ڈینگی اور اس طرح کے وبائی امراض یا دیگر عام بیماریوں کے کی کئی دینی یا دنیاوی توجیہات اوراسباب بیان کئے جاتے ہیں مثلا بیماری سے گناہ ختم ہوتے ہیں اور انسان کی اصلاح ہوتی ہے، اللہ کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ بیماری آزمائش بھی ہوتی ہے، گناہوں کی وجہ سے بھی بیماریاں آ سکتی ہیں اور گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے بہرحال وجہ جو بھی ہو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی دین کا مکمل علم اوراصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اللہ کی تقدیر پر بھی ایمان رکھنا ضروری ہے کہ بعض بیماریاں، آزمائشیں، تکلیفیں تقدیر میں بھی لکھ دی گئی ہوتی ہیں جیسے کوئی پیدائشی معذور ہو یا بعض چھوٹے بچوں کو شوگر وہارٹ تھیلیسیمیا جیسی بیماریاں ہوتی ہیں۔طاعون جیسے امراض میں وفات پانے والے مسلمان کو شہید کہا گیا ہے اسی طرح ڈینگی سے بعض مسلمان فوت بھی ہو جاتے ہیں بعض معمولی بیمار ہوتے ہیں اور بعض زیادہ پیچیدہ امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اکثر موت کے منہ میں جا کر واپس آتے ہیں تو دنیا کی کم مائیگی ،آخرت کا احساس اور تزکیہ نفس کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے یعنی ہر ایک کی اتنی آزمائش ہوتی ہے جتنی تقدیر میں لکھی ہوتی ہے یا جتنا بڑے گناہ معاف ہونے ہوتے ہیں۔
دنیاوی اسباب جیسے بد پرہیزی کرنے سے ،صفائی وغیرہ نہ کرنے سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں ہمارے دین میں بھی صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے اور پیٹ بھر کر کھانے کی مذمت کی گئی ہے جبکہ اصل بات تو یہ ہے کہ اسلام کے احکامات پر عمل کرنے اور اسلامی تہذیب اپنانے سے دنیاوی صحت بھی ملتی ہے اور آخرت میں جنت بھی اور صحت ہو تو پھر ہی انسان دین کے احکامات جیسے نماز،حج،جہاد پر بھی مکمل عمل کر سکتا ہے اسلام میں گھڑسواری ،نشانہ بازی ، تیراکی کی ترغیب دی گئی ہے جو کئی دنیاوی بے کار گیمز کی نسبت بہت زیادہ متحرک اور صحت بخش ہیں۔
نیا زیادہ بیٹھنے والا دفتری کلچر،فصلوں پر کیا جانے والا سپرے،جدید سواریاں،کمپیوٹر ،موبائل ،فاسٹ فوڈ وغیرہ بھی موٹاپا،شوگر،امراض دل اور سینکڑوں نئی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔بعض انگریزی دوائیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک بیماری ختم کرتی ہیں تو بے شمارنئی بیماریاںلگا جاتی ہیں۔ ان کی بجائے پرہیز کرنا،روزہ رکھنا،ورزش واک کرنا،عبادات میں مصرف رہنا،جہادی تربیت لینا، پھلوں سبزیوں غذا سے علاج کرنا، سینگی حجامہ پچھنے لگوانا،شہد ،کلونجی،زعفران استعمال کرنا چاہئے جن سے صحت بہت بہتر رہتی ہے اور بہت دیگر فوائد بھی ہیں۔
جدید تحقیق کے مطابق متحرک لائف سٹائل اورورزش میں بہت سی خطرناک بیماریوں کا علاج چھپا ہے۔ اکثر ماہرین نے ورزش کو دواؤں کا متبادل قرار دے دیا ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خطرناک بیماریوں میں ورزش بھی ادویات جتنی ہی موثر اور کارگر ثابت ہوتی ہے۔جسمانی سرگرمیاں نہ صرف فالج جیسے خطرناک مرض سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوتی ہے بلکہ ذیا بیطس اور امراض قلب کے خلاف بھی ایک ڈھال کا کام کرتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ورزش کو معمول بنا کر بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے اور اللہ نے اپنی نعمتوں میں پھلوں اور زیتون انجیر وغیرہ کا بار بار قرآن میں ذکر کیاہے بازاری مصالحے دار کھانوں میں پیسے اور صحت ضائع کرنے کی بجائے پھلوں کی طرف توجہ دی جائے تو انسان آخری عمر تک بھی بہت کم بیماریوں کا شکار ہوتا ہے جیسے کہ سیب کے بارے میں مشہور محاور ہ ہے کہ An apple a day keeps the doctor far awayیعنی ایک سیب روزانہ ۔ اسی طر ح بازار سے ہر طرح کے کھانوں سے اجتناب کرنا چاہیئے ہمیشہ گھر کا کھانا کھانا چاہیے اور اس میں بھی سبزیوں کو پہلی ترجیح دینی چاہیے چینی ،سرخ مرچ نمک وغیرہ کا نقصان بہت زیادہ ہے انہیں کم سے کم استعمال کرنا چاہیے،بیکری آئیٹمز،کوک پیپسی ،بناسپتی گھی ،سگریٹ ، پان ،تمباکو،حقہ ،نشہ آور ادویات اور برائلر وغیرہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔
قرآن میں ہے کہ کھائو پیو مگر اسراف نہ کرو(الاعراف: 13) یعنی کھانے پینے میں اعتدال نہ رکھنا بیماریوں کا باعث ہے اور اکثر تمام بیماریوں کا آغاز معدے سے ہی ہوتا ہے۔اسی طرح ابن آدم کی کمر سیدھا رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اگرزیادہ کھانا ہی ہے تو پیٹ کے تین حصے کرنے چاہییں ایک کھانے دوسرا پانی اور تیسرا ہوا کے لئے ہونا چاہیے اور بھرے برتنوں میں سب سے برا برتن پیٹ ہی ہے۔موٹاپا بھی شوگر اور دل جیسی بیماریوں کی جڑ ہے اور اگر وزن اور کمر کو کنٹرول کر لیا جائے تو بہت بیماریاں کنٹرول ہو جاتی ہیں ۔مدینہ منورہ میں ایک دفعہ ایک حکیم آیا کچھ عرصہ وہ وہاں رہا مگر مریض نہ آنے اور آمدن نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھوکا مرنے لگاتو اس نے کسی سے دریافت کیا کہ کیا یہ لوگ بیمار نہیں ہوتے تو اس کو اسلامی طرز زندگی کے بارے میں بتا یا گیا جس میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ لوگ پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تو وہ یہ کہہ کر شہر سے چلا گیا کہ اتنی اچھی عادات والے لوگ تو بیمار نہیں ہو سکتے۔اس طرح کھانے کے بعد ڈکار لینے کو اچھا نہیں سمجھا گیا کہ اتنا زیادہ نہیں کھانا چاہییے کہ ڈکارآنے شروع ہو جائیں۔
Sugar Diseases
وزن اور کمر ہمیشہ قد اور عمر کی BMIکے مطابق ہونا چائیے۔ذیابیطس یا شوگر میں وزن کم کرنے ،واک کرنے ،دوڑلگانے ،ورزش کرنے سے شوگر کنٹرول ہو جاتی ہے وزن کم کرنے سے دل کے دورہ ، فالج اورامراض جگر، ہیپاٹائٹس، کمر درد، بلڈ پریشر اور سینکڑوں دیگر بیماریوں سے انسان بچ جاتا ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ ایمان کے بعد صحت اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے یہ اللہ کی امانت ہے اور دنیا کی امتحان گاہ میں صحت کے بغیر انسان اس امتحان میں پاس نہیں ہو سکتا اور دین کے علاوہ دنیا کے کاموں میں بھی ناکارہ ہو کر دوسروں پر بوجھ بن جاتا ہے۔پیٹ پر زیادہ چربی سے بھی بہت بیماریاں لگ جاتی ہیں،اسی طرح وزن کمر کرنے سے بلڈ پریشر بہت بہترہو جاتا ہے ،دل پر دبائو کم ہوتا ہے، دل میں کولیسٹرول چربی شوگر نہیں جاتی، سانس کانظام بہتر ہو جاتا ہے۔
آجکل کے دور میں موٹاپا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ موٹاپا بذاتِ خود ایک بہت بڑی بیماری ہے یا یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ موٹاپے سے ہی بہت ساری بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اسکے علاوہ اسمارٹ اور چاک و چوبند نظر آنے کیلئے بھی موٹاپے پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔موٹاپے سے جو عام بیماریاں جنم لیتی ہیں ان میں بْلند فشارِ خون ، جوڑوں میں درد، شکر، ڈپریشن جیسے امراض سرِ فہرست ہیں۔ اسلئے جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آج کل بچوں کو شروع سے ہی ایسی غذائیں دی جائیں جن سے طاقت تو حاصل ہو مگر موٹاپا کم سے کم ہو تا کہ بچوں کا جسم ابتدا سے ہی موٹاپے کی طرف مائل نہ ہو۔جن لوگوں کے پاس وقت ہوتا ہے وہ ورزش سنٹروں میں جا کر گھنٹوں ورزش کرتے ہیں۔ لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ورزش اور اپنی فٹنس پر بالکل ہی دھیان نہیں دیتے۔
دراصل آجکل کے اس مصروف دور میں لوگوں کے پاس اپنے آپکو وقت دینے کیلئے بالکل نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں سمارٹ اور چاک و چوبند بھی نظر آنا ہے اور اپنے آ پ کو بیماریوں سے دْور بھی رکھناہے۔ یہ سب تبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم قربانیاں دیں۔ قربانی کس طرح دیں ؟ کھانے سے ہاتھ روک کر اور گھنٹوں ورزش میں وقت گْزار کر۔لیکن جن کے پاس وقت کا فقدان ہو تو وہ کس طرح اپنے آپ کو اسمارٹ اور صحت مند رکھیں؟ جو لوگ بیٹھ کر کام کرتے ہیں اْنھیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ انکے جسم کا نچلا حصہ کافی بڑھ جاتا ہے با نسبت اوپر والے حصے کے۔ آجکل کمپیوٹر پر کام کرنے والے ان میں سرِ فہرست ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو دن میں آٹھ سے نو گھنٹے مستقل کمپیوٹر کے آگے بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ یہ بات ہمیں اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ قدرت نے ہمارے جسم کو اس طرح ترتیب نہیں دیا کہ ہم مسلسل بیٹھ کر گزاریں۔اس سے ہماری صحت متاثر ہوگی اور مختلف قسم کی بیماریوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ ہمیں اپنے اعصابی تناؤ کوکم کرنے کیلئے تھوڑی بہت محنت توکرنی ہے باوجود اسکے کہ وقت کی کمی اور کام کی زیادتی ہے۔ اس لئے ایک میز پر بیٹھ کر بھی ہاتھ پاؤں کو سیدھا کر کے اپنے اعصابی تناؤ میں کمی لائی جا سکتی ہے اور اسمارٹنس اور چستی بھی قائم رکھی جا سکتی ہے۔
یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم مختلف طریقوں سے بیٹھ کر بھی ورزش کر سکتے ہیں جو کہ مندجہ ذیل درج ہیں۔کرسی پر بیٹھے ہوئے جب آپ کمپیوٹر کے کی بورڈ پر کام کر رہے ہوں تو اپنی کمر کو چند منٹوں کیلئے بیٹھے بیٹھے ادھر اْدھر گھمائیں۔ اپنے پاؤں کو بھی سیدھا کر کے وقفہ وقفہ سے گھمائیں ، ساتھ ہی اپنے دونوں گھٹنوں کو جوڑ کر اپنے دونوں پاؤں کو اوپر اور نیچے کریں اور ہر چند منٹوں کیلئے دوبارہ اس ورزش کو دہرائیں۔ اپنی کرسی سے اْٹھ کر چند منٹوں کیلئے چہل قدمی بھی کر سکتے ہیں۔ اپنے ہاتھ اور پاؤں کو دائیں بائیں کرنے سے پیچھے کے پٹھوں کے تناؤں میں کمی آ جاتی ہے۔ اپنے ہاتھ کی کلائیوں کو گھمائیں۔ ایسے کرنے سے کلائیوں کے پٹھوں کے تناؤ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔جو کافی دیر تک ٹائپنگ کرنے سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ اپنی سانسوں کو چند منٹوں کیلئے اندر کی طرف لیں اور ایک یا دو سیکنڈ کیلئے روکیں اور پھر باہر کی طرف نکالیں۔ اس عمل کو تین سے چار با ر دہرائیں۔ مہروں اور سینے کی بھی ورزش کی جا سکتی ہے۔ وہ کچھ اس طرح کہ اپنے پیچھے والے حصے کو کرسی کے ساتھ لگائیں اور ہاتھوں کو سر کے اوپر رکھیں اس دوران اوپر کی طرف دیکھیں۔ ایسا چند منٹوں کیلئے کریں۔ اپنی گردن کو بھی آگے پیچھے اور دائیں بائیں گھمائیں تا کہ گردن کے مہروں کے درمیان کوئی خلا پیدا نہ ہو۔ اپنے کھانوں میں چربی اور اور نشاستہ والی چیزوں کا کم سے کم استعمال کریں۔عام چائے کے بجائے سبز چائے کا استعمال کریں۔ ناشتہ ضرور کریں۔ اسکے علاوہ اپنی نیند کو حتی الوسع پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اسکے علاوہ کسی بھی کھانے کو با لکل ختم نہ کریں مگر تھوڑا تھوڑا۔ شکر کا استعمال بھی کم سے کم کریں۔ رات کا کھانا سونے سے تین چار گھنٹے پہلے کھا لیا کریں تا کہ کھانا اچھی طرح ہضم ہو جائے۔ایک ہفتہ میں ایک کلو وزن کم کریں اس سے زیادہ ہر گز نہیں۔ کیونکہ یاد رہے کہ وزن جتنا جلدی سے گرتا ہے بعد میں اْتنی ہی رفتار سے بڑھتا بھی ہے۔جلد سونے اور جلد اْٹھنے کی عادت کو اپنائیں۔کسی نے کیا خوب کہا کہ جلد اْٹھنے سے انسان تندرست و توانا ، دولت مند اور ساتھ ہی ساتھ صحت مند بھی ہوتا ہے۔ صحت مند رہنا بھی ایک بہت بڑی دولت ہے۔جن لوگوں کے پاس صحت نہیں ہوتی انکی مثال ایک خالی مغز جیسی ہوتی ہے۔ وہ دْنیا کی لذتوں سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔جب ہماری صحت نہیں رہتی تو تب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اسلئے جہاں تک ممکن ہوسکے اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ اور ساتھ ہی اپنے دل اورذہن کو بھی صاف رکھیں۔ اور زیادہ سے زیادہ اللہ رب العالمین کا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں تک ممکن ہو دوسرے کی مدد کریں، خاص طور پر بوڑھے اور بیمار لوگوں کی ، ان کی عیادت کریں ان کے لئے دعا کریں اور ان سے دعا کرائیں۔ اور ہمیشہ اللہ کی رضا پر راضی رہیں۔ اورہمیشہ اپنے سے نیچے والے لوگوں کو دیکھیں نہ کہ اوپر والوں کو۔
بعض ممالک جیسے اسرائیل وغیرہ میں ہر شہری کے لئے فوجی تربیت لازمی ہے اس طرح اسلام بھی ہر مسلمان پر فوجی تربیت حاصل کرنے اور جہاد کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور ہمارے زوال اوربیماریوں کا باعث اسلامی لائف سٹائل کلچر و ثقافت سے دوری بھی ہے۔ دین اسلام عین فطرت ہے اور اس پر مکمل عمل سے ہی دنیا میں بھی انسان بہت سی بیماریوں اور آفتوں ،پریشانیوں ،مصیبتوں ،بلائوں،آمائشوں سے محفوظ رہتا ہے اور آخرت میں جہنم جیسے بڑے عذاب سے نجات تو بہرحال مل ہی جاتی ہے دنیا کی آزمائشیں بیماریاں پھر بھی کٹ ہی جاتی ہیں اور دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلے پرمچھ کے پر جیسی ہے یا جیسے سمند ر کے پانی کا ایک قطرہ۔علاوہ ازیں بیماریاں مومن مسلمان کو گناہوں سے ایسے پاک کر دیتی ہیں کہ جب وہ فوت ہوتا ہے تو اس کے نامہ اعمال پر کوئی گنا ہ نہیں ہوتااور اس کی موت اس کو دنیا کے جیل خانہ اور سب بیماریوں سے نجات دیکر جنت میں داخل کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔
لہذا بیماری یا پریشانی اللہ کی تقدیر کی طرف سے ہے مقصد انسان کی اصلاح ،گناہوں کی معافی اور صبر کی آزمائش ہو سکتی ہے انسان کا کام یہ ہے کہ وہ صبر کرے اورہر معاملے میں قرآن وحدیث کے ترجمہ و تفسیر پر غور کرے اس سے ہر شخص کو آخرکار علم ہو جاتا ہے کہ یہ بیماری،پریشانی یا آفت کیوں آئی ہے۔جیسے جنگ احد اور حنین میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا تو وجہ یہی بتائی گئی کہ اللہ نے کچھ کے صبر کا امتحان لیا،کچھ کو شہادت جیسا عظیم انعام عطا فرمایااور یہ تنبیہ بھی کی کہ ہمیشہ اللہ کی مدد پر بھروسہ رکھنا چاہیے اوراپنے زوربازو اور تعداد و طاقت کو ہی اصل سرچشمہ نہیں سمجھنا چاہییے ڈینگی اور دیگر بیماریوں میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ دنیا فانی ہے ہم سب یہاں عیش کرنے ،کوٹھیاں بنانے ،کھانے پینے کے لئے نہیں آئے انسان دنیا میں ایک مسافر کی طرح چند گھڑیوں کا مہمان ہے لہذا صحت اور وقت کو غنیمت جان کر ایمان کی حالت میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔