میں حکومت کرنے والے جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انہیں ہر سیدھا کام بھی الٹا نظر آتا ہے اور جب کل کی اپوزیشن حکومت میں آجاتی ہے تو پھر انہیں کوئی غلط کام بھی برا نہیں لگتا بے شک وہ ہر ناجائزکا م کوجس طرح چاہیں پایہ تکمیل تک پہنچا ئیں ابھی کچھ عرصہ قبل وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی طرف سے ماڈ ٹاؤن واقعہ پر بنائے جانے والے عدالتی ٹربیونل جسکے سربراہ ہائیکورٹ کے جسٹس اورنہایت ہی شریف النفس انسان جناب باقر نجفی تھے جنہوں نے تمام شہادتوں اور تحقیق کے بعد جب اپنا فیصلہ لکھا تو وہ حکمرانوں کے خلاف تھا جس پر پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ سمیت اور بہت سے نام نہاد سیاسی بونوں نے نہایت ہی برا منایا اور کچھ گھٹیا قسم کے ان سیاسی شعبدہ بازوں نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا کہ ہم جسٹس باقر نجفی سے نمٹ لیں گے کیا۔
ایسے ہی کم ظرف اور لٹیرے حکمران پاکستان پر حکومت کرینگے جو اپنے خلاف آنے والا فیصلہ بھی برداشت نہیں کرسکتے یہ وہ ڈاکو حکمران ہیں جو سرعام بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں اور پھر مقدمہ بھی درج نہیں ہونے دیتے اگر عدالتیں ملک میں انصاف فراہم کررہی ہیں تو وہ بھی ان حکمرانوں کو گوارا نہیں ہے میں سمجھتا ہوں کہ باقر نجفی ایک ایماندار اور فرض شناس جج ہیں جنہوں نے ماڈ ٹاؤن واقعہ کی مکمل انکوائری کی ہر طرف سے مطمئن ہو کر اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ دیا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ اس عدالتی فیصلہ کے بعد میاں شہباز شریف کو فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے تھا جسکا انہوں نے ٹی وی پر آکربڑے فخریہ انداز میں اعلان بھی کیا تھا مگر وہ سیاستدان ہی کیا جو اپنے وعدے پر عمل کرے یہاں پر تو ایک طرف سیاستدانوں کو جوتیاں پڑ رہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف انکے اندر کا حیوان اقتدار کی کرسی کے خواب دیکھ رہا ہوتا ہے۔
پاکستان اور پاکستانی عوام کا سب سے زیادہ نقصان سیاستدانوں بلخصوص ان سیاسی لٹیروں نے کیا ہے جو برسراقتدار رہے ہیں یا کسی بھی شکل میں اب بھی ہم پر مسلط ہیں جسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تخلیق پاکستان کے بعد تکمیل پاکستان کے لئے قیادت کے فقدان کے باعث ملک سامراجی اور استبدادی غلامی میں آئے روز جکڑنے کے باعث معاشی تہذیبی دفاعی طور بحرانوں کا شکار ہوا جمہوری سیاسی نظام کی تاسیس آسیب زدہ سائے اور مقروض لہجے ملک وقوم کوآئے روز بحرانوں میں مبتلا کیے ہوئے ہیں موجودہ حالات کے تناظر میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے موجودہ حکمرانوں کی 14ماہ کے دوران ناقص کارکردگی کو درست کرنے کی بجائے واضح اقرار اور حکمرانوں کی طرف سے ان عوامل تسلیم کرکے اپنے غلطیوں پر قابو پانے کی بجائے تاویلیں پیش کرنا قوم کو اندھیر ے میں دھکیلنے کی ناکام کوشش ہے وہ نہ صرف نظریہ پاکستان بلکہ تکمیل پاکستان کے دشمن دکھائی دیتے ہیں خودداری ملی غیرت ہی ہماری قومی بقاء ہے ملک میں قیادت کے فقدان کے باعث آئے روز ملک کو نئے نئے مسائل کا سامنا ہے۔
حالانکہ پاکستان حاصل ہی نظریاتی طورپر کیا گیا تھا نظر یہ پر عمل کرنے کی بجائے 65سال تاویلوں میں گذاردیے ہر آنے والے صاحب اقتدار نے اپنی اپنی پالیسیاں لاگوکرکے ملک وقوم کو بہتری کی نوید سنائی قوم اپنے آنے والے مستقبل کی خاطر بیوقوف بنتے رہے کسی نے بھی ان راہنماؤں کے بھیس میں چھپے راہزنوں سے نہ پوچھا کہ جس نظریہ کی بنیاد پر مسلمان قوم نے لاکھوں جانی قربانیاں دی اس کاکیا بنا مگر سامراجی اور استبدادی غلامی میں جکڑنے والی تہذیب اقوام عالم کو اپنی معاشی تہذیبی دفاعی اورتعلیمی غلامی میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔
Pakistan
اقدار کی تبدیلی سے ذہنی غلامی تک اور تہذیب وثقافت کی نام نہاد تجدید سے جمہوری سیاسی نظام کی تاسیس تک آسیب زدہ سائے اور مقروض لہجے امہ کو دوست دشمن کی پہچان سے محروم کیے ہوئے ہیں وقت کا تقاضا ہے کہ اب پاکستان کے 20 کروڑ عوام ملک وقوم کے دشمن پاکستان مخالف نظریہ کے حامل سیاستدانوں کو دریابرد کرنے کے لیے عملی طورپر میدان عمل میں نکلیں پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کو محرومیوں کا شکار کرنے والوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے قوم پاکستان میں جمہوریت کومضبوط اوراس کی حفاظت کرنا آمریت کو دفن اور جمہوریت کو مستحکم دیکھنا چاہتی ہے۔
آزاد عدلیہ ،آزاد میڈیا،فعال اور متحرک سول سوسائٹی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی منزل دور نہیں بلکہ قریب آ رہی ہے ہمیں پاکستان کو بد عنوان عناصر سے پاک کرنا ہے اور ملک میںآئین اور قانون کی بالا دستی قائم کرنی ہوگی تاکہ قائد اعظم کے اس پاکستان کی تکمیل کا عمل مکمل ہو سکے جسکا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جسکے قیام کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہماری ماؤں نے اپنے سامنے اپنے بچوں کو نیزوں کی انیوں میں پرورے دیکھا اور بھائیوں کے سامنے بہنوں کی عزت نیلام کردی گئی اگر ہم میں جسٹس باقر نجفی جیسے ایماندار ،فرض شناس اور محب وطن پاکستانی موجود رہیں گے تو قیام پاکستان کے بعد حصول پاکستان کی جو کوششیں ہیں وہ بھی رنگ لائیں گی اور غربت کی دلدل میں دھنسی ہوئی قوم کی خوشحالی کی منزل بھی اب دور نہیں بلکہ قریب ہی آ رہی ہے۔