ڈینگی اس وقت کرونا کو مات دیکر پہلے نمبر پر آچکا ہے خاص کر لاہور میں تو اس نے اپنے پنجھے بہت مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں ڈینگی کے ساتھ ساتھ سموگ کا بھی لاہور میں راج ہے سب سے پہلے تو ہمیں ڈینگی کے متعلق معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ہے کیا چیز اسکے بعد ہم سموگ پر بات کرینگے ڈینگی ہے کیا؟ڈینگی ایک متعدی مرض ہے جو مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔طبی زبان میں اسے ریکٹر کہتے ہیں۔ ڈینگی ایک مچھر سے پھیلنے والی بیماری ہے جو کہ ہر سال تقریبا 100 سے 400 ملین افراد کو متاثر کرتی ہے۔ یہ بخار مچھروں کی ایک قسم Aedes کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو خود ڈینگی وائرس سے متثر ہوتا ہے اور کاٹنے کے بعد خون میں وائرس کو منتقل کر دیتا ہے۔ ڈینگی مچھر کا لاروا صاف پانی میں پیدا ہوتا ہے جبکہ پانی کی ایک چمچ ہی لاروا کی نشونما کا سبب بن سکتی ہے۔ ڈینگی وائرس ہمارے بلڈسسٹم پر اثر انداز ہوتا ہے جس کی وجہ سے پلیٹ لیٹس انتہائی کم ہو جاتے ہیں جو کہ ایک خطرناک عمل ہے۔
اگر ایسا ہو تو شدید بخار کے ساتھ ناک، منہ اور یورین میں خون آنا شروع ہو جاتا ہے جس سے ہم ہیمریجک فیور کہتے ہیں۔ اس صورتحال میں مریض کو کسی اچھے اسپتال میں داخل نہ کرایا جائے تو اس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ ایسے مریضوں کو کسی قابل ڈاکٹر کی نگرانی میں پلیٹ لیٹس انفیوڑن لگایا جاتا ہے اور بخار کے لئے صرف پیراسیٹامول دیا جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کو ڈسپرین دینا انتہائی خطرناک ہے جس کی وجہ سے مریض کا خون جاری ہو سکتا ہے۔ ڈینگی سے بچاؤ صرف احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے ڈینگی سے بچاؤ کے لیے ابھی تک کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے اس موذی مرض سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے مچھر مار سپرے اور لوشن کا استعمال کرتے رہنا چاہیے گھر سے باہر اور اندر ہاف بازو شرٹ نہیں پہننی چاہیے بلکہ پاؤں میں بھی جرابیں پہن کر رکھنی چاہیے اس مرض سے ہم تب ہی بچ سکیں گے جب تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرینگے۔
اس سلسلہ میں حکومتی اقدامات بھی قابل تعریف ہیں حکومت نے ڈینگی کی صورتحال پر قابو پانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے ہیں صوبہ بھر میں سپرے اور فوگنگ کروائی جا رہی ہے انسداد ڈینگی مہم کے لیے فیلڈ ٹیمیں بھی متحرک ہیں حکومت کے ساتھ ساتھ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہر کو صاف ستھرا رکھیں پانی کو کہیں اکٹھا نہ ہونے دیں اور ماحول کو خشک رکھیں کاٹھ کباڑ مچھروں کی Hiding place ہے ان کو اکٹھا کر ان کے نیچے مچھر مار سپرے کریں۔
جبکہ حکومت کی طرف سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں انسداد ڈینگی کے حوالہ سے اشتہارات کے ذریعے عوام کی آگاہی مہم بھی چلائی جارہے ہے میں سمجھتا ہوں معاشرے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے الیکٹرانک، سوشل، اور پرنٹ میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اس سلسلہ میں تمام محکموں کو ہدایات جاری کررکھی ہیں کہ وہ اس وبا سے چھٹکارے کے لیے دن رات ایک کردیں اور اسی مقصد کے لیے ہر سرکاری ہسپتال میں حکومت پنجاب نے ڈینگی وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لئے جدید انتظامات کیے گئے ہیں متاثرہ شخص کسی بھی سرکاری ہسپتال میں جا کر اپنا ڈینگی ٹیسٹ اور سی بی سی کروایا سکتا ہے جو کہ بالکل مفت ہے جس کے تمام اخراجات حکومت پنجاب برداشت کرتی ہے حکومت نے عوام کی سہولت کے لیے پرائیویٹ لیبارٹریز میں سی بی سی ڈینگی ٹیسٹ کی رعایتی قیمت 90 روپے رکھی گئی ہے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے لیے بستروں کا بھی انتظام کیا ہے تاکہ ایمریجنسی میں کسی بھی مریض کو تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس وقت تقریبا چالیس کروڑ پیراسیٹامول گولیاں سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب کی گئی ہیں۔اب ہم بات کرلیتے ہیں سموگ کی جس نے ڈینگی کے بعد ہمیں گھیرا ہوا ہے آج کل سموگ بہت پھیلا ہوا ہے پچھلے چند سالوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ جیسے ہی اکتوبر نومبر دسمبر کے مہینے آتے ہیں لاہور میں سموگ اہم مسئلہ بن جاتا ہے نہ صرف لاہور بلکہ پاکستان کے اور بھی بڑے شہر اس سے متاثر ہوتے ہیں اس وقت لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہے لاہور کی صحت افزا ہوا میں آج کل سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے سموگ کے زہر نے فضا آلودہ اور مطلع دھندلا کر دیا ہے۔
لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس تشویشناک حد تک بڑھ گیا گرد آلود فضا میں شہریوں کا سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے اگر یہ انڈیکس275 بھی عبور کر جائے تو یہ انسانی صحت کے لئے خطرناک ہوتا ہے ہمیں صرف اور صرف ضرورت کے وقت گھر سے نکلنا چاہیے تاکہ سموگ سے خود کو محفوظ رکھ سکیں اس سلسلہ میں حکومت نے بھی سموگ سے بچاؤ اور روک تھام کے لئے اقدامات کررکھے ہیں فصلوں، کچروں کو جلانے اور گاڑیوں کے دھوئیں کے اخراج کے ذریعے فضائی اور ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف بھر پور کاروائی کی جائیگی صوبہ بھر میں دفعہ 144 نافذ ہے جسکے تحت پورے صوبہ میں فصلوں کی باقیات، میونسپل سالڈ ویسٹ ٹائر،پلاسٹک،ربڑ اور چمڑے کی اشیاء وغیرہ کو جلانے کی پابندی ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی میں بہت حد تک اضافہ ہوتا ہے صرف نئی ٹیکنالوجی کے اینٹوں کے بھٹوں کو کام کرنے کی اجازت ہوگی سٹیل ملز،کارخانوں میں غیر معیاری ایندھن کے استعمال اور کچرا جلانے کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہوگی گاڑیوں کے دھوئیں کے خلاف بھی مکمل کریک ڈاون ہونا چاہیے نہ صرف اس سے صحت متاثر ہوتی بلکہ بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں ہم سب کو سموگ کو کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانے اور آگاہی بڑھانے کی ضرورت ہے۔