آج سے تقریباً 236 سال پہلے شمالی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں ایک ایسی بیماری پھیلی تھی کہ جس میں مریضوں کو اچانک تیز بخار ہو جاتا، کچھ کے پیٹ میں درد ہوتا اور خون کی الٹیاں آتیں تھی، اس مرض کا مریض سات سے دس دن کے اندر زندگی کی بازی ہار جاتا تھا۔ اس مرض نے ایسی وبائی صورت اختیار کی کہ لوگوں نے خوف و ہراس کی وجہ سے ان علاقوں سے ہجرت شروع کر دی۔ اس وقت کے ڈاکٹروں کی تحقیق نے اس مرض کا سبب مچھروں کو قرار دیا کہ یہ جان لیوا مرض مچھروں کی وجہ سے پھیلتا ہے اور اس مرض کو ڈینگی بخار کا نام دیا گیا اس وقت اس مرض کو ” گندی روح ” کی بیماری کا نام بھی دیا گیا تھا۔
ویسے تو W.H.O کے مطابق ڈینگی بخار کی شرح اموات صرف 4% ہے اور آج تک اس کی کوئی دوائی ایجاد نہیں ہو سکی۔ مگر جدید سائنس نے کچھ ادویات دریافت کر لی ہیں، اورپاکستان میں ایک حکیم صاحب بھی ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ میرے علاج سے ڈینگی کا مریض فوری صحت یاب ہو جاتا ہے۔ آج کل اس مرض نے پاکستان میں وبائی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ 1994ء میں کراچی میں پہلا ڈینگی کا مریض سامنے آیا تھا۔ W.H.Oکے اعداد و شمار کے مطابق 2006ء کے مطابق کراچی میں ڈینگی بخار کے مریضوں کی تعداد 4800 سے زائد تھی جبکہ پچاس سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہوکر زندگی کی بازی ہار گئے۔
لاہور میں ڈینگی کا پہلا مریض 2007ء میں سامنے آیا تھا۔اس وقت ہسپتالوں میں ڈینگی بخار کے لئے بنائی گئی مخصوص وارڈوں میں بیڈ ختم ہونے سے ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹر مریضوں کو داخل نہیں کر رہے ہیں، مریضوں کی اکثریت کو گھروں کو بھیجا جا رہا ہے۔ جو کہ انتظامیہ کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔ حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ اوّل تو اس بیماری کے خاتمہ کے لئے پراپر اسپرے مہم چلائے اور ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کے لئے زیادہ سہولتیں اور خون کے سفید خلیے کا زیادہ سے زیادہ تعداد بہم پہنچائیں تا کہ علاج میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔
آج کل ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں کے عوام ڈینگی کا قہر جھیل رہے ہیں۔ اب لگتا ہے کہ جیسے ڈینگی بھی ملیریا کی طرح پورے سال ہونے والا مرض بن گیا ہے۔ ملک بھر میں ہر سال ڈینگی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خاص تشویش کی بات تو یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں بھی ڈینگی کے معاملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک سال سے کم عمر کے بچے بھی ڈینگی مچھر سے متاثر ہو رہے ہیں۔ کراچی اور لاہور میں اس وقت ڈینگی مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور ان شہروں میں کئی اموات بھی ہو چکی ہیں۔ ہماری حکمران اس معاملے کو پسِ پشت ڈال کر چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ جن مریضوں میں ڈینگی کی تصدیق ہو جائے ان کا اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو کئی مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے خون کا اخراج بلد پریشر کا کم ہونا، سانس کی تکلیف اور ڈینگی شاک سینڈروم اور کچھ معاملوں میں مریض کی موت تک ہو سکتی ہے۔
عام طور پر صاف پانی میں یہ مچھر نشو نما پاتا ہے اس لئے احتیاطی طور پر ریفریجریٹر اے سی اور پلانٹ ٹرے میں اکٹھا پانی میں ڈینگی کے مچھر زیادہ پرورش پاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ چیزیں زیادہ تر امیر لوگوں کے دستیاب ہوتی ہیں۔ اس لئے وہاں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمارا تو نظریہ بھی یہی ہے کہ بچے چاہے امیر کے ہوں یا غریب کے، کیا کوئی بھی عوام الناس ہوں سب کی زندگی قیمتی ہوا کرتی ہے۔ میونسپل کارپوریشن کے مطابق آئے دن اسپرے کا کام ہو رہا ہے، مگر یہ اسپرے کہاں ہو رہا ہے، کس جگہ کیا جا رہا ہے، اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا، کیونکہ میں نے ابھی تک نہ تو اپنے علاقے میں اور نہ ہی کسی اور جگہ اس اسپرے مہم کو دیکھا ہے۔
Dengue Mosquito Victims
ڈینگی بخار کے باعثت ہر سال ہی لگ بھگ بیس ہزار افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ عالمی ادارہ صحت نے جاری کیا ہے جس کے مطابق ہر سال ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے پانچ کروڑ افراد اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً بیس ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جبکہ ڈینگی فیور آج کل پاکستان سمیت ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی سر ابھار چکا ہے۔ بنیادی طور پر یہ بیماری وائرس کی حامل مادہ مچھر Aedesکے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے مگر متاثرہ مریض کو کاٹنے والے مچھر دوسرے افراد تک اس وائرس کی منتقلی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی یہ بیماری خون میں موجود اعتدال کو توڑ دیتی ہے اسی وجہ سے اس بیماری کو طبی ماہرین ہڈی توڑ بخار بھی کہتے ہیں۔ اگر بر وقت اس بیماری پر قابو نہ پایا جائے تو یہ وائرس خون میں موجود سفید خلیوں کی تعداد انتہائی کم کر دیتا ہے جس کی وجہ سے بلڈ پریشر کا کم ہونا اور انسان کا صدمے کی حالت میں آ جانا سامنے آتا ہے۔ عمومی تشخیص کے طور پر ایسے مریضوں کا خون کی بوتلیں لگائی جاتی ہیں اور زیادہ خراب صورتحال میں جسم میں خون کے سفید خلیے داخل کئے جاتے ہیں۔اکثر ممالک میں موسم گرما سے قبل اسپرے اور مچھر مارنے والی ادویات کا چھڑکائو کیا جاتا ہے۔ اس بیماری کا شکار مریضوں کو جوڑوں کی شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ ساتھ نزلے اور زکام کی موجودگی اس مرض کی ایک اور عومی نشانی ہوتی ہے۔ اس مرض کا باعث بننے والے مچھر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مچھر عموماً صاف پانی میں ہی پیدا ہوتا ہے اور صرف صبح اور شام کے اوقات میں کم سخت دھوپ میں جاگ کر اس وائرس کی انسانی جسم میں منتقلی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا عوام ان اوقات میں خاص احتیاط برتیں تاکہ وہ اس موذی مرض سے بچے رہیں۔
ڈینگی کی جلد از جلد تشخیص ان تینوں پیچیدگیوں کو مناسب طریقہ سے کنٹرول کرتی ہے، جس سے مریض کی جان بچ سکتی ہے۔ اس بیماری کا مرض تین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے، ابتدائی مرحلہ میں مریض کو شدید بخار کی علامت ظاہر ہوتی ہے، یہ بخار دو سے دس دن تک رہ سکتا ہے۔ مریض کو بخار کے ساتھ ساتھ جسم میں اینٹھن شدید درد رہتا ہے۔ مرض کی شدت میں مریض کو الٹیاں (قے) شروع ہوتی ہیں جسم میں ڈی ہائیڈریشن کا عمل (پانی کی کمی ) شروع ہو جاتا ہے۔ مردوں میں ناک اور بلغم میں سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے، عورتوں میں اعضائے مخصوصہ سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد Hemorrhagic Bleeding مرحلہ میں پٹھوں کی بافتوں کی ممبرین میں سے خون آتا ہے اور مریض کے خون میں سفید خلیوں کی نمایاں کمی ہو جاتی ہے اور جگر میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے یعنی جگر بڑا ہو جاتا ہے۔
مریض کے جسم کا درجہ حرارت 39 c سے نیچے رکھا جائے، ٹھنڈے پانی کی پٹیوں کا استعمال جسم کا درجہ حرارت کم کرتا ہے۔ تیسرے مرحلہ مرض کی شدت کا ہوتا ہے اس مرحلہ میں مریض کے جسم کا درجہ حرارت 37 cسے 38 c سے کم ہو جاتا ہے، یہ مرحلہ مرض شروع ہونے کے بعد تقریباً دو چار دن بعد آتا ہے۔ اس مرحلہ میں Capillary Permeability بڑھ جاتی ہے۔ اور مریض کے خون میں پلازمہ کی مقدار کم ہو جاتی ہے، پھر مریض کو ڈرپس کی بوتلیں لگائی جاتی ہیں تاکہ جس میں پانی کا مقدار کا تناسب متوازن رہے۔
مریض کی صحت کی بحالی کا مرحلہ یوں ہے کہ اگر مریض مرض کے ابتدائی چند یعنی دس سے تیرہ دن تک زندہ رہے اور مریض کے جسم میں دیگر کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہو تو مریض کی صحت بحال ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بھوک لوٹ آتی ہے، بول چال اور احساسات میں مثبت فرق نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ دل کی دھڑکنیں متوازی اور بلڈ پریشر نارمل ہو جاتا ہے اور مریض رفتہ رفتہ زندگی کی طرف لوٹ آ تا ہے۔ خدا ئے بزرگ و برتر اُمتِ مسلمہ کو تمام موذی امراض سے محفوظ فرمائے۔