پشاور : جامعہ پشاور کے سنٹر فارڈینر اسٹر پریپرڈنس اینڈ مینجمنٹ (سی ڈی پی ایم) کے ایم ایس سی فائنل کے طلباء نے مری، مظفر آباد اور بالا کوٹ کا تین روزہ مطالعاتی دورہ کیا۔ مطالعاتی دورے کا بنیادی مقصد طالب علموں کو پہاڑی علاقوں میں قدرتی آفات، انسان کی پیدا کردہ آفات اور عام لوگوں کی ضرر پذیری کے متعلق معلومات دینا تھا۔
دایئر دورے کے پہلے روز طلباء و طالبات کو مری ایکسپریس وے کے ساتھ لینڈ سلائیڈنگ کے شکار علاقوں میں انجینئر نگ ،سائل بائیوانجینئرنگ اور بائیو لوجیکل ترکیبات پر عملی تعلیم دی گئی۔ طلباء نے مری شہر میں کنسٹرکشن کے طرز عمل پر بھی تحقیق کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مری جیسے علاقوں میں بغیر تعمیری معیارات کے متعدد بلڈنگز موجود ہے جو کہ مستقبل میں آنے والے زلزلوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے کسی بھی وقت گر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آگ لگنے کے بھی کئی خدشات موجود ہے۔ دوسرے دن طلباء کے لیے سٹیٹ ڈینراسٹر مینجمنٹ آتھارٹی (ایس ڈی ایم اے) ۔ کشمیر آفس میں ایک واقفیتی سیمنار کا انعقاد گیا گیا۔ جہاں ایس ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر آپریشن سعید الرحمن صدیقی نے طلبا ء کو کشمیر میں قدرتی اور انسانی خطرات اور آفات پر آگاہی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ دشوار گزار پہاڑی جغرافیہ کی وجہ سے کشمیر کے لوگ زلزلوں ، دریائی سیلاب، طغیانی، برف باری اور زمینی کٹائو جیسے مسائل سے دو چار ہے۔ جوکہ لوگوں کی زندگیوں اور مال و اسباب پر بُری اثرات مرتب کرتی ہیں۔
بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر بلا شتعال فائرنگ مقامی آبادی کے لئے ایک بڑا مسئلہ تصور کیا جاتا ہے ۔ تبادلہ خیال کے دوران سعید الرحمن قریشی نے ایک طالب علم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مقامی آبادی کی زندگیوں کے حفاظت کے لئے ایس ڈی ایم اے کمیونٹی بنکر ز بنانے پر غور کر رہی ہیں۔ جوکہ مشکل اوقات میں عام لوگوں کی زندگیاں محفوظ بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ اسکے علاوہ ایس ڈی ایم اے نے کشمیر کے تمام اضلاع کے لئے ڈینزاسٹر مینجمنٹ پلاننر تیار کیے ہیں جس پر عمل درآمد کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اب تک ایس ڈی ایم اے نے سات اضلاع میں ریسکیو 1122 کا قیام بھی کر چکی ہیں لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے ایمبولینس اور بنیادی مشینری درکار تعداد سے کم ہے۔ ایس ڈی ایم اے کے اندر ریسکیو 1122 کے قیام کو طلباء نے ایک خوش آئند اقدام قرار دیا کیونکہ یہ اس ادارے کا ایک رسپانس یونٹ ہوگا اور اداروں کے درمیان مفادات کے تنازعے کو بھی کم کردیتا ہے۔ بعد ازاں طلباء کو ضلع ہٹیاں بالا کے اطراف میں ایوالانچ شلٹرز (Avalaunch Shelters) اور زلزلوں سے محفوظ کنٹرکشن کے ترکیبات پر تعلیم دی گئی۔
آخری دن طالب علموں اور اساتذہ نے 2005 کے زلزلے میں ہونے والے نقصانات ،تعمیراتی طریقوں اور موجودہ مروجہ آفات کو سٹڈی کرنے کے لیے بالا کوٹ کا بھی دورہ کیا۔ مقامی باشندوں سے انٹرویو کے دوران جب بحالی کے اقدامات میں حکومتی کارکردگی کے حوالے سے پوچھا گیا تو مقامی آراکین کے خیال میں بحالی اور تعمیرِنو کے دوران حکومتی ادارے مطلوبہ معیارات کے مطابق زلزلوں سے مزاحم انفرانسٹرکچر کی تعمیر میں ناکام ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سائسندانوں اور ماہرین کے پیشن گوئیوں کے مطابق مستقبل میں یہاں پر ایک اور خطرناک زلزلہ آنے کا اندیشہ ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادی خوف کاشکار ہے۔ زلزلے کے علاوہ بالا کوٹ کے باشندے زمینی کٹائو، تغیانی ، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور جنگلات کی کٹائی جیسے مسائل سے بھی دو چار ہیں۔
طلباء نے محکمہ جنگلات کی طرف سے مختلف واٹر شیڈ مینجمنٹ رینج ایریاز میں شجرکاری ، چیک ڈیمز اور سائل بائیوانجینئرنگ میکینزم کا بھی مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر امجد علی، مشتاق احمد جان، ماریہ غنی اور انجینئر عظمت علی شاہ نے مطالعاتی دورے کی نگرانی کی۔