پیپلزپارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا ”میں کوئی سونے کا انڈا دینے والی مرغی نہیں، محنت کروگے تو روٹی، کپڑا اور مکان مل جائیں گے”۔ تھوڑے سے فرق کے ساتھ پیپلزپارٹی سے نکلے یا نکالے گئے فواد چودھری نے بھی وہی بات کہہ دی۔ اُس بزرجمہر نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہا ”حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا، ایک کروڑ ”سرکاری نوکریاں” فراہم کرنے کا نہیں”۔ اُس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ حکومت تو فنڈز کی کمی کی بنا پر تنخواہیں ادا کرنے سے بھی ”اوازار” اور 400 محکمے بند کر رہی ہے، بھلانئی نوکریاں کہاں سے آئیں گی۔ گویا ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر ہوئے ”ٹائیں ٹائیں فِش”۔ اگر کوئی گلہ کرے گا تو کہہ دیا جائے گا ”یہ ہمارا سیاسی بیان تھا، ہم نے اِس پر یوٹرن لے لیا”۔
جھوٹے وعدوں اور یوٹرنوں کے باوجود یہ حکومت شاید ایک آدھ سال اور نکال جاتی لیکن قدرت بھی اِس کا ساتھ دیتی نظر نہیں آتی۔ پورے پاکستان میں تیزی سے پھیلتا ہوا ”چھوٹا ڈینگی” ہی حکمرانوںکی ناک میں دَم کرنے کے لیے کافی تھا کہ ”بڑاڈینگی” اسلام آباد پر براہِ راست حملہ آور ہونے کے لیے کمربستہ ہو چکا۔حکمرانوں کی حماقت دیکھیے کہ بڑے ڈینگی کا مقابلہ کرنے کے لیے اکھاڑے میں اتارا بھی تو کسے ۔۔۔۔۔ تیلی پہلوان کو۔ اِس پر ہمیں وہ لطیفہ یاد آگیا جس میں ایک چوہے نے ہاتھی سے پوچھا ”تمہاری عمر کتنی ہے؟”۔ ہاتھی بولا ”تین سال ۔۔۔۔۔ اور تمہاری؟”۔ چوہے نے شرما کر جواب دیا ”ہے تو میری عمر بھی تین سال ہی مگر میں ذرابیمار شمار رہتا ہوں”۔ بھلا تیلی پہلوان جیسا ”کانگڑی” سیاسی اکھاڑے کے اُس ”بھولو پہلوان” کا مقابلہ کیسے کر پائے گا۔ تیلی پہلوان بیچارہ تو اپنی سانسیں ہی سنبھال پائے تو غنیمت۔ اُسے وزارتِ دفاع ملی ضرور لیکن وہ تا حال استراحت میں۔ مسلٔہ کشمیر پر ہر چھوٹے بڑے سیاستدان نے بیان داغا سوائے اُس کے۔اُدھر بھارتی وزیرِدفاع کے مسلٔہ کشمیر پر خباثتوں سے بھرپوربیانات دھڑادھڑ اور اِدھر ہمارے وزیرِدفاع ستّو پی کر سوئے ہوئے۔
خیر کشمیر تو قصّۂ پارینہ بن چکا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی مقبوضہ کشمیر کی خبروں کی جگہ دوسری خبروں نے لے لی۔ مشرقی پاکستان میں شکست ہوئی تو یحیٰی خاں نے کہا ”جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اب مودی مقبوضہ کشمیر ہڑپ کر چکالیکن ہمارے وزیرِاعظم کے خیال میں ”ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے”۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ اگر مودی جیت گیا تو کشمیر کا مسلٔہ حل ہو جائے گا۔ کیا اُن کے ذہن میں یہی حل تھا؟۔ ایک امیرِ جماعت اسلامی سراج الحق ہی رہ گئے جو کشمیر، کشمیر پکارتے رہتے ہیں لیکن اُن کی سنتا ہی کون ہے۔ ہم لکھاریوں کو بھی ریٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے اِس لیے کشمیر کو کشمیریوں کے سپرد کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ دشمن کو اپنی موت آپ مارنا ہو تو اُس کا ذکر بند کر دولیکن پی ٹی آئی کے بزرجمہروں نے اِس کے اُلٹ کیا۔ اُدھر مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کا اعلان کیا اور اِدھر بوکھلائی ہوئی ساری پی ٹی آئی مولانا کے پیچھے پڑ گئی۔ پی ٹی آئی کے نزدیک مولانا فضل الرحمٰن ”ڈینگی” سے بھی زیادہ خطرناک ہو چکے۔ اب پاکستان میں سوائے” آزادی مارچ” کے اور کوئی موضوع ہی باقی نہیں بچا۔ تجزیہ نگاروں کے تجزیے دھڑادھڑ اور وزیروں شزیروں کے بیانات صبح ومسا۔ وہ پی ٹی آئی جو کسی بھی معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کو حقارت سے ٹھکراتی چلی آرہی تھی، اب مذاکرات کے لیے مولانا کے ”منتیں ترلے” کر رہی ہے۔ شیخ رشید نے کہا ”علماء نے جب بھی تحریک چلائی ملک میں مارشل لاء لگا۔
مذاکرات کے دروازے بند کرنا جمہوریت پر شب خون مارنا ہے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے سے مسائل حل ہو جائیں گے، وہ عقل کا اندھا ہے۔ گاؤں کے سارے چودھری مر جائیں، مولانا کو اقتدار نہیں ملے گا”۔ جب سے شیخ رشید نے مولانا کو اقتدار نہ ملنے کی پیشین کی ہے، ہمیں شک ہونے لگا ہے کہ مولانا کو اقتدار ملے ہی ملے کیونکہ شیخ رشید کے فال نکالنے والے طوطے کی ہر پیشین گوئی کا نتیجہ اُلٹ ہی ہوتا ہے۔ جب شیخ رشید ڈی چوک اسلام آباددھرنے میں کنٹینر پر چڑھے عمران نیازی کے ساتھ ہر وقت کانا پھوسی کرتے رہتے تھے، کیا اُنہیں اُس وقت نہیں پتہ تھا کہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے سے مسائل حل نہیں ہوںگے؟۔ کیا اُس وقت وہ عقل کے اندھے تھے؟۔ مذاکرات کے دروازے تو اپوزیشن نے ہمیشہ کھلے رکھے لیکن مغرور ومتکبر حکمرانوں نے مذاکرات کا باب ہمیشہ بند رکھا۔ اب جب مولانا فضل الرحمٰن کسی طوفانِ بلاخیز کی مانند اُمڈتے چلے آرہے ہیں، نوازلیگ اور پیپلزپارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں اُن کی دست وبازو بن چکیں، تب حکمرانوں کو یاد آیا کہ مذاکرات کے دروازے بند کرنا جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ شیخ رشید نے کہا ”جنرل باجوا اور عمران خاں ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں”۔ بجا ارشاد! مگر جب ایک پہیہ پنکچر ہو جائے تو گاڑی رُک جاتی ہے۔ جنرل صاحب پنکچر پہیہ گھسیٹتے گھسیٹتے ”ہپ” چکے ہیں ۔۔۔۔۔ آخر کب تک؟۔ شیخ رشید کی تو بات ہی کیا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ وہ الیکشن جیت کر اپنی دونوں سیٹیں نوازشریف کے قدموں میں رکھ دوں گا۔ ووٹرز نے اُن کے اِس بیان پر اعتبار کیا اور وہ دونوں سیٹیں جیت گئے لیکن ہوا یہ کہ وہ الیکشن جیت کر آمر پرویز مشرف کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو گئے۔ یہ وہی شیخ رشید ہیں جو تاک شوز میں کہا کرتے تھے کہ عمران نیازی کے پاس تو تانگے کی سواریاں بھی نہیں اور عمران نیازی کہتے تھے ”میں شیخ رشید کو چوکیدار بھی نہ رکھوں۔ آج وہی شیخ رشید عمران نیازی کا چوکیدار۔
ماسی مصیبتے کہتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ، دونوں مولانا فضل الرحمٰن کے تانگے سے لٹکی ہوئی ہیں۔ جماعتِ اسلامی سے نکالے گئے اعجاز چودھری نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہا کہ فضل الرحمٰن غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ سوال مگریہ کہ کیا وہ لوگ غیرملکی ایجنڈے پر کام نہیں کر رہے تھے جنہوں نے 2014ء کو ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے کے دوران سول نافرمانی کا اعلان کیا، سرِ عام یوٹیلیٹی بلز جلائے، بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے پر اکسایا، پارلیمنٹ پر حملہ کرکے اُس کے گیٹ توڑے، وزیرِاعظم ہاؤس پر حملہ آور ہوئے، پی ٹی وی پر قبضہ کیا اور سپریم کورٹ کی دیواروں پر ”پوتڑے” لٹکائے؟۔ مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ ایک سال میں جتنے بھی ملین مارچ کیے، اُن میں کوئی گملہ ٹوٹا نہ پتا ہلا۔ پھر پتہ نہیں اعجاز چودھری کو غیرملکی ایجنڈا کہاں سے نظر آگیا۔ اگر مولانا صاحب اپوزیشن کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں (سوائے جماعت اسلامی کے) کے ساتھ آزادی مارچ کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے دار الحکومت میں آرہے ہیںتو اِس میں حرج ہی کیا ہے؟۔ کیا آئین اُن کو آزادیٔ اظہار کا حق نہیں دیتا؟۔ جہاں تک ”مذہب کارڈ” کے استعمال کا معاملہ ہے تو ہمیں آج تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ حکمرانوں کے نزدیک مولانا کے ”مذہب کارڈ” کا مطلب کیا ہے۔ عشروں سے اِس معاملے پر اسلام اور اسلام آباد کے مابین جنگ جاری۔ قیامِ پاکستان کے بعد قراردادِمقاصد کو آئین کا حصّہ بنایا گیا جس میں عہد کیا گیا کہ اِس مملکتِ خُداداد کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق چلایا جائے گا اور مسلمانوں کی انفرادی واجتماعی زندگیوں کو قرآن وسنت کے مطابق گزارنے کے اقدام اُٹھائے جائیں گے۔ 1973ء میں ملک کو مکمل اسلامی آئین دیا گیا۔ اسلامی نظریاتی ومشاورتی کونسلوں کے قیام کا اعلان کیا گیا اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ رکھا گیا۔ پھر مذہب کارڈ پر اتنا چیں بچیں کیوں؟۔ وزیرِاعظم ہر وقت ”ریاستِ مدینہ” کی تشکیل کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں تو کیا مجوزہ ریاستِ مدینہ ”سیکولرریاست” ہوگی؟۔
آخر میں یہ کہ ”اَت خُدا دا وَیر” اور اللہ کی رسّی دراز مگر پکڑ اُس سے بھی سخت۔شریف خاندان بیگم کلثوم نواز کا دُکھ جھیل چکا، اُن کی بیماری پر بھی طرح طرح کے افسانے گھڑے گئے اور بیماری کو شریف خاندان کا بہانہ قرار دیا گیا۔ اب حکومتی وزیرمشیر ایک دفعہ پھر میاں نوازشریف کی بیماری پر طرح طرح کے افسانے گھڑ رہے ہیں۔ اگر میاں نوازشریف (اللہ اُنہیں صحتِ کاملہ عطا فرمائے) کچھ ہو گیا تو اُن کے قتل کا ذمے دار براہِ راست چیئرمین نیب ہوگاجس کی کسٹڈی میں میاں صاحب کی یہ حالت ہوئی۔ حکومتی ڈاکٹرز کا پینل میاں نوازشریف کی حالت کو مخدوش قرار دے رہا ہے جبکہ ”ماسی مصیبتے” نے کہا کہ نوازشریف ہسپتال منتقل ہوتے ہوئے ہشاش بشاش تھے اور یہ سب ڈرامہ تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُس کی ڈگری بھی” ڈاکٹر” بابراعوان جیسی ہی ہے۔ وزیرِاعظم نے بھی اُس وقت حکومتی ارکان کو میاں صاحب کی بیماری پر زباں بندی کا حکم دیا جب ڈاکٹرز بھی پریشان ہو چکے۔ وزیرِاعظم صاحب! جب آپ کا عہدِحکومت اختتام پذیر ہوگا تو تحریکِ انصاف سے سب سے پہلے ”پھُر” ہو جانے والی یہی ”ماسی مصیبتے” ہوگی کیونکہ اُس کی یہی عادت ہے۔۔۔۔ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا نعرہ لگانے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ حضورِاکرم ۖ تو اُس عورت کی عیادت کو بھی پہنچ گئے تھے جو ہر روز آپۖ پر کوڑا پھینکتی تھی لیکن آپ کے سبھی حواری میاں صاحب کی بیماری کو ڈرامہ قراد دے رہے ہیں۔ ایسے ہی گھٹیا اور نامعقول بیانات مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری پر بھی دیئے گئے۔ کیا اب بیماریوں پر بھی سیاست ہوا کرے گی؟۔